Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Kahf (65.18)     سورة الكهف

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔

وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏تَقْرِضُهُمْ‏}‏ تَتْرُكُهُمْ، ‏{‏وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ‏}‏ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ‏.‏ وَقَالَ غَيْرُهُ جَمَاعَةُ الثَّمَرِ ‏{‏بَاخِعٌ‏}‏ مُهْلِكٌ ‏{‏أَسَفًا‏}‏ نَدَمًا‏.‏ الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ‏.‏ وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ، مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنَ الرَّقْمِ ‏{‏رَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ‏}‏ أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا ‏{‏لَوْلاَ أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا‏}‏ ‏{‏شَطَطًا‏}‏ إِفْرَاطًا‏.‏ الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ جَمْعُهُ وَصَائِدُ وَوُصُدٌ وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ‏.‏ ‏{‏مُؤْصَدَةٌ‏}‏ مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ وَأَوْصَدَ ‏{‏بَعَثْنَاهُمْ‏}‏ أَحْيَيْنَاهُمْ ‏{‏أَزْكَى‏}‏ أَكْثَرُ، وَيُقَالُ أَحَلُّ وَيُقَالُ أَكْثَرُ رَيْعًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏أُكْلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ‏}‏ لَمْ تَنْقُصْ‏.‏ وَقَالَ سَعِيدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الرَّقِيمُ اللَّوْحُ مِنْ رَصَاصٍ، كَتَبَ عَامِلُهُمْ أَسْمَاءَهُمْ ثُمَّ طَرَحَهُ فِي خِزَانَتِهِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا‏.‏ وَقَالَ غَيْرُهُ وَأَلَتْ تَئِلُ تَنْجُو‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏مَوْئِلاً‏}‏ مَحْرِزًا ‏{‏لاَ يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا‏}‏ لاَ يَعْقِلُونَ‏.

مجاہد نے کہا تَقرِضُھُم کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا (کترا جاتا تھا)۔ وَکَانَ لَہُ ثُمُرٌ میں ثمر سے مراد سونا روپا ہے۔ دوسروں نے کہا کہ ثمر ثمر (یعنی پھل) کی جمع ہے۔ بَاخِعٌ یعنی ہلاک کرنے والا۔ اَسَفًا ندامت اور رنج سے۔ کھف پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ الرّقیم کا معنی لکھا ہوا ہے بمعنی مرقوم یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے رقم سے۔ رَبَطنَا عَلٰی قُلُوبھم ان کے دلوں میں میں نے صبر ڈالا (جیسے سورہ قصص میں ہے) لولا ان ربطنا علی قلبھا (وہاں بھی صبر کے معنی ہیں) شَطَطًا کا معنی حد سے بڑھ جانا۔ مِرفق جس چیز پر تکیہ لگائے۔ تَزَاوَر زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا۔ اسی سے ہے ازور بہت جھکنے والا۔ فَجوَۃ کا معنی کشادہ جگہ۔ اس کی جمع فجوات اور فجاء ہے جیسے رکوۃ کی جمع رکاء ہے۔ وَصِیدَ آنگن ، صحن، اس کی جمع وصائد اور وصد ہے۔ بعضوں نے کہا وصید دروازہ۔ مؤصدہ بند کی ہوئی۔ عرب لوگ کہتے ہیں اوصد الباب یعنی دروازی بند کر دیا۔ بَعَثنَا ھُم ہم نے ان کو زندہ کیا۔ اَزکٰی طَعَامًا یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال ہو یا خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ اُکُلُھَا میوہ اپنا۔ یہ ابن عباسؓ نے کہا وَلَم تظلِم میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباسۡ سے نقل کیا رَقِیم وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے (اصحاب کھف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی) فَضَرَبَ اللہُ عَلٰی اٰذَانِھِم اللہ نے ان کے کان بند کو دیئے (ان پر پردہ ڈال دیا)۔ ابن عباسؓ کے سوا اور لوگوں نے کہا مَوئِلًا وَاَل ئیل سے نکلا ہے (یعنی نجات پائے) اور مجاہد نے کہا موئلا محفوظ مقام۔ لَایَستَطِیعُونَ سَمعًا عقل نہیں رکھتے۔

 

Chapter No: 1

باب ‏{‏وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَىْءٍ جَدَلاً‏}‏

"But man is ever more quarrelsome than anything." (V.18:54)

باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ کَانَ الاِنسَانُ اَکثَرَ شیء جَدَلًا کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ قَالَ ‏"‏ أَلاَ تُصَلِّيَانِ ‏"‏‏.‏ ‏{‏رَجْمًا بِالْغَيْبِ‏}‏ لَمْ يَسْتَبِنْ‏.‏ ‏{‏فُرُطًا‏}‏ نَدَمًا ‏{‏سُرَادِقُهَا‏}‏ مِثْلُ السُّرَادِقِ، وَالْحُجْرَةِ الَّتِي تُطِيفُ بِالْفَسَاطِيطِ، ‏{‏يُحَاوِرُهُ‏}‏ مِنَ الْمُحَاوَرَةِ ‏{‏لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي‏}‏ أَىْ لَكِنْ أَنَا هُوَ اللَّهُ رَبِّي ثُمَّ حَذَفَ الأَلِفَ وَأَدْغَمَ إِحْدَى النُّونَيْنِ فِي الأُخْرَى‏.‏ ‏{‏زَلَقًا‏}‏ لاَ يَثْبُتُ فِيهِ قَدَمٌ‏.‏ ‏{‏هُنَالِكَ الْوَلاَيَةُ‏}‏ مَصْدَرُ الْوَلِيِّ‏.‏ ‏{‏عُقُبًا‏}‏ عَاقِبَةٌ وَعُقْبَى وَعُقْبَةٌ وَاحِدٌ وَهْىَ الآخِرَةُ قِبَلاً وَقُبُلاً وَقَبَلاً اسْتِئْنَافًا ‏{‏لِيُدْحِضُوا‏}‏ لِيُزِيلُوا، الدَّحْضُ الزَّلَقُ‏.‏

Narrated By 'Ali : That one night Allah's Apostle came to him and Fatima and said, "Don't you (both offer the (Tahajjud) prayer?" Ali said, 'When Allah wishes us to get up, we get up." The Prophet then recited: 'But man is more quarrelsome than anything.' (18.54)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺرات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگ تہجد کی نماز کیوں نہیں پڑھتے؟۔ رجما بالغیب کا معنی: خود انہیں کچھ معلوم نہیں ، یعنی بغیر علم کے رائے زنی کرنا۔فرطا کے معنی ہیں : ندامت اور شرمندگی کے ہیں ۔ سرادقہا کے معنی : قناتوں کی طرح ہر طرف سے انہیں آگ گھیر لے گی جس طرح کو ٹھڑی اور حجرے کو ہر طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ يحاوره ، محاورة سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا۔ لکنا ہو اللہ ربی دراصل یہ تھا۔ لکن أنا ہو اللہ ربی ۔ پھر "أنا " کا الف حذف کرکے نون کو نون میں ادغام کردیا گیا ، لہذا یہ لکنا ہوگیا۔ و فجرنا خلالہما نہرا کے معنی ہیں :ہم نے ان دونوں (باغوں) کے درمیان ایک نہر جاری کردی۔ زلقا کے معنی ہیں :ایسا چکنا چپڑا (میدان) جس میں پاؤں پھسل جائیں، جم نہ سکیں ۔ ہنالک الولایۃ میں الولایۃ ولی کا مصدی ہے ۔ عقبا کے معنی ہیں عاقبت ، یعنی انجام ۔ عاقبۃ ، عقبیٰ اور عقبہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ، یعنی آخرت ۔قُبُلًا ، قَبَلًا اور قَبْلًا اس لفظ کو تین طرح پڑھا گیا ہے ۔ اس کے معنی ہیں: سامنے سے آنا۔ ليدحضوا ‘ دحض سے نکلا ہے ۔ اور اس کے معنی ہیں : پھسلادینا اور زائل کردینا۔

Chapter No: 2

باب ‏{‏وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا‏}‏

The Statement of Allah, "And (remember) when Musa (Moses) said to his boy-servant, 'I will not give up (traveling) until I reach the junction of the two seas or (until) I spend years and years in traveling.'" (V.18:60)

باب : اللہ تعالٰی کے اس قول وَ اِذ قَالَ مُوسٰی لِفَتَاہُ لَا اَبرَحَ حَتّٰی اَبلُغَ کی تفسیر۔

زَمَانًا وَجَمْعُهُ أَحْقَابٌ‏

حُقُبًا کا معنی زمانہ اسکی جمع احقاب ہے (بعضوں نے کہا کہ حقب اسّی یا ستّر سال کا ہوتا ہے)

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ‏.‏ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنِي أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ إِنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ، إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ، هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ مُوسَى يَا رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ قَالَ تَأْخُذُ مَعَكَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهْوَ ثَمَّ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ، وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ، حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَنَامَا، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ، فَخَرَجَ مِنْهُ، فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ، نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتَهُمَا، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا فَقَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى ثَوْبًا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى‏.‏ فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ قَالَ أَنَا مُوسَى‏.‏ قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا‏.‏ قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا، يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لاَ تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَ اللَّهُ لاَ أَعْلَمُهُ‏.‏ فَقَالَ مُوسَى سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلاَ أَعْصِي لَكَ أَمْرًا‏.‏ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ، فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلاَ تَسْأَلْنِي عَنْ شَىْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ، لَمْ يَفْجَأْ إِلاَّ وَالْخَضِرُ قَدْ قَلَعَ لَوْحًا مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ بِالْقَدُومِ‏.‏ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا‏.‏ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا‏.‏ قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ‏"‏‏.‏ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا قَالَ وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ، فَبَيْنَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ، إِذْ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلاَمًا يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ‏.‏ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا‏.‏ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ وَهَذَا أَشَدُّ مِنَ الأُولَى، قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَىْءٍ بَعْدَهَا فَلاَ تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ ـ قَالَ مَائِلٌ ـ فَقَامَ الْخَضِرُ فَأَقَامَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا، وَلَمْ يُضَيِّفُونَا، لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا‏.‏ قَالَ ‏{‏هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا‏}‏‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا ‏"‏‏.‏ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ‏.‏

Narrated By Said bin Jubair : I said to Ibn 'Abbas, "Nauf Al-Bikali claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not the Moses of the children of Israel" Ibn 'Abbas said, "The enemy of Allah (Nauf) told a lie." Narrated Ubai bin Ka'b that he heard Allah's Apostle saying, "Moses got up to deliver a speech before the children of Israel and he was asked, Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah admonished him for he did not ascribe knowledge to Allah alone. So Allah revealed to him: 'At the junction of the two seas there is a slave of Ours who is more learned than you.' Moses asked, 'O my Lord, how can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a basket (and set out), and where you, will lose the fish, you will find him.' So Moses (took a fish and put it in a basket and) set out, along with his boy-servant Yusha' bin Nun, till they reached a rock (on which) they both lay their heads and slept. The fish moved vigorously in the basket and got out of it and fell into the sea and there it took its way through the sea (straight) as in a tunnel). (18.61) Allah stopped the current of water on both sides of the way created by the fish, and so that way was like a tunnel. When Moses got up, his companion forgot to tell him about the fish, and so they carried on their journey during the rest of the day and the whole night. The next morning Moses asked his boy-servant 'Bring us our early meal; no doubt, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' (18.62) Moses did not get tired till he had passed the place which Allah had ordered him to seek after. His boy-servant then said to him,' 'Do you remember when we be-took ourselves to the rock I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. It took its course into the sea in a marvellous way.' (18.63) There was a tunnel for the fish and for Moses and his boy-servant there was astonishment. Moses said, 'That is what we have been seeking'. So they went back retracing their footsteps. (18.64) They both returned, retracing their steps till they reached the rock. Behold ! There they found a man covered with a garment. Moses greeted him. Al-Khadir said astonishingly. 'Is there such a greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' He said, 'Are you the Moses of the children of Israel?' Moses said, 'I have come to you so that you may teach me of what you have been taught. Al-Khadir said, 'You will not be able to have patience with me. (18.66) O Moses! I have some of Allah's knowledge which He has bestowed upon me but you do not know it; and you too, have some of Allah's knowledge which He has bestowed upon you, but I do not know it." Moses said, "Allah willing, you will find me patient, and I will not disobey you in anything.' (18.6) Al-Khadir said to him. 'If you then follow me, do not ask me about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70), After that both of them proceeded along the sea coast, till a boat passed by and they requested the crew to let them go on board. The crew recognized Al-Khadir and allowed them to get on board free of charge. When they got on board suddenly Moses saw that Al-Khadir had pulled out one of the planks of the boat with an adze. Moses said to him.' These people gave us a free lift, yet you have scuttled their boat so as to drown its people! Truly, you have done a dreadful thing.' (18.71) Al-Khadir said, 'Didn't I say that you can have no patience with me ?' (18.72) Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you.)" (18.73) Allah's Apostle said, "The first excuse given by Moses, was that he had forgotten. Then a sparrow came and sat over the edge of the boat and dipped its beak once in the sea. Al-Khadir said to Moses, 'My knowledge and your knowledge, compared to Allah's knowledge is like what this sparrow has taken out of the sea.' Then they both got out of the boat, and while they were walking on the sea shore, Al-Khadir saw a boy playing with other boys. Al-Khadir got hold of the head of that boy and pulled it out with his hands and killed him. Moses said, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody! Truly, you have done an illegal thing.' (18.74) He said, "Didn't I tell you that you can have no patience with me?' (18.75) (The sub narrator said, the second blame was stronger than the first one.) Moses said, 'If I ask you about anything after this, keep me not in your company, you have received an excuse from me.' (18.76) Then they both proceeded until they came to the inhabitants of a town. They asked them food but they refused to entertain them. (In that town) they found there a wall on the point of falling down. (18.77) Al-Khadir set it up straight with his own hands. Moses said, 'These are people to whom we came, but they neither fed us nor received us as guests. If you had wished, you could surely have exacted some recompense for it. Al-Khadir said, 'This is the parting between me and you... that is the interpretation of (those things) over which you were unable to hold patience.' (18.78-82) Allah's Apostle said, "We wished that Moses could have been more patient so that Allah might have described to us more about their story."

حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے : خضر کے ساتھی حضرت موسیٰ وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے ۔ مجھے حضرت ابی بن کعب نے بتایا انہوں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا : حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کےلیے کھڑے ہوئے ۔ اس دوران میں آپ سے پوچھا گیا : لوگوں میں زیادہ عالم کون ہے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں سب سے بڑا عالم ہوں ۔ اس بات پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اے میرے رب! میں اس سے ملاقات کس طرح کرسکتا ہوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے زنبیل میں رکھ لو۔ جہاں وہ گم ہوجائے ، میرا وہ بندہ وہیں آپ سے ملے گا ، چنانچہ انہوں نے ایک مچھلی لی اور اسے زنبیل میں رکھا، پھر عازم سفر ہوئے ۔ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے ۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تووہاں سر رکھ کر سوگئے ۔ اتنے میں مچھلی زنبیل میں حرکت کرنے لگی ۔ پھر باہر کود کر اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی صورت میں بنا لیا ۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاؤ کو روک لیا اور مچھلی کےلیے ایک طاق کی طرح راستہ بن گیا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو ان کے خادم انہیں مچھلی کا واقعہ بتانا بھول گئے۔ وہ دونوں باقی دن رات چلتے رہے حتیٰ کہ دوسرے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: اب ہمارا ناشتہ لاؤ، ہمیں تو اس سفر نے بہت تھکادیا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے تھکان اس وقت محسوس کی جب اس جگہ سے آگے گزرگئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ اب ان کے خادم نے ان سے کہا: بھلا آپ نے دیکھا جب ہم اس چٹان کے پاس جاکر ٹھہرے تھے تو میں آپ کو مچھلی کا واقعہ بتانا بھول گیااور وہ مجھے صرف شیطان نے بھلوایا کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں۔ اس نے تو عجیب طریقے سے دریا میں اپنا راستہ لیا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کو راستہ کے نشانات دیکھ کر تعجب ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: یہی تو وہ جگہ تھے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے ۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑا لپیٹے ہوئے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا ۔ حضرت خضر نے کہا: تمہاری اس سرزمین میں سلام کیسے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا تعارف کرایا کہ میں موسیٰ ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: حضرت موسیٰ ، جو بنی اسرائیل کے ہیں ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں ، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ رشد و ہدایت کی تعلیم دیں جس کی آپ کو تعلیم دی گئی ہے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم دیا ہے وہ آپ نہیں جانتے اور جو علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ میں نہیں جانتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے ۔ اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: اگر آپ میرے ساتھ چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں خود اس کا حال بیان کرنا شروع کروں۔ اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے ، اتنے میں ایک کشتی گزری ، انہوں نے کشی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کرلیں۔ انہوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا اور کسی کرائے کے بغیر انہیں سوار کرلیا۔جب یہ دونوں کشتی میں بیٹھ گئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے تیشے سے کشتی کے تختوں سے ایک تختہ باہر نکال دیا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ دیکھا تو حضرت خضر علیہ السلام سے فرمایا: ان لوگوں نے ہمیں کرائے کے بغیر کشتی میں سوار کیا اور تم نے قصدا اس کا تختہ توڑ ڈالا ، تاکہ کشتی میں سوار لوگوں کو غرق کردو ، بلاشبہ آپ نے بہت ہولناک اور ناپسندیدہ کام کیا ہے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے تمہیں پہلے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکوگے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: جو بات میں بھول گیا تھا اس پر آپ مجھے معاف کردیں اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کریں۔ رسول اللہ نے فرمایا: واقعی پہلی دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا ۔ اس دوران میں ایک چڑیا آئی۔اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر دریا میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں جتنا اس چڑیا نے سمندر سے پانی کم کیا ہے۔پھر وہ دونوں کشتی سے اتر گئے ۔ ابھی وہ سمندر کے کنارے کنارے جارہے تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر پکڑا اور اس کے تن سے جدا کردیا اور اسے مار دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: آپ نے ایک بے گناہ اور معصوم جان کو بغیر کسی جان کے بدلے ماردیاہے ، یقینا آپ نے انتہائی ناپسندیدہ کام کیا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکوگے ۔ راوی نے کہا: یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آخر اس مرتبہ بھی معذرت کرلی کہ اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا۔ آپ میرا بار بار عذر سن چکے ہیں ۔ پھر دونوں روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا: ہمیں اپنامہمان بنالو ، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کردیا۔ پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی ، یعنی وہ جھک رہی تھی ۔ حضرت خضر کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے دیوار کو سیدھا کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ہم ان لوگوں کے پاس آئے او ران سے مہمانی کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے صاف انکار کردیا۔ اگر آپ چاہتے تو دیوار سیدھی کرنے پر اجرت لے سکتے تھے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: یہ میری اور آپ کی جدائی کا وقت ہے ۔۔۔۔ اب یہ حقیقت ہے ان معاملات کی جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہماری یہ خواہش تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے مزید واقعات ہم سے بیان کرتا۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس طرح آیت کی تلاوت کرتے تھے : "کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی چھین لیتا تھا " اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کرتے تھے : "اور وہ بچہ تو کافر تھا جبکہ اس کے والدین مومن تھے"۔

Chapter No: 3

باب قَوْلِهِ ‏{‏فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِسَرَبًا‏}‏

The Statement of Allah, "But when they reached the junction of the two seas, they forgot their fish, and it took its way through the sea as in a tunnel." (V.18:61)

باب : اللہ تعالٰی کے اس قول فَلَمَّا بَلَغَا مَجمَعَ بَینَھُمَا نَسِیَا حُوتَھُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی البَحرِ سَرَبًا کی تفسیر۔

مَذْهَبًا يَسْرُبُ يَسْلُكُ، وَمِنْهُ ‏{‏وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ‏}‏

سَرَبَ (بفتحتین) رستی یعنی مذہب، طریق۔ اسی سے ہے سَارِبٌ بالنَّھَارِ یعنی دین کو رستہ چلنے والا۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرَهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ، إِذْ قَالَ سَلُونِي قُلْتُ أَىْ أَبَا عَبَّاسٍ ـ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ ـ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ، يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، أَمَّا عَمْرٌو فَقَالَ لِي قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، وَأَمَّا يَعْلَى فَقَالَ لِي قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ قَالَ ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتِ الْعُيُونُ، وَرَقَّتِ الْقُلُوبُ وَلَّى، فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ أَىْ رَسُولَ اللَّهِ هَلْ فِي الأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ لاَ، فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ قِيلَ بَلَى قَالَ أَىْ رَبِّ فَأَيْنَ قَالَ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ قَالَ أَىْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ لِي عَمْرٌو قَالَ ‏"‏ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ ‏"‏‏.‏ وَقَالَ لِي يَعْلَى قَالَ ‏"‏ خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ فَقَالَ لِفَتَاهُ لاَ أُكَلِّفُكَ إِلاَّ أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ‏.‏ قَالَ مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ ‏{‏وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ‏}‏ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ ـ لَيْسَتْ عَنْ سَعِيدٍ ـ قَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ، إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ، وَمُوسَى نَائِمٌ، فَقَالَ فَتَاهُ لاَ أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ، وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ، حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ ـ قَالَ لِي عَمْرٌو هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ، وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ وَاللَّتَيْنِ تَلِيانِهِمَا ـ لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ ـ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ ـ أَخْبَرَهُ، فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا ـ قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ـ عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ ـ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ـ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ، وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلاَمٍ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَى‏.‏ قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَمَا شَأْنُكَ قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا‏.‏ قَالَ أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ، وَأَنَّ الْوَحْىَ يَأْتِيكَ، يَا مُوسَى إِنَّ لِي عِلْمًا لاَ يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لاَ يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ، فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ وَقَالَ وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ، حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الآخَرِ عَرَفُوهُ، فَقَالُوا عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ ـ قَالَ قُلْنَا لِسَعِيدٍ خَضِرٌ قَالَ نَعَمْ ـ لاَ نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ، فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا‏.‏ قَالَ مُوسَى أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا ـ قَالَ مُجَاهِدٌ مُنْكَرًا ـ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا كَانَتِ الأُولَى نِسْيَانًا وَالْوُسْطَى شَرْطًا وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، لَقِيَا غُلاَمًا فَقَتَلَهُ ـ قَالَ يَعْلَى قَالَ سَعِيدٌ ـ وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، فَأَخَذَ غُلاَمًا كَافِرًا ظَرِيفًا فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ‏.‏ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ ـ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلاَمًا زَكِيًّا ـ فَانْطَلَقَا، فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ ـ قَالَ سَعِيدٌ بِيَدِهِ هَكَذَا ـ وَرَفَعَ يَدَهُ فَاسْتَقَامَ ـ قَالَ يَعْلَى ـ حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا قَالَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ فَاسْتَقَامَ، لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ـ قَالَ سَعِيدٌ أَجْرًا نَأْكُلُهُ ـ وَكَانَ وَرَاءَهُمْ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ ـ قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ ـ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدٍ، وَالْغُلاَمُ الْمَقْتُولُ، اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا، فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا، فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا فَانْتَفَعُوا بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ بِالْقَارِ، كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ، وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا، أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً لِقَوْلِهِ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالأَوَّلِ، الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلاَ جَارِيَةً، وأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ فَقَالَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ‏"‏‏.‏

Narrated By Ibn Juraij : Ya'la bin Muslim and 'Amr bin Dinar and some others narrated the narration of Said bin Jubair. Narrated Said: While we were at the house of Ibn 'Abbas, Ibn 'Abbas said, "Ask me (any question)" I said, "O Abu Abbas! May Allah let me be sacrificed for you ! There is a man at Kufa who is a story-teller called Nauf; who claims that he (Al-Khadir's companion) is not Moses of Bani Israel." As for 'Amr, he said to me, "Ibn 'Abbas said, "(Nauf) the enemy of Allah told a lie." But Ya'la said to me, "Ibn 'Abbas said, Ubai bin Ka'b said, Allah's Apostle said, 'Once Moses, Allah's Apostle, preached to the people till their eyes shed tears and their hearts became tender, whereupon he finished his sermon. Then a man came to Moses and asked, 'O Allah's Apostle! Is there anyone on the earth who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So Allah admonished him (Moses), for he did not ascribe all knowledge to Allah. It was said, (on behalf of Allah), 'Yes, (there is a slave of ours who knows more than you).' Moses said, 'O my Lord! Where is he?' Allah said, 'At the junction of the two seas.' Moses said, 'O my Lord ! Tell I me of a sign whereby I will recognize the place.' " 'Amr said to me, Allah said, "That place will be where the fish will leave you." Ya'la said to me, "Allah said (to Moses), 'Take a dead fish (and your goal will be) the place where it will become alive.' " So Moses took a fish and put it in a basket and said to his boy-servant "I don't want to trouble you, except that you should inform me as soon as this fish leaves you." He said (to Moses)." You have not demanded too much." And that is as mentioned by Allah: 'And (remember) when Moses said to his attendant...' (18.60) Yusha' bin Nun. (Said did not state that). The Prophet said, "While the attendant was in the shade of the rock at a wet place, the fish slipped out (alive) while Moses was sleeping. His attend an said (to himself), "I will not wake him, but when he woke up, he forgot to tell him The fish slipped out and entered the sea. Allah stopped the flow of the sea. where the fish was, so that its trace looked as if it was made on a rock. 'Amr forming a hole with his two thumbs an index fingers, said to me, "Like this, as in its trace was made on a rock." Moses said "We have suffered much fatigue on this journey of ours." (This was not narrate by Said). Then they returned back and found Al-Khadir. 'Uthman bin Abi Sulaiman said to me, (they found him) on a green carpet in the middle of the sea. Al-Khadir was covered with his garment with one end under his feet and the other end under his head. When Moses greeted, he uncovered his face and said astonishingly, 'Is there such a greeting in my land? Who are you?' Moses said, 'I am Moses.' Al-Khadir said, 'Are you the Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes.' Al-Khadir said, "What do you want?' Moses said, ' I came to you so that you may teach me of the truth which you were taught.' Al-Khadir said, 'Is it not sufficient for you that the Torah is in your hands and the Divine Inspiration comes to you, O Moses? Verily, I have a knowledge that you ought not learn, and you have a knowledge which I ought not learn.' At that time a bird took with its beak (some water) from the sea: Al-Khadir then said, 'By Allah, my knowledge and your knowledge besides Allah's Knowledge is like what this bird has taken with its beak from the sea.' Until, when they went on board the boat (18.71). They found a small boat which used to carry the people from this sea-side to the other sea-side. The crew recognized Al-Khadir and said, 'The pious slave of Allah.' (We said to Said "Was that Khadir?" He said, "Yes.") The boat men said, 'We will not get him on board with fare.' Al-Khadir scuttled the boat and then plugged the hole with a piece o wood. Moses said, 'Have you scuttle it in order to drown these people surely, you have done a dreadful thing. (18.71) (Mujahid said. "Moses said so protestingly.") Al-Khadir said, didn't I say that you can have no patience with me?' (18.72) The first inquiry of Moses was done because of forget fullness, the second caused him to be bound with a stipulation, and the third was done he intentionally. Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you).' (18.73) (Then) they found a boy and Al-Khadir killed him. Ya'la- said: Said said 'They found boys playing and Al-Khadir got hold of a handsome infidel boy laid him down and then slew him with knife. Moses said, 'Have you killed a innocent soul who has killed nobody' (18.74) Then they proceeded and found a wall which was on the point of falling down, and Al-Khadir set it up straight Said moved his hand thus and said 'Al-Khadir raised his hand and the wall became straight. Ya'la said, 'I think Said said, 'Al-Khadir touched the wall with his hand and it became straight (Moses said to Al-Khadir), 'If you had wished, you could have taken wages for it. Said said, 'Wages that we might had eaten.' And there was a king in furor (ahead) of them" (18.79) And there was in front of them. Ibn 'Abbas recited: 'In front of them (was) a king.' It is said on the authority of somebody other than Said that the king was Hudad bin Budad. They say that the boy was called Haisur. 'A king who seized every ship by force. (18.79) So I wished that if that boat passed by him, he would leave it because of its defect and when they have passed they would repair it and get benefit from it. Some people said that they closed that hole with a bottle, and some said with tar. 'His parents were believers, and he (the boy) was a non-believer and we(Khadir) feared lest he would oppress them by obstinate rebellion and disbelief.' (18.80) (i.e. that their love for him would urge them to follow him in his religion, 'so we (Khadir) desired that their Lord should change him for them for one better in righteousness and near to mercy' (18:81). This was in reply to Moses' saying: Have you killed an innocent soul.'? (18.74). 'Near to mercy" means they will be more merciful to him than they were to the former whom Khadir had killed. Other than Sa'id, said that they were compensated with a girl. Dawud bin Abi 'Asim said on the authority of more than one that this next child was a girl.

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر تھے ، انہوں نے فرمایا: مجھ سے کوئی سوال کرو۔ میں نے عرض کی : ابو عباس ! اللہ تعالیٰ آپ پر مجھے قربان کرے !کوفہ میں ایک آدمی واعظ ہے ، جسے نوف کہا جاتا ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنے والے موسیٰ بنو اسرائیل کے موسیٰ نہیں تھے ۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے کیونکہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں ۔ انہوں نے ایک دن لوگوں کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل پسیج گئے ۔ جب آپ واپس جانے لگے تو ایک شخص نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق اظہار خفگی فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی۔ ان سے کہا گیا : کیوں نہیں ؟ بلکہ آپ سے بڑھ کر ایک عالم ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اے میرے رب ! وہ کہاں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دو دریاؤں کے سنگم پر ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرمادے جس کے ذریعے سے میں اسے معلوم کرسکوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جہاں تم سے مچھلی جدا ہوجائے ، یعنی ایک مردہ مچھلی لو ، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے وہ اس جگہ ہوں گے ، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی ساتھ لے لی اور اسے اپنی زنبیل میں رکھ لیا ۔ آپ نے اپنے خادم (یوشع) سے فرمایا: میں تمہیں بس اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے مطلع کرنا۔ خادم نے کہا: یہ کون سی بڑی تکلیف ہے ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد : واذ قال موسیٰ لفتہ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ خادم رفیق سفر حضرت یوشع بن نون تھے ۔ سعید بن جبیر نے اس کا نام نہیں لیا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سائے میں ٹھہر گئے جہاں نمی اورٹھنڈک تھی ۔ اس وقت مچھلی نے حرکت کی اور دریا میں کود گئی جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس وقت سورہے تھے ۔خادم نے کہا: اس وق آپ کو جگانا مناسب نہیں ہے ، لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو وہ انہیں مچھلی کا حال بتانا بھول گئے ۔ اس دوران میں مچھلی حرکت کرکے دریا میں کود گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے کودنے کی جگہ پانی کا بہاؤ روک دیا اور مچھلی کا نشان اس پتھر پر بن گیا جس کے اوپر سے گزر کر گئی تھی۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج ) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پر بن گیا ۔ اور انہوں نے دونوں انگوٹھوں اور شہادت کی انگلیوں کو جوڑ کر ایک حلقے کی طرح پتھر پر پڑے ہوئے نشان کو نمایاں کیا۔۔۔ (بیدار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔) آخر کہنے لگے: ہمیں اس سفر میں تھکن ہورہی ہے ۔ ان کے خادم نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی تھکن کو دور کردیا ہے۔یہ الفاظ سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم دونوں واپس لوٹے اور وہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی جو دریا کے درمیان میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے ۔ حضرت سعید بن جبیر نے اپنی روایت میں یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے ۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں پہنچ کر سلام کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے چہرے سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا: میری اس سرزمین میں سلام کا رواج کہاں سے آگیا؟ آپ کون ہیں ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں موسیٰ ہوں ۔ انہوں نے پوچھا : آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ مجھے بھی سکھادیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا آپ کو یہ کافی نہیں کہ تورات آپ کے پاس ہے اور وحی بھی آ پ کے پاس آتی ہے اے موسیٰ !۔ میرے پاس علم ہے آپ کے لیے اس کا جاننا ضروری نہیں ، اور اسی طرح آپ کے پاس علم ہے میرے لیے اس کا جاننا مناسب نہیں۔اس دوران میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے ۔ بہرحال کشتی پر چڑھتے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جاکر چھوڑ آتی تھیں ۔ ملاحوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا: یہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہیں ۔ ہم نے سعید بن جبیر سے کہا: انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچانا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں ، کشتی والوں نے کہا: ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے لیکن حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کا تختہ توڑ دیا اور اس کی جگہ میخیں گاڑ دیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے کشتی کا تختہ اس لیے نکالا ہے تاکہ کشتی میں سوار لوگوں کو غرق کردیں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا ناگوار کام کیاہے۔ مجاہد نے کہا: امرا کے معنی ہیں منکرا۔ یہ سن کر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سوال بھولنے کی وجہ سے تھا۔ لیکن دوسرا بطور شرط اور تیسرا قصدا بطور اعتراض تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: جو میں بھول گیا ہوں اس کے بارے میں مجھ سے مؤاخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھے تنگی میں نہ ڈالیں ۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو (حضرت خضر علیہ السلام نے ) اسے قتل کردیا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی تفصیل بیان کی کہ حضرت خضر علیہ السلام کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے ۔ انہوں نے ان بچوں میں سے ایک بچے کو پکرا جو کافر اور چالاک تھااور اسے لٹاکر چھری سے ذبح کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے بلاوجہ ایک بے گناہ بچے کو قتل کردیا۔ حالانکہ اس نے کوئی برا کام نہیں کیا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مقام پر لفظ زکیۃ کو زاکیۃ پڑھا کرتے تھے۔ اس کے معنی مسلمان کے ہیں جیسا کہ غلاما زکیا کو نفس زکیہ کہا جاتا ہے ۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی ۔ جو بس گرنے ہی والی تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اسے درست کردیا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا "اس طرح " یعنی حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی تشریح کی اجرت جسے ہم کھاسکتے تھے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وکان وراء ہم ملک کو وکان امامہم ۔۔۔ پڑھا ہے ۔ یعنی ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسروں کی روایت میں اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد ہے اور جس بچے کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ حیسور بیان کرتے ہیں ۔ وہ بادشاہ ہر (نئی ) کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے ۔ پھر جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزرجائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کرلیں گے ۔ اور اسے کام میں لاتے رہیں گے ۔ بعض نے کہا: انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ پگھلاکر جوڑ لیا تھا ۔اور کچھ کہتے ہیں کہ تارکول سے سوراخ بند کرلیا تھا۔ (اور جس بچے کو قتل کردیا تھا تو)اس کے والدین مومن تھے جبکہ بچہ کافر تھا ۔ اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کردے۔اس طرح کہ وہ لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوکر اس کے دین کی پیروی کرلیں گے ۔ اس لیے ہم نے یہ ارادہ کیا کہ ان کا رب اس سے بہتر بچہ ان کی عنایت کردے جو پاکباز (اور صلہ رحمی کرنے والا ہو ) ۔ (یہ جواب ہے اس کا کہ ) تو نے ایک بے قصور جان کو قتل کر دیا۔ واقرب رحما کے معنی ہیں کہ اس کے والدین اس بچے پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے بچے سے زیادہ مہربان ہوں گے جسے حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کردیا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا: اس کے والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن عاصم کئی ایک راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔

Chapter No: 4

باب قَوْلِهِ ‏{‏فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏قَصَصًا‏}‏

The Statement of Allah, "So when they had passed further on (beyond that fixed place), Musa (Moses) said to his boy-servant, 'Bring us our morning meal, truly we have suffered much fatigue in our journey ... retracting their footsteps" (V.18:62,63)

باب : اللہ تعالٰی کے اس قول فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاہُ اٰتِنَا غَدَاءَنَا لَقَد لَقِینَا مِن سَفَرِنَا ھَذَا نَصَبًا الی قولہ قَصَصًا کی تفسیر۔

{‏صُنْعًا‏}‏ عَمَلاً ‏{‏حِوَلاً‏}‏ تَحَوُّلاً ‏{‏قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا‏}‏ ‏{‏إِمْرًا‏}‏ وَ‏{‏نُكْرًا‏}‏ دَاهِيَةً ‏{‏يَنْقَضَّ‏}‏ يَنْقَاضُ كَمَا تَنْقَاضُ السِّنُّ لَتَخِذْتَ وَاتَّخَذْتَ وَاحِدٌ ‏{‏رُحْمًا‏}‏ مِنَ الرُّحْمِ، وَهْىَ أَشَدُّ مُبَالَغَةً مِنَ الرَّحْمَةِ، وَنَظُنُّ أَنَّهُ مِنَ الرَّحِيمِ، وَتُدْعَى مَكَّةُ أُمَّ رُحْمٍ أَىِ الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ بِهَا‏

صنعا کا معنی عمل۔ حِوَلًا پھر جانا۔ قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبغِ فَارتَدَّ عَلٰی اٰثَارِھِمَا قَصَصًا۔ اِمرًا کا معنی عجیب بات۔ نُکرا کا بھی یہی معنی ہے۔ یَنقَضَّ اور ینقاض دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے کہتے ہیں ینقاض السِّنّ یعنی دانت گر رہا ہے۔ لتخذت اور لاتحذت (دونوں قراءتیں ہیں) دونون کا ایک معنی ہیں۔ رُحُمًا رحم سے نکلا ہے جس کا معنی بہت رحمت، تو یہ مبالغہ رحمت کا ہے اور ہم سمجھتے ہیں (یا لوگ سمجھتے ہیں) کہ یہ رحیم سے نکلا ہے اور اسی لئے مکہ کو ام رحیم کہتے ہیں کیونکہ وہاں پروردگار کی رحمت اتری ہے۔

حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى الْخَضِرِ‏.‏ فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقِيلَ لَهُ أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ قَالَ أَنَا، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ، إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، وَأَوْحَى إِلَيْهِ بَلَى عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ، هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ أَىْ رَبِّ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ قَالَ فَخَرَجَ مُوسَى، وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَنَزَلاَ عِنْدَهَا قَالَ فَوَضَعَ مُوسَى رَأْسَهُ فَنَامَ ـ قَالَ سُفْيَانُ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو قَالَ ـ وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لاَ يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَىْءٌ إِلاَّ حَيِيَ، فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَاءِ تِلْكَ الْعَيْنِ، قَالَ فَتَحَرَّكَ، وَانْسَلَّ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَدَخَلَ الْبَحْرَ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَى ‏{‏قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا‏}‏ الآيَةَ قَالَ وَلَمْ يَجِدِ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ، قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ ‏{‏أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ‏}‏ الآيَةَ قَالَ فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا، فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ كَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ، فَكَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا، وَلِلْحُوتِ سَرَبًا قَالَ فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّى بِثَوْبٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى قَالَ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ فَقَالَ أَنَا مُوسَى‏.‏ قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا‏.‏ قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لاَ أَعْلَمُهُ، وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لاَ تَعْلَمُهُ‏.‏ قَالَ بَلْ أَتَّبِعُكَ‏.‏ قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلاَ تَسْأَلْنِي عَنْ شَىْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ ـ يَقُولُ بِغَيْرِ أَجْرٍ ـ فَرَكِبَا السَّفِينَةَ قَالَ وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ الْبَحْرَ فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى مَا عِلْمُكَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلاَئِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى، إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى قَدُومٍ فَخَرَقَ السَّفِينَةَ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا ‏{‏لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ‏}‏ الآيَةَ فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلاَمٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ‏.‏ قَالَ لَهُ مُوسَى ‏{‏أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا * قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ‏}‏ فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ، فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا، لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا‏.‏ قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا ‏"‏‏.‏ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا‏.‏

Narrated By Said bin Jubair : I said to Ibn 'Abbas, "Nauf-al-Bakali " claims that Moses of Bani Israel was not Moses, the companion of Al-Khadir." Ibn 'Abbas said, "Allah's enemy tells a lie! Ubai bin Ka'b narrated to us that Allah's Apostle said, 'Moses got up to deliver a sermon before Bani Israel and he was asked, 'Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah then admonished Moses for he did not ascribe all knowledge to Allah only (Then) came the Divine Inspiration: 'Yes, one of Our slaves at the junction of the two seas is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord ! How can meet him?' Allah said, 'Take a fish in a basket and wherever the fish is lost, follow it (you will find him at that place). So Moses set out along with his attendant Yusha' bin Nun, and they carried with them a fish till they reached a rock and rested there. Moses put his head down and slept. (Sufyan, a sub-narrator said that somebody other than 'Amr said) 'At the rock there was a water spring called 'Al-Hayat' and none came in touch with its water but became alive. So some of the water of that spring fell over that fish, so it moved and slipped out of the basket and entered the sea. When Moses woke up, he asked his attendant, 'Bring our early meal' (18.62). The narrator added: Moses did not suffer from fatigue except after he had passed the place he had been ordered to observe. His attendant Yusha bin Nun said to him, 'Do you remember (what happened) when we betook ourselves to the rock? I did indeed forget (about) the fish...' (18.63) The narrator added: So they came back, retracing their steps and then they found in the sea, the way of the fish looking like a tunnel. So there was an astonishing event for his attendant, and there was tunnel for the fish. When they reached the rock, they found a man covered with a garment. Moses greeted him. The man said astonishingly, 'Is there any such greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man said, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes,' and added, 'may I follow you so that you teach me something of the Knowledge which you have been taught?' (18.66). Al-Khadir said to him, 'O Moses! You have something of Allah's knowledge which Allah has taught you and which I do not know; and I have something of Allah's knowledge which Allah has taught me and which you do not know.' Moses said, 'But I will follow you.' Al-Khadir said, 'Then if you follow me, ask me no question about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70). After that both of them proceeded along the seashore. There passed by them a boat whose crew recognized Al-Khadir and received them on board free of charge. So they both got on board. A sparrow came and sat on the edge of the boat and dipped its beak unto the sea. Al-Khadir said to Moses. 'My knowledge and your knowledge and all the creation's knowledge compared to Allah's knowledge is not more than the water taken by this sparrow's beak.' Then Moses was startled by Al-Khadir's action of taking an adze and scuttling the boat with it. Moses said to him, 'These people gave us a free lift, but you intentionally scuttled their boat so as to drown them. Surely you have...' (18.71) Then they both proceeded and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of him by the head and cut it off. Moses said to him, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody? Surely you have done an illegal thing! ' (18.74) He said, "Didn't I tell you that you will not be able to have patient with me up to... but they refused to entertain them as their guests. There they found a wall therein at the point of collapsing.' (18.75-77) Al-Khadir moved his hand thus and set it upright (repaired it). Moses said to him, 'When we entered this town, they neither gave us hospitality nor fed us; if you had wished, you could have taken wages for it,' Al-Khadir said, 'This is the parting between you and me I will tell you the interpretation of (those things) about which you were unable to hold patience.'... (18.78) Allah's Apostle said, 'We wished that Moses could have been more patient so that He (Allah) could have described to us more about their story.' Ibn 'Abbas used to recite: 'And in front (ahead) of them there was a king who used to seize every (serviceable) boat by force. (18.79)... and as for the boy he was a disbeliever."

حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ کے دشمن نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو تبلیغ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا ہے اور وہ تم سےزیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ بیان کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے،مچھلی ان کے پاس تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے حیات کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا «قال لفتاه آتنا غداءنا‏» کہ ہمارا ناشتہ لاؤ ۔ بیان کیا کہ سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا «أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت‏» آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ آپ نے فرمایا : میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو حضرت خضر علیہ السلام کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں بغیر کرایہ کے بٹھالیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو حضرت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر اچانک حضرت خضر علیہ السلام نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو توڑ ڈالا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا،حضرت خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اسے جسم سے الگ کردیا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بہت بری بات ہے۔حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔حضرت خضر علیہ السلام نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ کاش حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما «وكان وراءهم ملك» کی بجائے «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» قرآت کرتے تھے اور بچہ (جسے قتل کیا تھا) اس کے والدین مومن تھے۔ اور یہ بچہ کافر تھا۔

Chapter No: 5

باب قَوْلِهِ ‏{‏قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً‏}‏

The Statement of Allah, "Say (O Muhammad (s.a.w))! Shall We tell you the greatest losers in respect of (their) deeds?" (V.18:103)

باب : اللہ تعالٰی کے اس قول قُل ھَل نُنَبِّئُکُم بِالاَخسَرِینَ اَعمَالًاکی تفسیر

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُصْعَبٍ، قَالَ سَأَلْتُ أَبِي ‏{‏قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً‏}‏ هُمُ الْحَرُورِيَّةُ قَالَ لاَ، هُمُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، أَمَّا الْيَهُودُ فَكَذَّبُوا مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم وَأَمَّا النَّصَارَى كَفَرُوا بِالْجَنَّةِ وَقَالُوا لاَ طَعَامَ فِيهَا وَلاَ شَرَابَ، وَالْحَرُورِيَّةُ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ، وَكَانَ سَعْدٌ يُسَمِّيهِمُ الْفَاسِقِينَ‏

Narrated By Musab : I asked my father, "Was the Verse: 'Say: (O Muhammad) Shall We tell you the greatest losers in respect of their deeds?'(18.103) revealed regarding Al-Haruriyya?" He said, "No, but regarding the Jews and the Christians, for the Jews disbelieved Muhammad and the Christians disbelieved in Paradise and say that there are neither meals nor drinks therein. Al- Hururiyya are those people who break their pledge to Allah after they have confirmed that they will fulfil it, and Sad used to call them 'Al-Fasiqin (evildoers who forsake Allah's obedience).

حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے آیت «قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا‏» کے متعلق سوال کیا کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا ان سے خوارج مراد ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہود نے تو محمد ﷺکی تکذیب کی اور نصاریٰ نے جنت کا انکار کیا ، ان کا کہنا تھاکہ اس میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملے گی ۔ خوارج وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے عہد و میثاق کو توڑا حضرت سعد رضی اللہ عنہ انہیں فاسق کہا کرتے تھے۔

Chapter No: 6

باب ‏{‏أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ‏}‏ الآيَةَ

"They are those who deny in the Ayat of their Lord and the Meeting with Him (in the Hereafter). So their works are in vain ..." (V.18:105)

باب : اللہ تعالٰی کے اس قول اُلٰئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِاٰیاتِ رَبِّھِم وَ لِقَائِہِ کی تفسیر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ يَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَقَالَ اقْرَءُوا ‏{‏فَلاَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا‏}‏ ‏"‏‏.‏ وَعَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ مِثْلَهُ‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "On the Day of Resurrection, a huge fat man will come who will not weigh, the weight of the wing of a mosquito in Allah's Sight." and then the Prophet added, 'We shall not give them any weight on the Day of Resurrection ' (18.105)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : بلاشبہ قیامت کے دن ایک بھاری بھر کم، موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر و قیمت نہیں رکھے گا ۔ اگر اس کی تصدیق کرنا چاہو تو اس آیت کو پڑھو: «فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا‏» قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔