Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Book of Divorce (68)    كتاب الطلاق

‹ First3456

Chapter No: 41

باب قِصَّةِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ, قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏{‏وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لاَ تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ}

The story of Fatima bint Qais and the Statement of Allah, "And fear Allah your Lord and turn them not out of their (husband's) homes ..." (V.65:1)

باب : فاطمہ بنت قیس کے قصے کا بیان اوراللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا تم خدا سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے اور ان عورتوں کو ان کے گھر سے مت نکالو (اخیر آیت تک)

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنى مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَذْكُرُ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى مَرْوَانَ وَهْوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدْهَا إِلَى بَيْتِهَا‏.‏ قَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ غَلَبَنِي‏.‏ وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ لاَ يَضُرُّكَ أَنْ لاَ تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ‏.‏ فَقَالَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ إِنْ كَانَ بِكِ شَرٌّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ‏.‏

Narrated By Qasim bin Muhammad and Sulaiman bin Yasar : That Yahya bin Said bin Al-'As divorced the daughter of 'Abdur-Rahman bin Al-Hakarn. Abdur-Rahman took her to his house. On that 'Aisha sent a message to Marwan bin Al-Hakam who was the ruler of Medina, saying, "Fear Allah, and urge your brother) to return her to her house." Marwan (in Sulaiman's version) said, "Abdur-Rahman bin Al-Hakam did not obey me (or had a convincing argument)." (In Al-Qasim's versions Marwan said, "Have you not heard of the case of Fatima bint Qais?" 'Aisha said, "The case of Fatima bint Qais is not in your favour.' Marwan bin Al-Hakam said to 'Aisha, "The reason that made Fatima bint Qais go to her father's house is just applicable to the daughter of 'Abdur-Rahman."

قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبد الرحمن بن حکم کی صاحبزادی کو طلاق دے دی تو عبد الرحمن اپنی بیٹی کو وہاں سے لے گئے (عدت کے ایام گزرنے سے قبل) ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مروان بن حکم کو جو اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے پیغام بھیجا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو واپس اس کے گھر بھیج دو۔ مروان نے جواب دیا کہ اس کا باپ عبد الرحمن مجھ پر غالب آگیا ہے (میری بات نہیں مانتا) ، نیز کہا: کہ آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی خبر نہیں پہنچی ؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : اگر تو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ ذکر نہ کرے تو تجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ مروان بن حکم نے کہا: اگر آپ کے نزدیک یہ باہمی کشیدگی کی وجہ سے ایسا ہوا تو یہاں بھی یہی وجہ کار فرما ہے کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کشیدگی تھی۔


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنى مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَذْكُرُ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى مَرْوَانَ وَهْوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدْهَا إِلَى بَيْتِهَا‏.‏ قَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ غَلَبَنِي‏.‏ وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ لاَ يَضُرُّكَ أَنْ لاَ تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ‏.‏ فَقَالَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ إِنْ كَانَ بِكِ شَرٌّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ‏.

Narrated By Qasim bin Muhammad and Sulaiman bin Yasar : That Yahya bin Said bin Al-'As divorced the daughter of 'Abdur-Rahman bin Al-Hakarn. Abdur-Rahman took her to his house. On that 'Aisha sent a message to Marwan bin Al-Hakam who was the ruler of Medina, saying, "Fear Allah, and urge your brother) to return her to her house." Marwan (in Sulaiman's version) said, "Abdur-Rahman bin Al-Hakam did not obey me (or had a convincing argument)." (In Al-Qasim's versions Marwan said, "Have you not heard of the case of Fatima bint Qais?" 'Aisha said, "The case of Fatima bint Qais is not in your favour.' Marwan bin Al-Hakam said to 'Aisha, "The reason that made Fatima bint Qais go to her father's house is just applicable to the daughter of 'Abdur-Rahman."

قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبد الرحمن بن حکم کی صاحبزادی کو طلاق دے دی تو عبد الرحمن اپنی بیٹی کو وہاں سے لے گئے (عدت کے ایام گزرنے سے قبل) ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مروان بن حکم کو جو اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے پیغام بھیجا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو واپس اس کے گھر بھیج دو۔ مروان نے جواب دیا کہ اس کا باپ عبد الرحمن مجھ پر غالب آگیا ہے (میری بات نہیں مانتا) ، نیز کہا: کہ آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی خبر نہیں پہنچی ؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : اگر تو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ ذکر نہ کرے تو تجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ مروان بن حکم نے کہا: اگر آپ کے نزدیک یہ باہمی کشیدگی کی وجہ سے ایسا ہوا تو یہاں بھی یہی وجہ کار فرما ہے کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کشیدگی تھی۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ مَا لِفَاطِمَةَ أَلاَ تَتَّقِي اللَّهَ، يَعْنِي فِي قَوْلِهَا لاَ سُكْنَى وَلاَ نَفَقَةَ

Narrated By Al-Qasim : 'Aisha said, "What is wrong with Fatima? Why doesn't she fear Allah?" by saying that a divorced lady is not entitled to be provided with residence and sustenance (by her husband).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا: حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو کیا ہوگیا ہے ؟ کیا وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتی ؟ کیونکہ وہ کہتی ہے کہ مطلقہ بائنہ کو رہائش اور خرچہ نہیں ملتا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ مَا لِفَاطِمَةَ أَلاَ تَتَّقِي اللَّهَ، يَعْنِي فِي قَوْلِهَا لاَ سُكْنَى وَلاَ نَفَقَةَ

Narrated By Al-Qasim : 'Aisha said, "What is wrong with Fatima? Why doesn't she fear Allah?" by saying that a divorced lady is not entitled to be provided with residence and sustenance (by her husband).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا: حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو کیا ہوگیا ہے ؟ کیا وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتی ؟ کیونکہ وہ کہتی ہے کہ مطلقہ بائنہ کو رہائش اور خرچہ نہیں ملتا۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ لِعَائِشَةَ أَلَمْ تَرَيْنَ إِلَى فُلاَنَةَ بِنْتِ الْحَكَمِ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ فَخَرَجَتْ‏.‏ فَقَالَتْ بِئْسَ مَا صَنَعَتْ‏.‏ قَالَ أَلَمْ تَسْمَعِي فِي قَوْلِ فَاطِمَةَ قَالَتْ أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ لَهَا خَيْرٌ فِي ذِكْرِ هَذَا الْحَدِيثِ‏.وَزَادَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَابَتْ عَائِشَةُ أَشَدَّ الْعَيْبِ وَقَالَتْ إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحِشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Qasim : Ursa said to 'Aisha, "Do you know so-and-so, the daughter of Al-Hakam? Her husband divorced her irrevocably and she left (her husband's house)." 'Aisha said, "What a bad thing she has done!" 'Ursa said (to 'Aisha), "Haven't you heard the statement of Fatima?" 'Aisha replied, "It is not in her favour to mention." 'Ursa added, 'Aisha reproached (Fatima) severely and said, "Fatima was in a lonely place, and she was proned to danger, so the Prophet allowed her (to go out of her husband's house)."

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ فلانہ بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں؟ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی تو وہ وہاں سے نکل آئی (عدت گزارے بغیر)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ حضرت عروہ نے کہا :آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا؟ انہوں نے فرمایا: یہ واقعہ ذکر کرنے میں کوئی خیر کا پہلو نہیں۔ ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شدید ناگواری کا اظہار فرمایا: کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا تو ایک اجاڑ اور بے آباد جگہ میں تھیں اور اس کے چاروں طرف خوف اور وحشت برستی تھی، اس لیے نبی ﷺنے انہیں وہاں سے منتقل ہونے کی اجازت دی تھی۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ لِعَائِشَةَ أَلَمْ تَرَيْنَ إِلَى فُلاَنَةَ بِنْتِ الْحَكَمِ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ فَخَرَجَتْ‏.‏ فَقَالَتْ بِئْسَ مَا صَنَعَتْ‏.‏ قَالَ أَلَمْ تَسْمَعِي فِي قَوْلِ فَاطِمَةَ قَالَتْ أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ لَهَا خَيْرٌ فِي ذِكْرِ هَذَا الْحَدِيثِ‏.وَزَادَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَابَتْ عَائِشَةُ أَشَدَّ الْعَيْبِ وَقَالَتْ إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحِشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Qasim : Ursa said to 'Aisha, "Do you know so-and-so, the daughter of Al-Hakam? Her husband divorced her irrevocably and she left (her husband's house)." 'Aisha said, "What a bad thing she has done!" 'Ursa said (to 'Aisha), "Haven't you heard the statement of Fatima?" 'Aisha replied, "It is not in her favour to mention." 'Ursa added, 'Aisha reproached (Fatima) severely and said, "Fatima was in a lonely place, and she was proned to danger, so the Prophet allowed her (to go out of her husband's house)."

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ فلانہ بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں؟ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی تو وہ وہاں سے نکل آئی (عدت گزارے بغیر)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ حضرت عروہ نے کہا :آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا؟ انہوں نے فرمایا: یہ واقعہ ذکر کرنے میں کوئی خیر کا پہلو نہیں۔ ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شدید ناگواری کا اظہار فرمایا: کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا تو ایک اجاڑ اور بے آباد جگہ میں تھیں اور اس کے چاروں طرف خوف اور وحشت برستی تھی، اس لیے نبی ﷺنے انہیں وہاں سے منتقل ہونے کی اجازت دی تھی۔

Chapter No: 42

باب الْمُطَلَّقَةِ إِذَا خُشِيَ عَلَيْهَا فِي مَسْكَنِ زَوْجِهَا أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيْهَا، أَوْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا بِفَاحِشَةٍ

If a divorced lady is afraid that she may be attacked in her husband's house or that she may abuse her husband's family.

باب : جب طلاق والی عورت خاوند کے گھر میں رہنے سے یہ ڈرے کہیں کوئی گھس آئے اور اس کو ستائے یا وہ خاوند کے عزیزوں سے آئے دن بد زبانی کرتی ہو ۔تو اس کو (عدت کے اندر) وہاں سے اٹھ جانا درست ہے۔

حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ‏

Narrated By 'Urwa : 'Aisha disapproved of what Fatima used to say.

حضرت عروہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے موقف کا انکار کیا (کہ مطلقہ بائنہ کو «نفقة وسكنى» نہیں ملے گا)۔


حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ‏

Narrated By 'Aisha : When Allah's Apostle decided to leave Mecca after the Hajj, he saw Safiyya, sad and standing at the entrance of her tent. He said to her, "Aqr (or) Halq! You will detain us. Did you perform Tawaf-al-Ifada on the day of Nahr? She said, "Yes." He said, "Then you can depart."

حضرت عروہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے موقف کا انکار کیا (کہ مطلقہ بائنہ کو «نفقة وسكنى» نہیں ملے گا)۔

Chapter No: 43

باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ‏}‏ مِنَ الْحَيْضِ وَالْحَمْلِ

The Statement of Allah, "And it is not lawful for them to conceal what Allah has created in their wombs." (V.2:228) (It means) The menses or pregnancy.

باب : اللہ تعالیٰ کا( سورہ بقرہ میں )یہ فرمانا عورتوں کو یہ درست نہیں کہ وہ اپنے پیٹ کا حال (حیض آتا ہے یا حمل ہے )چھپا رکھیں ۔

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَنْفِرَ إِذَا صَفِيَّةُ عَلَى باب خِبَائِهَا كَئِيبَةً، فَقَالَ لَهَا ‏"‏ عَقْرَى ـ أَوْ حَلْقَى ـ إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَانْفِرِي إِذًا ‏"‏‏

Narrated By Al-Hasan : Ma'qil gave his sister in marriage and later her husband divorced her once.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺنے کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمے کے دروازے پر غمگین کھڑی ہیں۔ آپﷺنے اسے فرمایا: عقریٰ ، یا فرمایا: حلقیٰ ، معلوم ہوتا ہے کہ تو ہمیں روک دے گی ۔ کیا تم نے قربانی کے دن طواف کر لیا تھا؟ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ نبی ﷺنے فرمایا : پھر کوچ کرو۔

Chapter No: 44

باب ‏{‏وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ‏}‏ فِي الْعِدَّةِ، وَكَيْفَ يُرَاجِعُ الْمَرْأَةَ إِذَا طَلَّقَهَا وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَيْنِ وقَولُهُ:{فَلا تَعْضُلُوْهُنَّ}

"And their husbands have the better right to take them back (after divorce)" (V.2:228) during the period of Idda. And how will a person retain his wife he has divorced once or twice? And His (Allah) Statement, "... Do not prevent them ..." (V.2:232)

باب : اللہ تعالیٰ کا( سورہ بقرہ میں )یہ فرمانا کہ عدت کے اندر عورتوں کے خاوند ان کے زیادہ حقدار ہیں یعنی رجعت کرکے اور اس بات کا بیان کہ جب عورت کو ایک یا دو طلاق دیے ہوں تو کیوں کر رجعت کرے اور فلا تعضلوھن کی تفسیر

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ زَوَّجَ مَعْقِلٌ أُخْتَهُ فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً‏.‏

Narrated By Al-Hasan : The sister of Ma'qil bin Yasar was married to a man and then that man divorced her and remained away from her till her period of the 'Iddah expired. Then he demanded for her hand in marriage, but Ma'qil got angry out of pride and haughtiness and said, "He kept away from her when he could still retain her, and now he demands her hand again?" So Ma'qil disagreed to remarry her to him. Then Allah revealed: 'When you have divorced women and they have fulfilled the term of their prescribed period, do not prevent them from marrying their (former) husbands.' (2.232) So the Prophet sent for Ma'qil and recited to him (Allah's order) and consequently Ma'qil gave up his pride and haughtiness and yielded to Allah's order.

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح کسی سے کردیا تو اس نے اسے طلاق دے دی۔


وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، أَنَّ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ، كَانَتْ أُخْتُهُ تَحْتَ رَجُلٍ فَطَلَّقَهَا، ثُمَّ خَلَّى عَنْهَا حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، ثُمَّ خَطَبَهَا فَحَمِيَ مَعْقِلٌ مِنَ ذَلِكَ أَنَفًا فَقَالَ خَلَّى عَنْهَا وَهْوَ يَقْدِرُ عَلَيْهَا، ثُمَّ يَخْطُبُهَا فَحَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَرَأَ عَلَيْهِ، فَتَرَكَ الْحَمِيَّةَ وَاسْتَقَادَ لأَمْرِ اللَّهِ‏

Narrated Al-Hassan: the sister of Maquil bin Yasar was married to a man and then that man divorced her and remained away from her till her period of Idda expired. Then he demanded for her hand in marriage, but Maquil got angry out of pride and haughtiness and said, “He kept away from her when he could retain her, and now he demands her hand again?” So Maquil disagreed to re-marry her to him. Then Allah [SWT] revealed: “When you have divorced women and they have fulfilled the term of their prescribed period, do not prevent them from marrying their (former) husbands…” (V.2:232). So the Prophet (pbuh) sent for Maquil and recited to him (Allah’s Order) and consequently Maquil gave up his pride and haughtiness and yielded to Allah’s Order.

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی بہن ایک آدمی کے نکاح میں تھی، انہوں نے انہیں طلاق دے دی۔ پھر ان سے علیحدہ رہا یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوگئی ۔ اس نے دوبارہ پیغام نکاح بھیجا تو حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو بڑی غیرت آئی اور انہوں نے کہا: جب عدت باقی تھی تو اسوقت رجوع کی قدرت بھی تھی ، لیکن عدت گزر جانے کے بعد اب پیغام نکاح بھیجتا ہے غرض کہ حضرت معقل رضی اللہ عنہ اپنی بہن اور اس شخص کے درمیان حائل ہوگئے اور نکاح نہ ہونے دیا تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : جب تم عورتوں کو طلاق دو او روہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے میں ان کےلیے رکاوٹ مت بنو۔ رسو ل اللہ ﷺنے انہیں بلاکر یہ آیت سنائی تو انہوں نے اپنی ضد چھوڑدی اور اللہ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنهما ـ طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهْىَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ عِنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضِهَا، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ‏.‏ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ قَالَ لأَحَدِهِمْ إِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلاَثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ‏.‏ وَزَادَ فِيهِ غَيْرُهُ عَنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَمَرَنِي بِهَذَا‏.‏

Narrated By Nafi : Ibn 'Umar bin Al-Khattab divorced his wife during her menses. Allah's Apostle ordered him to take her back till she became clean, and when she got another period while she was with him, she should wait till she became clean again and only then, if he wanted to divorce her, he could do so before having sexual relations with her. And that is the period Allah has fixed for divorcing women. Whenever 'Abdullah (bin 'Umar) was asked about that, he would say to the questioner, "If you divorced her thrice, she is no longer lawful for you unless she marries another man (and the other man divorces her in his turn).' Ibn 'Umar further said, 'Would that you (people) only give one or two divorces, because the Prophet has ordered me so."

حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اس وقت وہ حائضہ تھیں ۔ رسول اللہ ﷺنے ان کو حکم دیا کہ ان سے رجوع کرے ، پھر اسے اپنے پاس رکھے حتی کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے ۔ پھر اسے دوبارہ حیض آئے تو اسے مہلت دے یہاں تک کہ حیض سے پاک ہوجائے۔اگر اس وقت اسے طلاق دینے کا ارادہ ہو ت جس وقت وہ پاک ہوجائے ، نیز جماع کرنے سے قبل اسے طلاق دے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ پھر جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو سوال کرنے والے سے کہتے : اگر تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو پھر تمہاری بیوی تم پر حرام ہے یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے شاد کرے۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو تم اسے دوبارہ اپنے پاس لاسکتے ہو کیونکہ نبی ﷺنے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔

Chapter No: 45

باب مُرَاجَعَةِ الْحَائِضِ

To take back one's wife (if she is divorced) while in her menses.

باب :حیض والی عورت سے رجعت کرنا۔

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُطَلِّقَ مِنْ قُبُلِ عِدَّتِهَا، قُلْتُ فَتَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ‏؟

Narrated By Yunus Ibn Jubair : Ibn 'Umar divorced his wife while she was having her menses. 'Umar asked the Prophet who said, "Order him (your son) to take her back, and then divorced her before her period of the 'Iddah has elapsed." I asked Ibn 'Umar, "Will that divorce (during the menses) be counted?" He replied, "If somebody behaves foolishly (will his foolishness be an excuse for his misbehaviour)?"

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں نبیﷺسے سوال کیا تو آپﷺنے فرمایا: اسے کہو کہ اس سے رجوع کرے ، پھر جب عدت کا وقت آئے تو اسے طلاق دے ۔ (راوی نے کہا: ) میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا ؟ تو انہوں نے جواب دیا : اگر عبد اللہ عاجز آگیا ہو اور حماقت کی وجہ سے طلاق دے دی تو کیا اسے شمار نہیں کیا جائے گا؟

Chapter No: 46

باب تُحِدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

A widow should mourn for four months and ten days.

باب : جس عورت کا خاوند مر جائے تو وہ چارمہینے دس دن تک سوگ کرے ،

وَقَالَ الزُّهْرِيُّ لاَ أَرَى أَنْ تَقْرَبَ الصَّبِيَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا الطِّيبَ، لأَنَّ عَلَيْهَا الْعِدَّةَ‏.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ هَذِهِ الأَحَادِيثَ الثَّلاَثَةَ

And Az-Zubair said, "I think that a widowed girl should not put perfume, for she has to observe the period of the Idda." Narrated by Humaid bin Nafi, Zainab bint Abu Salama told me these three narrations.

اور زہری نے کہا (جس کو ابن وہب نے موطا میں وصل کیا )اگر نابالغ لڑکی کا خاوند مر جائے تو وہ بھی( سوگ کرے )خوشبو نہ لگائے کیوں کہ اس پر بھی عدت کرنا واجب ہے۔

قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلى امّ حَبِيْبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلى اللهُ عَلَيهِ وَسَلّم حِيْنَ تُوُفِّيَ أبُوها أبُو سُفْيَانَ بنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيْبَةَ بِطيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْها ثُمَّ قَالَتْ: وَاللهِ ما لي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أنّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلى الله عَلَيه وَسلم يَقُولُ: "‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏"‏‏

Narrated By Humaid bin Nafi' : Zainab bint Abu Salama told me these three narrations: Zainab said: I went to Um Habiba, the wife of the Prophet when her father, Abu- Sufyan bin Herb had died. Um ,Habiba asked for a perfume which contained yellow scent (Khaluq) or some other scent, and she first perfumed one of the girls with it and then rubbed her cheeks with it and said, "By Allah, I am not in need of perfume, but I have heard Allah's Apostle saying, 'It is not lawful for a lady who believes in Allah and the Last Day to mourn for a dead person for more than three days unless he is her husband for whom she should mourn for four months and ten days.'" Zainab further said: I want to Zainab bint Jahsh when her brother died. She asked for perfume and used some of it and said, "By Allah, I am not in need of perfume, but I have heard Allah's Apostle saying on the pulpit, 'It is not lawful for a lady who believes in Allah and the last day to mourn for more than three days except for her husband for whom she should mourn for four months and ten days.'

حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺکی زوجہ محترمہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جبکہ ان کے والد گرامی حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے وہ خوشبو منگوائی جس میں خلوق وغیرہ کی زردی تھی وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی ، انہوں نے خود بھی اسے اپنے رخساروں پر لگایا اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کےلیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے مگر شوہر کا چار ماہ دس دن تک سوگ منائے۔


قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَتْ أَمَا وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ ‏"‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏"‏‏

Zainab further said, "I heard my mother, Um Salama saying that a woman came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! The husband of my daughter has died and she is suffering from an eye disease, can she apply kohl to her eye?" Allah's Apostle replied, "No," twice or thrice. (Every time she repeated her question) he said, "No." Then Allah's Apostle added, "It is just a matter of four months and ten days. In the Pre-Islamic Period of ignorance a widow among you should throw a globe of dung when one year has elapsed."

حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں اس وقت گئی جب ان کے بھائی کا انتقال ہوا۔ انہوں نے بھی خوشبو منگوائی اور استعمال کیا: اور فرمایا: واللہ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہﷺکو برسر منبر یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے۔


قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا أَفَتَكْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لاَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ ‏"‏‏

. Zainab further said: I heard my mother, Umm Salama saying that a woman came to Allah’s Messenger (pbuh) and said, “O Allah’s Messenger! The husband of my daughter has died and she is suffering form an eye disease, can she apply kohl to her eyes?” Allah’s Messenger (pbuh) replied, “No,” twice or thrice. (Every time she repeated her question) he said, “No.” Then Allah’s Messenger (pbuh) added, “It is just a matter of four months and ten days. In the Pre-Islamic Period of Ignorance a widow among you should throw a globe of dung when one year has elapsed.”

حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا کہ ایک خاتون رسول اللہﷺکے پاس آئیں اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میری لڑکی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ نبیﷺنے اس پر فرمایا : نہیں، دو تین مرتبہ (آپ ﷺنے یہ فرمایا) ہر مرتبہ یہ فرماتے تھے کہ نہیں! پھر نبی ﷺنے فرمایا: یہ تو صرف چار ماہ دس دن ہیں ، دور جاہلیت میں تو ایک سال کے بعد تمہیں مینگنی پھینکنا پڑتی تھی۔


قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَىْءٍ إِلاَّ مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً فَتَرْمِي، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ‏.‏ سُئِلَ مَالِكٌ مَا تَفْتَضُّ بِهِ قَالَ تَمْسَحُ بِهِ جِلْدَهَا‏.

I said to Zainab, "What does 'throwing a globe of dung when one year had elapsed' mean?" Zainab said, "When a lady was bereaved of her husband, she would live in a wretched small room and put on the worst clothes she had and would not touch any scent till one year had elapsed. Then she would bring an animal, e.g. a donkey, a sheep or a bird and rub her body against it. The animal against which she would rub her body would scarcely survive. Only then she would come out of her room, whereupon she would be given a globe of dung which she would throw away and then she would use the scent she liked or the like."

حضرت حمید نے بیان کیا کہ میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک نہایت تنگ و تاریک کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی۔ پھر سب سے برے کپڑے پہنتی اور خوشبو کا استعمال ترک کر دیتی۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک سال گزر جاتا۔ پھر کسی چوپائے گدھے یا بکری یا پرندہ کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ عدت سے باہر آنے کے لیے اس پر ہاتھ پھیرتی۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ کسی جانور پر ہاتھ پھیر دے اور وہ مر نہ جائے۔ اس کے بعد وہ نکالی جاتی اور اسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اب وہ خوشبو وغیرہ کوئی بھی چیز استعمال کر سکتی تھی۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ «تفتض به» کا کیا مطلب ہے تو آپ نے فرمایا وہ اس کا جسم چھوتی تھی۔

Chapter No: 47

باب الْكُحْلِ لِلْحَادَّةِ

Can a mourning lady use Kohl?

باب : سوگ والی عورت کو سرمہ لگانا منع ہے۔

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ امْرَأَةً، تُوُفِّيَ زَوْجُهَا فَخَشُوا عَلَى عَيْنَيْهَا فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَأْذَنُوهُ فِي الْكُحْلِ فَقَالَ ‏"‏ لاَ تَكَحَّلْ قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي شَرِّ أَحْلاَسِهَا أَوْ شَرِّ بَيْتِهَا، فَإِذَا كَانَ حَوْلٌ فَمَرَّ كَلْبٌ رَمَتْ بِبَعَرَةٍ، فَلاَ حَتَّى تَمْضِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ ‏"‏‏

Narrated By Um Salama : A woman was bereaved of her husband and her relatives worried about her eyes (which were diseased). They came to Allah's Apostle, and asked him to allow them to treat her eyes with kohl, but he said, "She should not apply kohl to her eyes. (In the Pre-Islamic period of Ignorance) a widowed woman among you would stay in the worst of her clothes (or the worst part of her house) and when a year had elapsed, if a dog passed by her, she would throw a globe of dung, Nay, (she cannot use kohl) till four months and ten days have elapsed."

حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ اپنی والدہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت کا شوہر انتقال ہوگیا ، اس کے بعد اس کے اہل خانہ کو اس کی آنکھوں کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس ہوا ، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺسے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی ۔ آپﷺنے فرمایا: وہ سرمہ نہ لگائے ۔ زمانہ جاہلیت میں تم میں سے کسی ایک کو گندھے گھر اور بدترین کپڑوں میں وقت گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس طرح ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس کی طرف مینگنی پھینکتی تھی ۔پس تم اسے سرمہ نہ لگاؤ ،یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر جائیں۔


وَسَمِعْتُ زَيْنَبَ ابْنَةَ أُمِّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏"‏‏

Narrated Um Habiba: The Prophet said, "It is not lawful for a Muslim woman who believes in Allah and the Last Day to mourn for more than three days, except for her husband, for whom she should mourn for four months and ten days."

حضرت زینب بنت ام سلمہ سے مروی ہے ، وہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی تھیں کہ نبیﷺنے فرمایا :ایک مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہےاس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی (کی وفات) کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے سوا ئےشوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن سوگ کرسکتی ہے۔


حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثٍ إِلاَّ بِزَوْجٍ‏.‏

Narrated By Um 'Atiyya : We were forbidden to mourn for more than three days except for a husband.

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں منع کیا گیا ہے کہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائیں۔

Chapter No: 48

باب الْقُسْطِ لِلْحَادَّةِ عِنْدَ الطُّهْرِ

Qust (incense) may be used by a mourning lady after being cleaned from her menses.

باب : سوگ والی عورت کو حیض سے پاک ہو تے وقت عود کا استعمال درست ہے (یعنی شرمگاہ پر بدبو دور کرنے کے لیے )

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلاَ نَكْتَحِلَ، وَلاَ نَطَّيَّبَ، وَلاَ نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، إِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ‏.قَالَ أَبُو عَبدالله:القُسطُ وَالْكُستُ مِثْلُ الكافُورِوالقافُور.نُبْذَةٍ:قِطْعَةٍ.

Narrated By Um 'Atiyya : We were forbidden to mourn for more than three days for a dead person, except for a husband, for whom a wife should mourn for four months and ten days (while in the mourning period) we were not allowed to put kohl in our eyes, nor perfume our-selves, nor wear dyed clothes, except a garment of 'Asb (special clothes made in Yemen). But it was permissible for us that when one of us became clean from her menses and took a bath, she could use a piece of a certain kind of incense. And it was forbidden for us to follow funeral processions.

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوا ئےشوہر کے کہ اس کے لیے چار ماہ دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتے نہ خوشبو استعمال کرتے اور نہ رنگا کپڑا پہنتے تھے۔ البتہ وہ کپڑا استعمال کرنے کی اجازت تھی جس کا دھاگا بننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں اس کی بھی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض سے پاک ہوتی تو اظفار کی تھوڑی سی کستوری استعمال کرے ، نیز ہمیں جنازے کے پیچھے جانے سے روکا جاتا تھا۔ ابو عبد اللہ (حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا: القسط اور الکست ایک ہی چیز ہیں جیسے الکافور اور القافور ہیں نبذہ کا معنیٰ ہیں ٹکڑا۔

Chapter No: 49

باب تَلْبَسُ الْحَادَّةُ ثِيَابَ الْعَصْبِ

A mourning lady can wear clothes of Asb (a kind of Yemenese cloth that is very coarse).

باب :سوگ والی عورت یمن کے دھاری دار کپڑے پہن سکتی ہے۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا لاَ تَكْتَحِلُ وَلاَ تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلاَّ ثَوْبَ عَصْبٍ ‏"

Narrated By Um 'Atiyya : The Prophet said, "It is not lawful for a lady who believes in Allah and the Last Day, to mourn for more than three days for a dead person, except for her husband, in which case she should neither put kohl in her eyes, nor perfume herself, nor wear dyed clothes, except a garment of 'Asb"

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبیﷺنے فرمایا کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوائے شوہر کے وہ اس کے سوگ میں نہ سرمہ لگائے نہ رنگا ہوا کپڑا پہنے مگر سفید سیاہ دھاری دار کپڑے پہن سکتی ہے۔


وَقَالَ الأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَتْنَا حَفْصَةُ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ، نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وَلاَ تَمَسَّ طِيبًا إِلاَّ أَدْنَى طُهْرِهَا إِذَا طَهُرَتْ، نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ ‏"‏‏قَالَ أَبُو عَبدالله:القُسطُ وَالْكُستُ مِثْلُ الكافُورِوالقافُور.

Um 'Atiyya added: The Prophet said, "She should not use perfume except when she becomes clean from her menses whereupon she can use Qust, and Azfar (two kinds of incense).

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں کہا: نبی ﷺنے سوگ منانے والی عورت کو خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا: ہاں ، البتہ حیض سے پاک ہوتے وقت تھوڑی سی عود استعمال کرسکتی ہے۔ امام عبد اللہ (امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا: قسط اور کست ایک ہی چیز ہے جیسے کافور اور قافور میں کوئی فرق نہیں۔

Chapter No: 50

باب ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‏}‏

"And those of you who die, and leave behind wives ... and Allah is Well-Acquainted with what you do." (V.2:234)

باب : (سورہ بقرہ میں )والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجاً یتربصن بانفسھن ا خیر آیت تک کا (یعنی وفات کی عدت کا بیان)

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا‏}‏ قَالَ كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ‏}‏ قَالَ جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَصِيَّةً إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ‏}‏ فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ، وَاجِبٌ عَلَيْهَا، زَعَمَ ذَلِكَ عَنْ مُجَاهِدٍ‏.‏ وَقَالَ عَطَاءٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَسَخَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏غَيْرَ إِخْرَاجٍ‏}‏‏.‏ وَقَالَ عَطَاءٌ إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهَا، وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ ‏{‏فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ‏}‏‏.‏ قَالَ عَطَاءٌ ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَلاَ سُكْنَى لَهَا‏.‏

Narrated By Mujahid : (Regarding the Verse): 'If any of you dies and leaves wives behind,' That was the period of the 'Iddah which the widow was obliged to spend in the house of the late husband. Then Allah revealed: And those of you who die and leave wives should bequeath for their wives a year's maintenance and residence without turning them out, but if they leave, there is no blame on you for what they do of themselves, provided it is honourable (i.e. lawful marriage) (2.240) Mujahid said: Allah has ordered that a widow has the right to stay for seven months and twenty days with her husband's relatives through her husband's will and testament so that she will complete the period of one year (of 'Iddah). But the widow has the right to stay that extra period or go out of her husband's house as is indicated by the statement of Allah: 'But if they leave there is no blame on you... ' (2.240) Ibn 'Abbas said: The above Verse has cancelled the order of spending the period of the 'Iddah at her late husband's house, and so she could spend her period of the 'Iddah wherever she likes. And Allah says: 'Without turning them out.' 'Ata said: If she would, she could spend her period of the 'Iddah at her husband's house, and live there according to her (husband's) will and testament, and if she would, she could go out (of her husband's house) as Allah says: 'There is no blame on you for what they do of themselves.' (2.240) 'Ata added: Then the Verses of inheritance were revealed and the order of residence (for the widow) was cancelled, and she could spend her period of the 'Iddah wherever she would like, and she was no longer entitled to be accommodated by her husband's family.

امام مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت :" جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں " کی تفسیر میں کہا: یہ عدت جو شوہر کے اہل خانہ کے پاس گزاری جاتی تھی یہ ضروری امر تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : " اور جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائےاور گھر سے نہ نکالا جائے ۔ ہاں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (نکاح) کرلیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔امام مجاہد نے کہا: اللہ تعالیٰ نے سات ماہ بیس دن سال پورا کرنے کےلیے وصیت میں شمار کیے ہیں ۔ بیوی اگر چاہے تو وصیت کے مطابق ٹھہری رہے اور اگر چاہے تو گھر سے چلی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : "انہیں نہ نکالا جائے اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں" کے یہی معنیٰ ہیں ۔ عدت کے ایام تو اس پر واجب ہیں جیسا کہ مجاہد سے منقول ہے۔ حضرت عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اس آیت نے اہل خانہ کے پاس عدت گزارنے کو منسوخ کردیا ہے ، اس لیے وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔حضرت عطاء نے "غیر اخراج" کے متعلق فرمایا: اگر چاہے تو عدت کے ایام اپنے (شوہر کے ) گھر والوں کے پاس گزارے اوروصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے تو وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : " تم پر اس کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں"عطاء نے کہا: اس کے بعد میراث کے احکام نازل ہوئے تو اس نے رہائش کو بھی منسوخ کردیا۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے ۔ شوہر کی طرف سے اس کےلیے مکان کا انتظام نہیں ہوگا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ ابْنَةِ أَبِي سُفْيَانَ، لَمَّا جَاءَهَا نَعِيُّ أَبِيهَا دَعَتْ بِطِيبٍ، فَمَسَحَتْ ذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ‏.‏ لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ‏"‏‏

Narrated By Zainab bint Um Salama : When Um Habiba bint Abi Sufyan was informed of her father's death, she asked for perfume and rubbed it over her arms and said, "I am not in need of perfume, but I have heard the Prophet saying, "It is not lawful for a lady who believes in Allah and the Last Day to mourn for more than three days except for her husband for whom the (mourning) period is four months and ten days."

حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے بیان کرتی ہیں کہ جب انہیں اپنے والد کے فوت ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے دونوں بازؤں پر لگائی پھر کہا :مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوا ئےشوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن ہیں۔

‹ First3456