Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Al-Mumin (Ghafir) (65.40)    سورة المؤمن

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔

قَالَ مُجَاهِدٌ مَجَازُهَا مَجَازُ أَوَائِلِ السُّوَرِ‏.‏ وَيُقَالُ بَلْ هُوَ اسْمٌ لِقَوْلِ شُرَيْحِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْعَبْسِيِّ يُذَكِّرُنِي حَامِيمَ وَالرُّمْحُ شَاجِرٌ فَهَلاَّ تَلاَ حَامِيمَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ الطَّوْلُ التَّفَضُّلُ ‏{‏دَاخِرِينَ‏}‏ خَاضِعِينَ‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏إِلَى النَّجَاةِ‏}‏ الإِيمَانِ ‏{‏لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ‏}‏ يَعْنِي الْوَثَنَ ‏{‏يُسْجَرُونَ‏}‏ تُوقَدُ بِهِمِ النَّارُ‏.‏ ‏{‏تَمْرَحُونَ‏}‏ تَبْطَرُونَ‏.‏ وَكَانَ الْعَلاَءُ بْنُ زِيَادٍ يُذَكِّرُ النَّارَ، فَقَالَ رَجُلٌ لِمَ تُقَنِّطُ النَّاسَ قَالَ وَأَنَا أَقْدِرُ أَنْ أُقَنِّطَ النَّاسَ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ ‏{‏يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ‏}‏ وَيَقُولُ ‏{‏وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ‏}‏ وَلَكِنَّكُمْ تُحِبُّونَ أَنْ تُبَشَّرُوا بِالْجَنَّةِ عَلَى مَسَاوِئِ أَعْمَالِكُمْ، وَإِنَّمَا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم مُبَشِّرًا بِالْجَنَّةِ لِمَنْ أَطَاعَهُ، وَمُنْذِرًا بِالنَّارِ لِمَنْ عَصَاهُ‏.

مجاہد نے کہا حم کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہے جیسے دوسری سورتوں میں حروف مقطعہ شروع میں آئے ہیں۔ ان کا بعضوں نے کہا حم (قرآن یا سورت کا) نام ہے جیسے شریح بن ابی اوفٰی نے کہا جب کہ نیزہ جنگ میں چلنے لگا پڑھتا ہے حم پہلے پڑھنا تھا الطول احسان اور فضل۔ دَاخِرِینَ ذلیل و خوار ہو کر۔ مجاہد نے کہا اَدعُوکُم الَی النَّجَاہِ میں نجات سے ایمان مراد ہے۔ لَیسَ لَہُ دَعوۃ یعنی بت کسی کی دعا قبول نہیں کر سکتا۔ یُسجَرُونَ یعنی دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ تَمرَحُونَ اتراتے تھے۔اور علاء بن زیاد (تابعی، زاہد مشھور) لوگوں کو دوزخ سے ڈرا رہے تھے۔ ایک نا نامعلوم کہنے لگا میں لوگوں کو (اللہ کی رحمت سے) نامید کیوں کرتے ہو۔ انہوں نے کہا میں لوگوں کو (اللہ کی رحمت سے) نامید کر سکتا ہوں (میرا کیا مقدر ہے)۔ اللہ تعالٰی تو فرماتا ہے میرے وہ بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (گناہ کیا) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ اس کے ساتھ پروردگار یوں فرماتا ہے کہ گناہ کرنے والے دوزخی ہیں مگر (میں سمجھ گیا) تمھارا مطلب یہ ہے کہ برے کام کرتے رہو اور بہشت کی خوشخبری تم کو مل جائے تو اللہ تعالٰی نے تو محمدﷺ کو نیکوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کے لئے دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ، مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَوَى ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ خَنْقًا شَدِيدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ، وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏{‏أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ‏}‏

Narrated By Urwa bin Az-Zubair : I asked 'Abdullah bin 'Amr bin Al-'As to inform me of the worst thing the pagans had done to Allah's Apostle. He said: "While Allah's Apostle was praying in the courtyard of the ka'ba, 'Uqba bin Abi Mu'ait came and seized Allah's Apostle by the shoulder and twisted his garment round his neck and throttled him severely. Abu Bakr came and seized 'Uqba's shoulder and threw him away from Allah's Apostle and said, "Would you kill a man because he says: 'My Lord is Allah,' and has come to you with clear Signs from your Lord?" (40.28)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺکعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے نبی ﷺسے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔