Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Barat (Taubah) (65.9)     سورة برأة

12

Chapter No: 11

باب قَوْلِهِ ‏{‏الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ‏}‏

The Statement of Allah, "Those who defame such of the believers who give charity (in Allah's Cause) voluntarily ..." (V.9:79)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول الَّذِینَ یَلمِزُونَ۔ کی تفسیر

قَالَ مُجَاهِدٌ :يَتَأَلَّفُهُمْ بِالْعَطِيَّةِ

یلمزون کا معنی عیب لگاتے ہیں، طعنہ مارتے ہیں۔ جُھدھم اور جَھدھم (دونوں قراءتیں جائز ہیں) یعنی محنت مزدوری کر کے مقدور موافق

حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ لَمَّا أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ كُنَّا نَتَحَامَلُ فَجَاءَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الآخَرُ إِلاَّ رِئَاءً‏.‏ فَنَزَلَتْ ‏{‏الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ‏}‏ الآيَةَ‏

Narrated By Abu Musud : When we were ordered to give alms, we began to work as porters (to earn something we could give in charity). Abu Uqail came with one half of a Sa (special measure for food grains) and another person brought more than he did. So the hypocrites said, "Allah is not in need of the alms of this (i.e. 'Uqail); and this other person did not give alms but for showing off." Then Allah revealed: 'Those who criticize such of the Believers who give charity voluntarily and those who could not find to give in charity except what is available to them.' (9.79)

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب ہمیں صدقہ و خیرات دینے کا حکم ہوا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھاتے چنانچہ ابوعقیل اسی مزدوری سے آدھا صاع خیرات لے کر آئے اور ایک دوسرے صحابی اس سے زیادہ لائے۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اللہ کو اس (یعنی عقیل) کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اس دوسرےنے تو محض ریاء کاری کے لیے اتنا زیادہ صدقہ دیا ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم‏» کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں پر جنہیں ان کی محنت مزدوری کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ آخر آیت تک۔


حَدَّثَنِى إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ قُلْتُ لأَبِي أُسَامَةَ أَحَدَّثَكُمْ زَائِدَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُ بِالصَّدَقَةِ، فَيَحْتَالُ أَحَدُنَا حَتَّى يَجِيءَ بِالْمُدِّ، وَإِنَّ لأَحَدِهِمِ الْيَوْمَ مِائَةَ أَلْفٍ‏.‏ كَأَنَّهُ يُعَرِّضُ بِنَفْسِهِ‏.‏

Narrated By Shaqiq : Abu Mas'ud Al-Ansari said, "Allah's Apostle, used to order us to give alms. So one of us would exert himself to earn one Mud (special measure of wheat or dates, etc.,) to give in charity; while today one of us may have one hundred thousand." Shaqiq said: As if Abu Masud referred to himself.

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺصدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو ہم میں بعض مزدوری کر کے لاتے اور (بڑی مشکل سے) ایک مد کا صدقہ کر تے، لیکن آج انہیں میں بعض ایسے ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں گویا ان کا اشارہ اپنی طرف تھا۔

Chapter No: 12

باب قَوْلِهِ ‏{‏اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً‏ فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ }‏

The Statement of Allah, "Whether you (O Muhammad (s.a.w)) ask forgiveness for them (hypocrites) or ask not forgiveness for them. If you ask seventy times for their forgiveness, Allah will not forgive them ..." (V.9:80)

اب : اللہ تعالیٰ کے اس قول استَغفِرلَھُم اَو لَا تَستَغفِرلَھُم اِن تَستَغفِرلَھُم سَبعِینَ مَرَّۃً فَلَن یَّغفِرِ اللہُ لَھُم۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِى عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيُصَلِّيَ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ رَبُّكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ فَقَالَ ‏{‏اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً‏}‏ وَسَأَزِيدُهُ عَلَى السَّبْعِينَ ‏"‏‏.‏ قَالَ إِنَّهُ مُنَافِقٌ‏.‏ قَالَ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ‏}‏‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : When 'Abdullah bin 'Ubai died, his son 'Abdullah bin 'Abdullah came to Allah's Apostle and asked him to give him his shirt in order to shroud his father in it. He gave it to him and then 'Abdullah asked the Prophet to offer the funeral prayer for him (his father). Allah's Apostle got up to offer the funeral prayer for him, but Umar got up too and got hold of the garment of Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle Will you offer the funeral prayer for him though your Lord has forbidden you to offer the prayer for him" Allah's Apostle said, "But Allah has given me the choice by saying: '(Whether you) ask forgiveness for them, or do not ask forgiveness for them; even if you ask forgiveness for them seventy times...' (9.80) so I will ask more than seventy times." 'Umar said, "But he ('Abdullah bin 'Ubai) is a hypocrite!" However, Allah's Apostle did offer the funeral prayer for him whereupon Allah revealed: 'And never (O Muhammad) pray for anyone of them that dies, nor stand at his grave.' (9.84)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے بیتے حضرت عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی آپ اپنا کرتا عنایت فرمائیں تاکہ وہ اپنے والد کو اس میں کفن دیں۔آپﷺنے اسے اپنا کرتا دے دیا ۔پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی ﷺنماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺکا دامن پکڑ کر عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ نبی ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة‏» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبیﷺنے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره‏» کہ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوں۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ،‏.‏ وَقَالَ غَيْرُهُ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَثَبْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَىٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا كَذَا وَكَذَا قَالَ أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏"‏ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ ‏"‏ إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرْ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا ‏"‏‏.‏ قَالَ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَمْكُثْ إِلاَّ يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتِ الآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ ‏{‏وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَهُمْ فَاسِقُونَ‏}‏ قَالَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‏.‏

Narrated By Umar bin Al-Khattab : When 'Abdullah bin Ubai bin Salul died, Allah's Apostle was called in order to offer the funeral prayer for him. When Allah's Apostle got up (to offer the prayer) I jumped towards him and said, "O Allah's Apostle! Do you offer the prayer for Ibn Ubai although he said so-and-so on such-and-such-a day?" I went on mentioning his sayings. Allah's Apostle smiled and said, "Keep away from me, O 'Umar!" But when I spoke too much to him, he said, "I have been given the choice, and I have chosen (this) ; and if I knew that if I asked forgiveness for him more than seventy times, he would be for given, I would ask it for more times than that." So Allah's Apostle offered the funeral prayer for him and then left, but he did not stay long before the two Verses of Surat-Bara'a were revealed, i.e. 'And never (O Muhammad) pray for anyone of them that dies... and died in a state of rebellion.' (9.84) Later I was astonished at my daring to speak like that to Allah's Apostle and Allah and His Apostle know best.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: جب عبداللہ بن ابی ابن سلول کی موت ہوئی تو رسول اللہ ﷺسے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ جب آپ ﷺنماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے خدمت نبوی میں پہنچا اور عرض کی یا رسول اللہ! آپ عبد اللہ بن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کی باتیں کی تھیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے پیش کرنے لگا۔ لیکن نبی ﷺنے تبسم کر کے فرمایا : اے عمر! میرے پاس سے ہٹ جاؤ ۔میں نے اصرار کیا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے میں نے پسند کیا، اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ بیان کیا کہ پھر نبی ﷺنے نماز پڑھائی اور واپس تشریف لائے، تھوڑی دیر ابھی ہوئی تھی کہ سورۃ برأت کی دو آیتیں نازل ہوئیں «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏» ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھنا۔ آخر آیت «وهم فاسقون‏» تک۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بعد میں مجھے نبی ﷺکے سامنے اپنی اس درجہ جرأت پر خود بھی حیرت ہوئی اور اللہ اور اس کے رسول بہتر جاننے والے ہیں۔

Chapter No: 13

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ‏}‏

The Statement of Allah, "And never (O Muhammad (s.a.w)) pray (funeral prayer) for any of them (hypocrites) who dies, nor stand at his grave." (V.9:84)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ لَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِنھُم مَاتَ اَبَدًا وَ لَا تَقُم عَلٰی قَبرِہِ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّنَهُ فِيهِ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي عَلَيْهِ، فَأَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِثَوْبِهِ فَقَالَ تُصَلِّي عَلَيْهِ وَهْوَ مُنَافِقٌ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لَهُمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ أَوْ أَخْبَرَنِي فَقَالَ ‏{‏اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ‏}‏ فَقَالَ سَأَزِيدُهُ عَلَى سَبْعِينَ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَصَلَّيْنَا مَعَهُ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ ‏{‏وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ‏}‏

Narrated By Ibn Umar : When Abdullah bin Ubai died, his son 'Abdullah bin 'Abdullah came to Allah's Apostle who gave his shirt to him and ordered him to shroud his father in it. Then he stood up to offer the funeral prayer for the deceased, but 'Umar bin Al-Khattab took hold of his garment and said, "Do you offer the funeral prayer for him though he was a hypocrite and Allah has forbidden you to ask forgiveness for hypocrites?" The Prophet said, "Allah has given me the choice (or Allah has informed me) saying: "Whether you, O Muhammad, ask forgiveness for them, or do not ask forgiveness for them, even if you ask forgiveness for them seventy times, Allah will not forgive them," (9.80) The he added, "I will (appeal to Allah for his sake) more than seventy times." So Allah's Apostle offered the funeral prayer for him and we too, offered the prayer along with him. Then Allah revealed: "And never, O Muhammad, pray (funeral prayer) for anyone of them that dies, nor stand at his grave. Certainly they disbelieved in Allah and His Apostle and died in a state of rebellion." (9.84)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےانہوں نے بیان کیاجب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی، رسول اللہ ﷺکی خدمت میں آئے۔ تو نبی ﷺنے انہیں اپنا کرتا عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کرتے سے اسے کفن دیا جائے پھر آپﷺ اس پر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺکا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے تیار ہو گئے حالانکہ یہ منافق ہے، اللہ تعالیٰ بھی آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع کر چکا ہے۔ نبیﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ یا راوی نے «خيرني» کی جگہ لفظ «أخبرني» نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم‏» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ نبی ﷺنے فرمایا : میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺنے اس پر نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون‏» کہ ان میں سے جو کوئی مر جائے، آپ اس پر کبھی بھی جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔

Chapter No: 14

باب قَوْلِهِ ‏{‏سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ‏}‏الآية

The Statement of Allah, "They will swear by Allah to you (Muslims) when you return to them, that you may turn away from them ..." (V.9:95)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول سَیَحلِفُونَ بِا اللہِ لَکُم اِذَا انقَلَبتُم۔ کی تفسیر

The Statement of Allah, "They (the hypocrites) swear to you (Muslims) that you may be pleased with them ... Al-Fasiqun (rebellious, disobedient to Allah)." (V.9:96)

حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوكَ، وَاللَّهِ، مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنْ نِعْمَةٍ بَعْدَ إِذْ هَدَانِي أَعْظَمَ مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ لاَ أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أُنْزِلَ الْوَحْىُ ‏{‏سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ‏}‏ إِلَى ‏{‏الْفَاسِقِينَ‏}‏‏.‏

Narrated By 'Abdullah bin Ka'b : I heard Ka'b bin Malik at the time he remained behind and did not join (the battle of) Tabuk, saying, "By Allah, no blessing has Allah bestowed upon me, besides my guidance to Islam, better than that of helping me speak the truth to Allah's Apostle otherwise I would have told the Prophet a lie and would have been ruined like those who had told a lie when the Divine Inspiration was revealed: "They will swear by Allah to you (Muslims) when you return to them... the rebellious people." (9.95-96)

حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہو سکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتلایا، اللہ کی قسم! ہدایت کے بعد اللہ نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہﷺکے سامنے سچ بولنے کے بعد ظاہر ہوا تھا کہ اس نے مجھے جھوٹ بولنے سے بچایا، ورنہ میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے لوگ جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے ہلاک ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وحی نازل کی تھی «سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم‏» کہ عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ اللہ کی قسم کھا جائیں گے۔ آخر آیت «الفاسقين‏» تک۔

Chapter No: 15

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ}الآية

The Statement of Allah, "And (there are) others who have acknowledged their sins ..." (V.9:102)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَاٰخَرُونَ اعتَرَفُوا بِذُنُوبِھِم۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِى مُؤَمَّلٌ ـ هُوَ ابْنُ هِشَامٍ ـ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَحَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَنَا ‏"‏ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ فَابْتَعَثَانِي، فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ، فَتَلَقَّانَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ قَالاَ لَهُمُ اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهْرِ‏.‏ فَوَقَعُوا فِيهِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ، فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالاَ لِي هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ، وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ قَالاَ أَمَّا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرٌ مِنْهُمْ حَسَنٌ وَشَطْرٌ مِنْهُمْ قَبِيحٌ فَإِنَّهُمْ خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُمْ ‏"‏‏.‏

Narrated By Samura bin Jundab : Allah's Apostle said, "Tonight two (visitors) came to me (in my dream) and took me to a town built with gold bricks and silver bricks. There we met men who, half of their bodies, look like the most-handsome human beings you have ever seen, and the other half, the ugliest human beings you have ever seen. Those two visitors said to those men, 'Go and dip yourselves in that river. So they dipped themselves therein and then came to us, their ugliness having disappeared and they were in the most-handsome shape. The visitors said, 'The first is the Garden of Eden and that is your dwelling place.' Then they added, 'As for those people who were half ugly and half handsome, they were those who mixed good deeds and bad deeds, but Allah forgave them."

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے ہم سے فرمایا : رات (خواب میں) میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن نہایت خوبصورت، کسی دیکھنے والے نے ایسا حسن نہ دیکھا ہو گا اور بدن کا دوسرا نصف حصہ نہایت بدصورت تھا، کسی نے بھی ایسی بدصورتی نہیں دیکھی ہو گی۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا جاؤ اور اس نہر میں غوطہٰ لگاؤ۔ وہ گئے اور نہر میں غوطہٰ لگا آئے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی ختم ہوچکی تھی ،اب وہ نہایت خوبصورت نظر آتے تھے پھر فرشتوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے۔ جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا کہ جسم کا آدھا حصہ خوبصورت تھا اور آدھا بدصورت، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور برے سب کام کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا تھا۔

Chapter No: 16

باب قَوْلِهِ ‏{‏مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ‏}

The Statement of Allah, "It is not (proper) for the Prophet (s.a.w) and those who believe to ask for Allah's forgiveness for the Pagans ..." (V.9:113)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِینَ اٰمَنُوا اَن یَّستَغفِرُوا لِلمُشرِکِینَ ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَىْ عَمِّ قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ، أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ ‏"‏‏.‏ فَنَزَلَتْ ‏{‏مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ‏}‏

Narrated By Al-Musaiyab : When Abu Talib's death approached, the Prophet went to him while Abu Jahl and 'Abdullah bin Abi Umaiya were present with him. The Prophet said, "O uncle, say: None has the right to be worshipped except Allah, so that I may argue for your case with it before Allah." On that, Abu Jahl and 'Abdullah bin Abu Umaiya said, "O Abu Talib! Do you want to renounce 'Abdul Muttalib's religion?" Then the Prophet said, "I will keep on asking (Allah for) forgiveness for you unless I am forbidden to do so." Then there was revealed: 'It is not fitting for the Prophet and those who believe that they should invoke (Allah) for forgiveness for pagans even though they be of kin, after it has become clear to them that they are companions of the Fire.' (9.113)

سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت آیا ،نبی ﷺان کے پاس تشریف لے گئے،اس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ نبیﷺنے فرمایا: اے میرے چچا جان ! لا الہ الا اللہ کہہ دیں ،میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر) اللہ کی بارگاہ میں پیش کر لوں گا۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ آپ ﷺنے فرمایا: اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، پھر یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏» نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ اہل دوزخ سے ہیں۔

Chapter No: 17

باب قَوْلِهِ ‏{‏لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ‏}الآية‏

The Statement of Allah, "Allah has forgiven the Prophet (s.a.w), the Muhajirun and the Ansar ..." (V.9:117)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول لَقَد تَابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ المُھَاجِرِینَ وَ الاَنصَارِ ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ ـ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ ـ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، فِي حَدِيثِهِ ‏{‏وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا‏}‏ قَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ، فَهْوَ خَيْرٌ لَكَ ‏"

Narrated By Abdullah bin Ka'b : I heard Ka'b bin Malik talking about the Verse: 'And to the three (He also forgave) who remained behind.' (9.118) saying in the last portion of his talk, "(I said), 'As a part (sign) of my repentance, I would like to give up all my property in the cause of Allah and His Apostle,' The Prophet said to me, 'Keep some of your wealth as it is good for you."

حضرت عبد اللہ بن کعب سے مروی ہے جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ میں نےحضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت «وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏» نازل ہوئی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آخر میں کہا تھاکہ میں توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول ﷺکے راستے میں صدقہ کرتا ہوں ۔ اس پر نبیﷺنے فرمایا: نہیں ، کچھ مال اپنے لیے بھی رکھ لیں یہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔

Chapter No: 18

باب ‏{‏وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ}‏

And (He did forgive also) the three (who did not join the Tabuk expedition) till for them the earth, vast as it is was straitened ..." (V.9:118)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ عَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حتّٰی اِذَا ضَاقَت عَلَیھِمُ الاَرضُ بِمَا رَحُبَت ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ، أَنَّ الزُّهْرِيَّ، حَدَّثَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ،، وَهْوَ أَحَدُ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ وَغَزْوَةِ بَدْرٍ‏.‏ قَالَ فَأَجْمَعْتُ صِدْقَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ضُحًى، وَكَانَ قَلَّمَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ سَافَرَهُ إِلاَّ ضُحًى وَكَانَ يَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ، وَنَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ كَلاَمِي وَكَلاَمِ صَاحِبَىَّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْ كَلاَمِ أَحَدٍ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ غَيْرِنَا، فَاجْتَنَبَ النَّاسُ كَلاَمَنَا، فَلَبِثْتُ كَذَلِكَ حَتَّى طَالَ عَلَىَّ الأَمْرُ، وَمَا مِنْ شَىْءٍ أَهَمُّ إِلَىَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فَلاَ يُصَلِّي عَلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَوْ يَمُوتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَكُونَ مِنَ النَّاسِ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ، فَلاَ يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ، وَلاَ يُصَلِّي عَلَىَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَوْبَتَنَا عَلَى نَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ بَقِيَ الثُّلُثُ الآخِرُ مِنَ اللَّيْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مُحْسِنَةً فِي شَأْنِي مَعْنِيَّةً فِي أَمْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَا أُمَّ سَلَمَةَ تِيبَ عَلَى كَعْبٍ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ أَفَلاَ أُرْسِلُ إِلَيْهِ فَأُبَشِّرَهُ قَالَ ‏"‏ إِذًا يَحْطِمَكُمُ النَّاسُ فَيَمْنَعُونَكُمُ النَّوْمَ سَائِرَ اللَّيْلَةِ ‏"‏‏.‏ حَتَّى إِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلاَةَ الْفَجْرِ آذَنَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا، وَكَانَ إِذَا اسْتَبْشَرَ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةٌ مِنَ الْقَمَرِ، وَكُنَّا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ الَّذِينَ خُلِّفُوا عَنِ الأَمْرِ الَّذِي قُبِلَ مِنْ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ اعْتَذَرُوا حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ لَنَا التَّوْبَةَ، فَلَمَّا ذُكِرَ الَّذِينَ كَذَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ، وَاعْتَذَرُوا بِالْبَاطِلِ، ذُكِرُوا بِشَرِّ مَا ذُكِرَ بِهِ أَحَدٌ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ ‏{‏يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لاَ تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ‏}‏ الآيَةَ‏.‏

Narrated By Abdullah bin Kab : I heard Ka'b bin Malik who was one of the three who were forgiven, saying that he had never remained behind Allah's Apostle in any Ghazwa which he had fought except two Ghazwat Ghazwat-al'Usra (Tabuk) and Ghazwat-Badr. He added. "I decided to tell the truth to Allah's Apostle in the forenoon, and scarcely did he return from a journey he made, except in the forenoon, he would go first to the mosque and offer a two-Rak'at prayer. The Prophet forbade others to speak to me or to my two companions, but he did not prohibit speaking to any of those who had remained behind excepting us. So the people avoided speaking to us, and I stayed in that state till I could no longer bear it, and the only thing that worried me was that I might die and the Prophet would not offer the funeral prayer for me, or Allah's Apostle might die and I would be left in that social status among the people that nobody would speak to me or offer the funeral prayer for me. But Allah revealed His Forgiveness for us to the Prophet in the last third of the night while Allah's Apostle was with Um Salama. Um Salama sympathized with me and helped me in my disaster. Allah's Apostle said, 'O Um Salama! Ka'b has been forgiven!' She said, 'Shall I send someone to him to give him the good tidings?' He said, 'If you did so, the people would not let you sleep the rest of the night.' So when the Prophet had offered the Fajr prayer, he announced Allah's Forgiveness for us. His face used to look as bright as a piece of the (full) moon whenever he was pleased. When Allah revealed His Forgiveness for us, we were the three whose case had been deferred while the excuse presented by those who had apologized had been accepted. But when there were mentioned those who had told the Prophet lies and remained behind (the battle of Tabuk) and had given false excuses, they were described with the worse description one may be described with. Allah said: 'They will present their excuses to you (Muslims) when you return to them. Say: Present no excuses; we shall not believe you. Allah has already informed us of the true state of matters concerning you. Allah and His Apostle will observe your actions." (9.94)

حضرت عبد اللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ (ان کے والد) ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے علاوہ اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ ﷺ(غزوہ سے واپس تشریف لائے) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہرحال) آپ ﷺنے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مر گیا تو آپ ﷺمجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ ﷺکی وفات ہو جائے تو لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ ﷺپر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ ﷺاس وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ ﷺنے فرمایا : ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ سنادوں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی ﷺنے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ نبی ﷺنے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ ﷺکے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا«يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبأنا الله من أخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله‏»کہ یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔ آخر آیت تک۔

Chapter No: 19

باب ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ‏}‏

"O you who believe! Be afraid of Allah, and be with those who are true." (V.9:119)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول یَا اَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ـ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ـ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ، تَبُوكَ‏.‏ فَوَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَبْلاَهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلاَنِي، مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم ‏{‏لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ‏}‏

Narrated By 'Abdullah bin Kab : I heard Ka'b bin Malik talking about the story of the battle of Tabuk when he remained behind, "By Allah, I do not know anyone whom Allah has helped for telling the truth more than me since I mentioned that truth to Allah's Apostle till today, I have never intended to tell a lie. And Allah revealed to His Apostle: "Verily! Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin... and be with those who are true (in words and deeds)." (9.117-119)

حضرت عبد اللہ بن کعب بن مالک سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا وہ غزوۂ تبوک میں اپنی غیر حاضری کا قصہ بیان کر رہے تھے، انہوں نے کہا : اللہ کی قسم!میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اس پر اتنا بڑا احسان کیا ہو جتنا کہ مجھ پر کیا ۔میں نے اس وقت سے لیکر آج تک جان بوجھ کر کبھی جھوٹ نہیں بولا ، اور اللہ نے اپنے رسول ﷺپر یہ آیت نازل کی تھی «لقد تاب الله على النبي والمهاجرين‏ ۔۔۔۔ وكونوا مع الصادقين‏» تک۔

Chapter No: 20

باب قَوْلِهِ ‏{‏لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ }‏

The Statement of Allah, "Verily, there has come unto you a Messenger (s.a.w) from amongst yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty ..." (V.9:128)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول لَقَد جَآءَکُم رَسُولٌ مِّن اَنفُسِکُم الخ ۔ کی تفسیر

مِنَ الرَّأْفَةِ

رَؤفٌ رَاۡفَۃٌ سے نکلا ہے(یعنی بہت مہربان)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الْوَحْىَ قَالَ أَرْسَلَ إِلَىَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِالنَّاسِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ، إِلاَّ أَنْ تَجْمَعُوهُ، وَإِنِّي لأَرَى أَنْ تَجْمَعَ الْقُرْآنَ‏.‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ عُمَرُ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ‏.‏ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ‏.‏ قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لاَ يَتَكَلَّمُ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ وَلاَ نَتَّهِمُكَ، كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْىَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ‏.‏ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَىَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلاَنِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ وَالْعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ، لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ ‏{‏لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ‏}‏ إِلَى آخِرِهِمَا، وَكَانَتِ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا الْقُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ‏.‏ تَابَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَاللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ‏.‏ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ وَقَالَ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ‏.‏ وَقَالَ مُوسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ‏.‏ وَتَابَعَهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ‏.‏ وَقَالَ أَبُو ثَابِتٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ وَقَالَ مَعَ خُزَيْمَةَ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ‏

Narrated By Zaid bin Thabit Al-Ansari : Who was one of those who used to write the Divine Revelation: Abu Bakr sent for me after the (heavy) casualties among the warriors (of the battle) of Yamama (where a great number of Qurra' were killed). 'Umar was present with Abu Bakr who said, 'Umar has come to me and said, The people have suffered heavy casualties on the day of (the battle of) Yamama, and I am afraid that there will be more casualties among the Qurra' (those who know the Qur'an by heart) at other battle-fields, whereby a large part of the Qur'an may be lost, unless you collect it. And I am of the opinion that you should collect the Qur'an." Abu Bakr added, "I said to 'Umar, 'How can I do something which Allah's Apostle has not done?' 'Umar said (to me), 'By Allah, it is (really) a good thing.' So 'Umar kept on pressing, trying to persuade me to accept his proposal, till Allah opened my bosom for it and I had the same opinion as 'Umar." (Zaid bin Thabit added:) Umar was sitting with him (Abu Bakr) and was not speaking. me). "You are a wise young man and we do not suspect you (of telling lies or of forgetfulness): and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Apostle. Therefore, look for the Qur'an and collect it (in one manuscript). " By Allah, if he (Abu Bakr) had ordered me to shift one of the mountains (from its place) it would not have been harder for me than what he had ordered me concerning the collection of the Qur'an. I said to both of them, "How dare you do a thing which the Prophet has not done?" Abu Bakr said, "By Allah, it is (really) a good thing. So I kept on arguing with him about it till Allah opened my bosom for that which He had opened the bosoms of Abu Bakr and Umar. So I started locating Qur'anic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms and from the memories of men (who knew it by heart). I found with Khuzaima two Verses of Surat-at-Tauba which I had not found with anybody else, (and they were): "Verily there has come to you an Apostle (Muhammad) from amongst yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty He (Muhammad) is ardently anxious over you (to be rightly guided)" (9.128) The manuscript on which the Qur'an was collected, remained with Abu Bakr till Allah took him unto Him, and then with 'Umar till Allah took him unto Him, and finally it remained with Hafsa, Umar's daughter.

حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ جو کاتب وحی تھے، انہوں نے بیان کیا کہجنگ یمامہ میں بہت صحابہ شہید ہوگئے تھے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، اس وقت آپ کے پاس حضرت عمرر ضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔انہوں نے مجھ سے کہا، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ مختلف مقامات پر اسی طرح قرّاء حضرات شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت حصہ ضائع ہوجائے گا۔اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ ﷺنے نہیں کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو محض ایک نیک کام ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جوان ہمت اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی ﷺکی وحی لکھا بھی کرتے تھے، اس لیے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو۔ اللہ کی قسم! کہ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لیے کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے، جسے رسول اللہ ﷺنے نہیں کیا تھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک نیک کام ہے۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا۔ جس طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے (جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا، اس دور کے رواج کے مطابق) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کےحافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں حضرت خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے ملیں۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی۔ (وہ آیتیں یہ تھیں) «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم‏» آخر تک۔ پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر آپ کی وفات کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا۔

12