Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Imran (65.3)     سورة آل عمران

12

Chapter No: 11

باب قَوْلِهِ ‏{‏أَمَنَةً نُعَاسًا‏}‏

His (Allah) Statement, "... He sent down security for you. Slumber ..." (V.3:154)

باب : اللہ کے اس قول اَمَنَۃً نُعَاسًاۡ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ، قَالَ غَشِيَنَا النُّعَاسُ وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ أُحُدٍ ـ قَالَ ـ فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ، وَيَسْقُطُ وَآخُذُهُ‏.‏

Narrated By Abu Talha : Slumber overtook us during the battle of Uhud while we were in the front files. My sword would fall from my hand and I would pick it up, and again it would fall down and I would pick it up again.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جنگ احد میں جب ہم صف باندھے کھڑے تھے تو ہم پر غنودگی طاری ہو گئی تھی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ نیند سے میری تلوار ہاتھ سے باربار گرتی اور میں اسے اٹھاتا۔

Chapter No: 12

باب قَوْلِهِ ‏{‏الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ‏}‏

The Statement of Allah, "Those who answered (the Call of) Allah and the Messenger (s.a.w) after being wounded for them who did good deeds and feared Allah, there is a great reward." (V.3:172)

باب : اللہ کے اس قول الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوا لِلہِ وَ الرَّسُولِ مِنۡ بَعۡدِ مَا اصَابَھُمُ الۡقَرۡحُ لَلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا مِنۡھُمۡ وَ اتَّقَوا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ۔ کی تفسیر۔

{‏الْقَرْحُ‏}‏ الْجِرَاحُ ‏{‏اسْتَجَابُوا‏}‏ أَجَابُوا‏.‏ يَسْتَجِيبُ يُجِيبُ‏.‏

قرحٌ کہتے ہیں زخم کو۔ استجابوا اور اجابوا کا ایک معنی ہے یعنی حکم سن لیا، مان لیا جیسے یستجیب اور اجیب کا۔

 

Chapter No: 13

باب ‏{‏الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ ‏}‏

His (Allah) Statement, "Those unto whom the people (hypocrites) said, 'Verily the people (Pagans) have gathered against you (a great army), therefore, fear them.'" (V.3:173)

باب : اللہ کے اس قول اِنَّ النَّاسَ قَد جَمِعُوا لَکُم فَاخۡشَوھُم فزادھم ایمانًاۡ۔الایہ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ـ أُرَاهُ قَالَ ـ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏{‏حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ‏}‏ قَالَهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَقَالَهَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالُوا ‏{‏إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ‏}‏

Narrated By Ibn Abbas : 'Allah is Sufficient for us and He Is the Best Disposer of affairs," was said by Abraham when he was thrown into the fire; and it was said by Muhammad when they (i.e. hypocrites) said, "A great army is gathering against you, therefore, fear them," but it only increased their faith and they said: "Allah is Sufficient for us, and He is the Best Disposer (of affairs, for us)." (3.173)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ کلمہ «حسبنا الله ونعم الوكيل‏» ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمدﷺنے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ لوگوں ( قریش) نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا (جوش) ایمان اور بڑھا دیا اور یہ مسلمان بولے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔


حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كَانَ آخِرَ قَوْلِ إِبْرَاهِيمَ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : The last statement of Abraham when he was thrown into the fire was: "Allah is Sufficient for us and He is the Best Disposer (of affairs for us)." (3.173)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو ان کی زبان مبارک سے نکلا «حسبي الله ونعم الوكيل‏.‏» تھا یعنی میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔

Chapter No: 14

باب ‏{‏وَلاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ‏}‏ الآيَةَ

"And let not those who covetously withhold of that which Allah has bestowed on them of His Bounty ..." (V.3:180)

باب : اللہ کے اس قول وَلَا یَحۡسَنَنَّ الَّذِینَ یَبۡخَلُونِ بَمِا اٰتٰھُمُاللہُ مِنۡ فَضۡلِہِ۔ کی تفسیر۔

{‏سَيُطَوَّقُونَ‏}‏ كَقَوْلِكَ طَوَّقْتُهُ بِطَوْقٍ‏

اس آیت میں جو سیطوّقون کا لفظ ہے۔ وہ طوّق یطوّق سے ہے یعنی طوق پہنائے جائیں گے۔

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ـ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ـ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ ـ يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ ـ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآيَةَ ‏{‏وَلاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ‏.

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "Anyone whom Allah has given wealth but he does not pay its Zakat, then, on the Day of Resurrection, his wealth will be presented to him in the shape of a bald-headed poisonous male snake with two poisonous glands in its mouth and it will encircle itself round his neck and bite him over his cheeks and say, "I am your wealth; I am your treasure." Then the Prophet recited this Divine Verse: "And let not those who covetously withhold of that which Allah has bestowed upon them of His Bounty." (3.180)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں نمودار ہوگا۔اس سانپ کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے ۔ قیامت کے دن وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا ۔ او راس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا : میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں ۔ پھر آپﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی: جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں۔

Chapter No: 15

باب ‏{‏وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا‏}‏

"... And you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you and from those who ascribe partners to Allah ..." (V.3:186)

باب : اللہ کے اس قول وَلَتَسۡمَعَنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوتُوا الکِتَابَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوا اَذً کَثِیۡرًا۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَى قَطِيفَةٍ فَدَكِيَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَرَاءَهُ، يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ ـ قَالَ ـ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ، ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ وَالْمُسْلِمِينَ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا‏.‏ فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَيْهِمْ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ أَيُّهَا الْمَرْءُ، إِنَّهُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا، فَلاَ تُؤْذِينَا بِهِ فِي مَجْلِسِنَا، ارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاغْشَنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ‏.‏ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَنُوا، ثُمَّ رَكِبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم دَابَّتَهُ فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ ‏"‏‏.‏ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَىٍّ ‏"‏ قَالَ كَذَا وَكَذَا ‏"‏‏.‏ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ عَنْهُ، فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ، لَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا أَبَى اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ ما رَأَيْتَ‏.‏ فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنِ الْمُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الْكِتَابِ كَمَا أَمَرَهُمُ اللَّهُ، وَيَصْبِرُونَ عَلَى الأَذَى قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ‏}‏ الآيَةَ، وَقَالَ اللَّهُ ‏{‏وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَأَوَّلُ الْعَفْوَ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ، حَتَّى أَذِنَ اللَّهُ فِيهِمْ، فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَدْرًا، فَقَتَلَ اللَّهُ بِهِ صَنَادِيدَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ قَالَ ابْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَعَبَدَةِ الأَوْثَانِ هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ‏.‏ فَبَايَعُوا الرَّسُولَ صلى الله عليه وسلم عَلَى الإِسْلاَمِ فَأَسْلَمُوا‏.‏

Narrated By Usama bin Zaid : Allah's Apostle rode a donkey, equipped with a thick cloth-covering made in Fadak and was riding behind him. He was going to pay visit to Sad bin Ubada in Banu Al-Harith bin Al-Khazraj; and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which 'Abdullah bin Ubai bin Salul was present, and that was before 'Abdullah bin Ubai embraced Islam. Behold in that gathering there were people of different religions: there were Muslims, pagans, idol-worshippers and Jews, and in that gathering 'Abdullah bin Rawaha was also present. When a cloud of dust raised by the donkey reached that gathering, 'Abdullah bin Ubai covered his nose with his garment and then said, "Do not cover us with dust." Then Allah's Apostle greeted them and stopped and dismounted and invited them to Allah (i.e. to embrace Islam) and recited to them the Holy Qur'an. On that, 'Abdullah bin Ubai bin Saluil said, "O man ! There is nothing better than that what you say. If it is the truth, then do not trouble us with it in our gatherings. Return to your mount (or residence) and if somebody comes to you, relate (your tales) to him." On that 'Abdullah bin Rawaha said, "Yes, O Allah's Apostle! Bring it (i.e. what you want to say) to us in our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing one another till they were on the point of fighting with one another. The Prophet kept on quietening them till they became quiet, whereupon the Prophet rode his animal (mount) and proceeded till he entered upon Sad bin Ubada. The Prophet said to Sad, "Did you not hear what 'Abu Hub-b said?" He meant 'Abdullah bin Ubai. "He said so-and-so." On that Sad bin Ubada said, "O Allah's Apostle! Excuse and forgive him, for by Him Who revealed the Book to you, Allah brought the Truth which was sent to you at the time when the people of this town (i.e. Medina) had decided unanimously to crown him and tie a turban on his head (electing him as chief). But when Allah opposed that (decision) through the Truth which Allah gave to you, he (i.e. 'Abdullah bin Ubai) was grieved with jealously. and that caused him to do what you have seen." So Allah's Apostle excused him, for the Prophet and his companions used to forgive the pagans and the people of Scripture as Allah had ordered them, and they used to put up with their mischief with patience. Allah said: "And you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you and from the pagans...'(3.186) And Allah also said: "Many of the people of the Scripture wish if they could turn you away as disbelievers after you have believed, from selfish envy..." (2.109) So the Prophet used to stick to the principle of forgiveness for them as long as Allah ordered him to do so till Allah permitted fighting them. So when Allah's Apostle fought the battle of Badr and Allah killed the nobles of Quraish infidels through him, Ibn Ubai bin Salul and the pagans and idolaters who were with him, said, "This matter (i.e. Islam) has appeared (i.e. became victorious)." So they gave the pledge of allegiance (for embracing Islam) to Allah's Apostle and became Muslims.

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ رسول اللہﷺایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو(مجھے ) اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ ﷺبنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) بھی موجود تھا، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سواری کی (ٹاپوں سے گرد اڑی اور) مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی منافق نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ، اتنے میں رسول اللہ ﷺبھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، اپنے گھر بیٹھیں، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ضرور یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمان، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کر دیا اور آخر سب لوگ خاموش ہو گئے، پھر آپ ﷺاپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی ﷺنے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا تذکرہ کیا کہ سعد! تم نے نہیں سنا، ابوحباب، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کر دیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے۔ اس شہر (مدینہ) کے لوگ (پہلے) اس پر متفق ہو چکے تھے کہ اس (عبداللہ بن ابی منافق) کو تاج پہنا دیں اور (شاہی) عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ نے اسے معاف کر دیا۔ نبی ﷺاور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور یقیناً تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ آخر آیت تک۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا نبی کریم ﷺہمیشہ کفار کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپﷺ نے غزوہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سب نے بھی نبی ﷺسے اسلام پر بیعت کر لی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہو گئے۔

Chapter No: 16

باب ‏{‏لاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا‏}‏

"Think not that those who rejoice in what they have done (or brought about) ..." (V.3:188)

باب : اللہ کے اس قول لَا تَحۡسَبَنَّ الذِیۡنَ یَفۡرَحُونَ بِمَا أتَوۡا۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رِجَالاً مِنَ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْغَزْوِ تَخَلَّفُوا عَنْهُ، وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَإِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ وَحَلَفُوا، وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا

Narrated By Abu Said Al-Khudri : During the lifetime of Allah's Apostle, some men among the hypocrites used to remain behind him (i.e. did not accompany him) when he went out for a Ghazwa and they would be pleased to stay at home behind Allah's Apostle When Allah's Apostle returned (from the battle) they would put forward (false) excuses and take oaths, wishing to be praised for what they had not done. So there was revealed: "Think not that those who rejoice in what they have done, and love to be praised for what they have not done..." (3.188)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب نبی ﷺجہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب نبی ﷺواپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت «لا يحسبن الذين يفرحون‏» آخر آیت تک اتاری۔


حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ مَرْوَانَ قَالَ لِبَوَّابِهِ اذْهَبْ يَا رَافِعُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ، وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ، مُعَذَّبًا، لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ‏.‏ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمَا لَكُمْ وَلِهَذِهِ إِنَّمَا دَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَهُودَ فَسَأَلَهُمْ عَنْ شَىْءٍ، فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ، وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ، فَأَرَوْهُ أَنْ قَدِ اسْتَحْمَدُوا إِلَيْهِ بِمَا أَخْبَرُوهُ عَنْهُ فِيمَا سَأَلَهُمْ، وَفَرِحُوا بِمَا أُوتُوا مِنْ كِتْمَانِهِمْ، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ‏}‏ كَذَلِكَ حَتَّى قَوْلِهِ ‏{‏يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا‏}‏‏.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ‏.‏ حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ مَرْوَانَ بِهَذَا‏.‏

Narrated By Alqama bin Waqqas : Marwan said to his gatekeeper, "Go to Ibn 'Abbas, O Rafi, and say, 'If everybody who rejoices in what he has done, and likes to be praised for what he has not done, will be punished, then all of us will be punished." Ibn Abbas said, "What connection have you with this case? It was only that the Prophet called the Jews and asked them about something, and they hid the truth and told him something else, and showed him that they deserved praise for the favour of telling him the answer to his question, and they became happy with what they had concealed. Then Ibn Abbas recited: "(And remember) when Allah took a Covenant from those who were given the Scripture... and those who rejoice in what they have done and love to be praised for what they have not done.' " (3.187-188) Narrated By Humaid bin 'Abdur-Rahman bin 'Auf : That Marwan had told him same narration.

حضرت علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا: اے رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت «لا يحسبن الذين يفرحون‏» کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہے کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابورافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر پوچھا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تم مسلمانوں سے اس آیت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہﷺنے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبیﷺکے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت «وإذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب‏» کی اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب کو پوری ظاہر کر دینا لوگوں پر، آیت «يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا‏» جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام نہیں کئے ہیں، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔ تک۔ ہشام بن یوسف کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرزاق نے بھی ابن جریج سے روایت کیا۔ ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہوں نے ابن جریج سے کہا مجھ کو ابن ابی ملیکہ نے خبر دی، ان کو حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا، پھر یہی حدیث بیان کی۔

Chapter No: 17

باب قَوْلِهِ ‏{‏إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُوْلِي الأَلْبَابِ ‏}‏

Allah's Statement, "Verily! In the creation of the heavens and the earth, and in the alternation of night and day, there are indeed signs for men of understanding." (V.3:190)

باب : اللہ کے اس قول اِنَّ فِی خَلۡقِ السَّمٰواتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ اللَّیۡلِ وَ النَّھَارِ لَآیَاتٍ لَاُولِی الاَلۡبَاب ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَتَحَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً ثُمَّ رَقَدَ، فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ ‏{‏إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ‏}‏، ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ، فَصَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ أَذَّنَ بِلاَلٌ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ‏.‏

Narrated By Ibn 'Abbas : I stayed overnight in the house of my aunt Maimuna. Allah's Apostle talked with his wife for a while and then went to bed. When it was the last third of the night, he got up and looked towards the sky and said: "Verily! In the creation of the Heavens and the Earth and in the alteration of night and day, there are indeed signs for men of understanding." (3.190) Then he stood up, performed ablution, brushed his teeth with a Siwak, and then prayed eleven Rakat. Then Bilal pronounced the Adhan (i.e. call for the Fajr prayer). The Prophet then offered two Rakat (Sunna) prayer and went out (to the Mosque) and offered the (compulsory congregational) Fajr prayer.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ (ام المؤمنین) میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گزاری۔ تو رسول اللہ ﷺنے اپنی بیوی (میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی «إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب‏» بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن و رات کے مختلف ہونے میں عقلمندوں کے لیے (بڑی) نشانیاں ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺکھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں تہجد اور وتر پڑھیں۔پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے (فجر کی) اذان دی تو آپﷺ نے دو رکعت (فجر کی سنت) پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی۔

Chapter No: 18

باب ‏{‏الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ‏}‏الآيَةَ

"Those who remember Allah, standing, sitting, and lying down on their sides and think deeply about the creation of the heavens and the earth ..." (V.3:191)

باب : اللہ کے اس قول الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُونَ اللہَ قِیَامًا وَ قُعُودًا وَ عَلَی جُنُوبِھِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡن فِی خَلۡقِ السَّمٰواتِ وَ الۡاَرۡضِ َ کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ فَقُلْتُ لأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَطُرِحَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وِسَادَةٌ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي طُولِهَا، فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الآيَاتِ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ آلِ عِمْرَانَ حَتَّى خَتَمَ، ثُمَّ أَتَى شَنًّا مُعَلَّقًا، فَأَخَذَهُ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، ثُمَّ أَخَذَ بِأُذُنِي، فَجَعَلَ يَفْتِلُهَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : (One night) I stayed overnight in the house of my aunt Maimuna, and said to myself, "I will watch the prayer of Allah's Apostle " My aunt placed a cushion for Allah's Apostle and he slept on it in its length-wise direction and (woke-up) rubbing the traces of sleep off his face and then he recited the last ten Verses of Surat-al-Imran till he finished it. Then he went to a hanging water skin and took it, performed the ablution and then stood up to offer the prayer. I got up and did the same as he had done, and stood beside him. He put his hand on my head and held me by the ear and twisted it. He offered two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, and finally the Witr (i.e. one Rak'a) prayer.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سو گیا، ارادہ یہ تھا کہ آج رسول اللہﷺکی نماز کو بغور مشاہدہ کروں ، چنانچہ رسول اللہ ﷺکے لیے بستر بچھادیا گیا اور آپﷺاس پر آپ لمبائی کے رخ لیٹ گئے ہیں (جب آخری رات میں بیدار ہوئے تو) چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار دور کئے۔ پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں، اس کے بعد آپ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس آئے اور اس سے پانی لے کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں بھی کھڑا ہو گیا اور جو کچھ آپ نے کیا تھا وہی سب کچھ میں نے بھی کیا اور آپ کے پاس آ کر آپ کے بازو میں میں بھی کھڑا ہو گیا۔ آپﷺنے میرے سر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور میرے کان کو (شفقت سے) پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپﷺنے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر وتر کی نماز پڑھی۔

Chapter No: 19

باب ‏{‏رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ‏}‏

"Our Lord! Verily, whom you admit to the Fire, indeed, you have disgraced him and never will the wrong-doers find any helpers." (V.3:192)

باب : اللہ کے اس قول رَبَّنَا اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النِّارفَقَدۡ أخۡزَیۡتَہُ وَ مَا لِظَّالِمِیۡنَ مِنۡ أنۡصارٍ کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْىَ خَالَتُهُ قَالَ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي بِيَدِهِ الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ‏.

Narrated By Abdullah bin Abbas : That once he stayed overnight (in the house) of his aunt Maimuna. the wife of the Prophet. He added: I lay on the cushion transversely and Allah's Apostle lay along with his wife in the lengthwise direction of the pillow. Allah's Apostle slept till the middle of the night, either a bit before or a bit after it, and then woke up rubbing the traces of sleep off his face with his hands and then he recited the last ten Verses of Surat-al-Imran, got up and went to a hanging water skin. He then performed the ablution from it, and it was perfect ablution, and then stood up to offer the prayer. I too did the same as he had done, and then went to stand beside him. Allah's Apostle put his right hand on my head and held and twisted my right ear. He then offered two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat, then two Rakat. then two Rakat, and finally one Rak'a, the Witr. Then he lay down again till the Muadhdhin (i.e. the call-maker) came to him, whereupon he got up and offered a light two-Rakat prayer, and went out (to the Mosque) and offered the (compulsory congregational) Fajr prayer.

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ ایک رات انہوں نے نبی ﷺکی زوجہ مطہرہ حضر ت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر بسر کی ۔ حضرت میمونہ ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور نبی ﷺاور آپ کی بیوی اس کی لمبائی میں لیٹے رہے۔پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں آپ بیدار ہوئے اور چہرہ پر ہاتھ پھیر کر نیند کو دور کیا۔ پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت کی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر مشکیزے کے قریب گئے جو لٹکا ہوا تھا۔ اس کے پانی سے آپ نے وضو بہت ہی اچھی طرح سے پورے آداب کے ساتھ کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی آپ ہی کی طرح (وضو ) کیا اور نماز کے لیے آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم ﷺنے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور اسی ہاتھ سے (بطور شفقت) میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں وتر کی نماز پڑھی۔ اس سے فارغ ہو کر آپ لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی (فجر کی سنت) رکعتیں پڑھیں اور نماز فرض کے لیے باہر تشریف (مسجد میں) لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

Chapter No: 20

باب ‏{‏رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا، يُنَادِي لِلإِيمَانِ‏}‏ الآيَةَ

"Our Lord! Verily, we have heard the call of one (Muhammad (s.a.w)) calling to faith ..." (V.3:193)

باب : اللہ کے اس قول رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُنَادِی لَلۡاِیۡمَانِاخیر تک کی تفسیر

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْىَ خَالَتُهُ قَالَ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ، اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : That once he stayed overnight in the house of his aunt, the wife of the Prophet. He added: I lay on the cushion transversely while Allah's Apostle lay along with his wife in the lengthwise direction of cushion. Allah's Apostle slept till the middle of the night, either a bit before or a bit after it, and then woke up rubbing the traces of sleep off his face with his hands, and then recited the last ten Verses of Suratal-Imran. Then he got up and went to a hanging water skin, performed ablution from it... and performed it perfectly. Then he stood up to perform the prayer. I also did the same 3S he had done and then went to stand beside him. Allah's Apostle put his right hand on my head and held and twisted my right ear. He then offered two Rakat, then two Rakat then two Rakat, then two then two Rakat, then two Rakat, and finally, one Rak'a Witr. Then lay down again till the Muadhdhin (i.e. the call-maker) came to him, whereupon he got up and offered a light two Rakat prayer and went out (to the Mosque) and offered the (compulsory congregational) Fajr prayer.

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ آپ نے ایک مرتبہ نبی ﷺکی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات بسر کی ۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور نبی کریم ﷺاور آپ کی بیوی طول میں لیٹے رہے ، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا تھوڑی دیر بعد آپ جاگے اور بیٹھ کر چہرہ پر نیند کے آثار دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیرنے لگے اور سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں۔ اس کے بعد آپ مشکیزہ کے پاس گئے جو لٹکا ہوا تھا، اس سے تمام آداب کے ساتھ آپ نے وضو کیا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ ﷺکی طرح وضو وغیرہ کیا اور جا کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، تو نبی کریم ﷺنے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور (شفقت سے) میرے داہنے کان کو پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں انہیں وتر بنایا، پھر آپ لیٹ گئے اور جب مؤذن آپ کے پاس آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر مسجد میں تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

12