Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Al-Maghazi (Military Expeditions) (64)    كتاب المغازي

‹ First6789

Chapter No: 71

باب وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ، وَحَدِيثِ ثُمَامَةَ بْنِ أُثَالٍ

The delegation of Banu Hanifa and the narration of Thumama bin Uthal.

باب: بنی حنیفہؔ کے ایلچیوں اور ثمامہؔ بن اثال کا قِصّہ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَيْلاً قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ، إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ‏.‏ حَتَّى كَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ ‏"‏ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ‏"‏‏.‏ قَالَ مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ‏.‏ فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ ‏"‏ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ ‏"‏، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَىَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَىَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَىَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلاَدِ إِلَىَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَى فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ، فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ صَبَوْتَ‏.‏ قَالَ لاَ، وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَلاَ وَاللَّهِ لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet sent some cavalry towards Najd and they brought a man from the tribe of Banu Hanifa who was called Thumama bin Uthal. They fastened him to one of the pillars of the Mosque. The Prophet went to him and said, "What have you got, O Thumama?" He replied," I have got a good thought, O Muhammad! If you should kill me, you would kill a person who has already killed somebody, and if you should set me free, you would do a favour to one who is grateful, and if you want property, then ask me whatever wealth you want." He was left till the next day when the Prophet said to him, "What have you got, Thumama? He said, "What I told you, i.e. if you set me free, you would do a favour to one who is grateful." The Prophet left him till the day after, when he said, "What have you got, O Thumama?" He said, "I have got what I told you. "On that the Prophet said, "Release Thumama." So he (i.e. Thumama) went to a garden of date-palm trees near to the Mosque, took a bath and then entered the Mosque and said, "I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and also testify that Muhammad is His Apostle! By Allah, O Muhammad! There was no face on the surface of the earth most disliked by me than yours, but now your face has become the most beloved face to me. By Allah, there was no religion most disliked by me than yours, but now it is the most beloved religion to me. By Allah, there was no town most disliked by me than your town, but now it is the most beloved town to me. Your cavalry arrested me (at the time) when I was intending to perform the 'Umra. And now what do you think?" The Prophet gave him good tidings (congratulated him) and ordered him to perform the 'Umra. So when he came to Mecca, someone said to him, "You have become a Sabian?" Thumama replied, "No! By Allah, I have embraced Islam with Muhammad, Apostle of Allah. No, by Allah! Not a single grain of wheat will come to you from Jamaica unless the Prophet gives his permission."

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کےایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑ کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ! بتاؤ کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا: اے محمدﷺ ! میرے پاس خیر ہے (اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے، اور اگر آپ احسان رکھ کر مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ہاں اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں طلب کریں۔یہ سن کر آپﷺنے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔پھر دوسرے دن پوچھا: اے ثمامہ ! بتاؤ کیا خیال ہے تمہارا؟ اس نے کہا: میراخیال وہی ہے جو کل عرض کرچکا ہوں کہ اگر آپ احسان کریں گے تو ایک قدر دان پر احسان کریں گے ۔ آپ نے پھر اسے رہنے دیا ۔ تیسرے دن پوچھا: اے ثمامہ ! تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا: وہی جو میں آپ سے پہلے بیان کرچکا ہوں ۔آپ ﷺنے فرمایا: ثمامہ کو چھوڑ دو۔ چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا تو وہ مسجد کے قریب ایک تالاب پر گیا۔وہاں سے غسل کرکے پھر مسجد میں آگیا اور کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بلاشبہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ اے محمد ﷺاللہ کی قسم اٹھاکر کہتا ہوں کہ مجھے روئے زمین پر آپ کو چہرے سے بڑھ کر کوئی اور چہرہ برا معلوم نہیں ہوتا تھا اور اب مجھے آپ کا چہرہ سب چہروں سے زیادہ محبوب ہے ۔اللہ کی قسم !مجھے آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی اور دین برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب مجھے آپ کا دین سب سے اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ اللہ کی قسم ! میرے نزدیک آپ کے شہر سے زیادہ کوئی شہر برا نہ تھا ، اور اب مجھے آپ کا شہر سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے ۔ آپ کے سواروں نے مجھے اس وقت گرفتار کیا جب میں عمرے کی نیت سے جارہا تھا ۔ اب آپ کیا فرماتے ہیں ؟ نبی ﷺنے اسے مبارک باد دی ، نیز اسے عمرہ کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ وہ عمرہ کرنے کےلیے جب مکہ آیا تو کسی نے اس سے کہا: تو بے دین ہوگیا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ میں تو محمد رسول اللہﷺکے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہوں۔اللہ کی قسم! اب نبی ﷺکی اجازت کے بغیر تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَعَلَ يَقُولُ إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ‏.‏ وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قِطْعَةُ جَرِيدٍ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ ‏"‏ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيكَ، وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لَيَعْقِرَنَّكَ اللَّهُ، وَإِنِّي لأَرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا رَأَيْتُ، وَهَذَا ثَابِتٌ يُجِيبُكَ عَنِّي ‏"‏‏.‏ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Musailima Al-Kadhdhab came during the lifetime of the Prophet and started saying, "If Muhammad gives me the rule after him, I will follow him." And he came to Medina with a great number of the people of his tribe. Allah's Apostle went to him in the company of Thabit bin Qais bin Shammas, and at that time, Allah's Apostle had a stick of a date-palm tree in his hand. When he (i.e. the Prophet) stopped near Musailima while the latter was amidst his companions, he said to him, "If you ask me for this piece (of stick), I will not give it to you, and Allah's Order you cannot avoid, (but you will be destroyed), and if you turn your back from this religion, then Allah will destroy you. And I think you are the same person who was shown to me in my dream, and this is Thabit bin Qais who will answer your questions on my behalf." Then the Prophet went away from him.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺ کے عہد میں مسیلمہ کذاب آیا، اس دعویٰ کے ساتھ کہ اگر محمد ﷺ مجھے اپنے بعد اپنا نائب بنا دیں تو میں ان کی اتباع کر لوں۔ اس کے ساتھ اس کی قوم (بنو حنیفہ) کا بہت بڑا لشکر تھا۔ نبی ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی۔ جہاں مسیلمہ اپنی فوج کے ساتھ پڑاؤ کئے ہوئے تھا، آپ وہیں جاکر ٹھہر گئے اور آپ ﷺنے اس سے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ ٹہنی مانگے گا تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا اور تو اللہ کے اس فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا جو تیرے بارے میں پہلے ہی ہو چکا ہے۔ تو نے اگر میری اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کر دے گا۔ میرا تو خیال ہے کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اب تیری باتوں کا جواب میری طرف سے ثابت بن قیس دیں گے، پھر آپ ﷺ واپس تشریف لائے۔


قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّكَ أُرَى الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا أُرِيتُ ‏"‏‏.‏ فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَىَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا، فَأُوحِيَ إِلَىَّ فِي الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي، أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيُّ، وَالآخَرُ مُسَيْلِمَةُ ‏"‏‏.‏

I asked about the statement of Allah's Apostle : "You seem to be the same person who was shown to me in my dream," and Abu Huraira informed me that Allah's Apostle said, "When I was sleeping, I saw (in a dream) two bangles of gold on my hands and that worried me. And then I was inspired Divinely in the dream that I should blow on them, so I blew on them and both the bangles flew away. And I interpreted it that two liars (who would claim to be prophets) would appear after me. One of them has proved to be Al Ansi and the other, Musailima."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا " میرا خیال تو یہ ہے کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا"۔ تو اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے، میں اسے فکر مند ہوا ۔ پھر خواب ہی میں مجھ پر وحی کی گئی کہ ان دونوں پر پھونک مار و۔ چنانچہ میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے ۔میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص نبوت کا دعویٰ کریں گے ۔ ایک اسود عنسی ، اور دوسرا مسیلمہ کذاب ہوگا۔


حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِخَزَائِنِ الأَرْضِ، فَوُضِعَ فِي كَفِّي سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَكَبُرَا عَلَىَّ فَأُوحِيَ إِلَىَّ أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبَا فَأَوَّلْتُهُمَا الْكَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَاءَ، وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ ‏"‏‏.

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "While I was sleeping, I was given the treasures of the earth and two gold bangles were put in my hands, and I did not like that, but I received the inspiration that I should blow on them, and I did so, and both of them vanished. I interpreted it as referring to the two liars between whom I am present; the ruler of Sana and the Ruler of Yamaha."

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :خواب میں میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھ دئیے گئے۔ یہ مجھ پر بڑا شاق گزرا۔ اس کے بعد مجھے وحی کی گئی کہ میں ان میں پھونک ماروں۔ میں نے پھونکا تو وہ اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے لی جن کے درمیان میں، میں ہوں یعنی صاحب صنعاء (اسود عنسی) اور صاحب یمامہ (مسیلمہ کذاب)۔


حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ سَمِعْتُ مَهْدِيَّ بْنَ مَيْمُونٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ، يَقُولُ كُنَّا نَعْبُدُ الْحَجَرَ، فَإِذَا وَجَدْنَا حَجَرًا هُوَ أَخْيَرُ مِنْهُ أَلْقَيْنَاهُ وَأَخَذْنَا الآخَرَ، فَإِذَا لَمْ نَجِدْ حَجَرًا جَمَعْنَا جُثْوَةً مِنْ تُرَابٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِالشَّاةِ فَحَلَبْنَاهُ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُفْنَا بِهِ، فَإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَجَبٍ قُلْنَا مُنَصِّلُ الأَسِنَّةِ‏.‏ فَلاَ نَدَعُ رُمْحًا فِيهِ حَدِيدَةٌ وَلاَ سَهْمًا فِيهِ حَدِيدَةٌ إِلاَّ نَزَعْنَاهُ وَأَلْقَيْنَاهُ شَهْرَ رَجَبٍ‏.‏

Narrated By Abu Raja Al-Utaridi : We used to worship stones, and when we found a better stone than the first one, we would throw the first one and take the latter, but if we could not get a stone then we would collect some earth (i.e. soil) and then bring a sheep and milk that sheep over it, and perform the Tawaf around it. When the month of Rajab came, we used (to stop the military actions), calling this month the iron remover, for we used to remove and throw away the iron parts of every spear and arrow in the month of Rajab.

ابورجاء عطاردی ے مروی ہے وہ بیان کرتے تھے کہ ہم پہلے پتھر کی پوجا کرتے تھے اور اگر کوئی پتھر ہمیں اس سے اچھا مل جاتا تو اسے پھینک دیتے اور دوسرے کی پوجا شروع کر دیتے۔ اگر ہمیں پتھر نہ ملتا تو مٹی کا ایک ٹیلہ بنا لیتے اور بکری لا کر اس پر دوہتے اور اس کے گرد طواف کرتے۔ جب رجب کا مہینہ آ جاتا تو ہم کہتے کہ یہ مہینہ تیروں سے پھل الگ کردینے کا ہے ، اس لیے ہم کوئی نیزہ نہیں چھوڑتے تھے جس میں لوہا لگا ہوتا ، اور نہ کوئی تیر ہی جس میں پھل ہوتا مگر اسے نکال پھینکتے تھے۔ الغرض ہم اسے ماہ رجب میں پھینک دیتے تھے۔


وَسَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ، يَقُولُ كُنْتُ يَوْمَ بُعِثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم غُلاَمًا أَرْعَى الإِبِلَ عَلَى أَهْلِي، فَلَمَّا سَمِعْنَا بِخُرُوجِهِ فَرَرْنَا إِلَى النَّارِ إِلَى مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابِ‏.‏

Abu Raja' added: When the Prophet sent with (Allah's) Message, I was a boy working as a shepherd of my family camels. When we heard the news about the appearance of the Prophet, we ran to the fire, i.e. to Musailima al-Kadhdhab.

مہدی بن میمون سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے ابورجاء کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب نبیﷺ مبعوث ہوئے تو میں ابھی کم عمر تھا اور اپنے گھر کے اونٹ چرایا کرتا تھا پھر جب ہمیں آپﷺکے غلبے کی خبر ملی تو ہم بھاگ کر آگ کی طرف چلےگئے ، یعنی مسیلمہ کذاب کو نبی مان لیا۔

Chapter No: 72

باب قِصَّةُ الأَسْوَدِ الْعَنْسِيِّ

The story of Al-Aswad Al-Ansi.

باب: اسود عنسِی کا قِصّہ۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عُبَيْدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ـ وَكَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ ـ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ بَلَغَنَا أَنَّ مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلَ فِي دَارِ بِنْتِ الْحَارِثِ، وَكَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ كُرَيْزٍ، وَهْىَ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَهْوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ خَطِيبُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضِيبٌ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَكَلَّمَهُ فَقَالَ لَهُ مُسَيْلِمَةُ إِنْ شِئْتَ خَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الأَمْرِ، ثُمَّ جَعَلْتَهُ لَنَا بَعْدَكَ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذَا الْقَضِيبَ مَا أَعْطَيْتُكَهُ وَإِنِّي لأَرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا أُرِيتُ، وَهَذَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ وَسَيُجِيبُكَ عَنِّي ‏"‏‏.‏ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By Ubaidullah bin Abdullah bin Utba : We were informed that Musailima Al-Kadhdhab had arrived in Medina and stayed in the house of the daughter of Al-Harith. The daughter of Al-Harith bin Kuraiz was his wife and she was the mother of 'Abdullah bin 'Amir. There came to him Allah's Apostle accompanied by Thabit bin Qais bin Shammas who was called the orator of Allah's Apostle. Allah's Apostle had a stick in his hand then. The Prophet stopped before Musailima and spoke to him. Musailima said to him, "If you wish, we would not interfere between you and the rule, on condition that the rule will be ours after you... The Prophet said, "If you asked me for this stick, I would not give it to you. I think you are the same person who was shown to me in a dream. And this is Thabit bin Al-Qais who will answer you on my behalf." The Prophet then went away.

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جب مسیلمہ کذاب مدینہ آیا تو اس نے بنت حارث کے گھر پر پڑاؤ کیا۔ کیونکہ حارث بن کریز کی بیٹی اس کے نکاح میں تھی۔اور وہ (عبد اللہ بن ) عبد اللہ بن عامر کی ماں تھی۔رسول اللہﷺاس کے پاس تشریف لے گئے اور آپﷺکے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس بھی تھے۔ یہ وہی ہیں جنہیں رسول اللہﷺکا خطیب کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺکے ہاتھ مبارک میں کھجور کی چھڑی تھی۔ آپﷺ اس کے پاس آکر ٹھہر گئے اور اس سے گفتگور کی اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ مسیلمہ کذاب نے کہا کہ میں اس شرط پر مسلمان ہوتا ہوں کہ آپ کے بعد مجھ کو حکومت ملے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم مجھ سے یہ چھڑی مانگو گے تو میں یہ بھی نہیں دے سکتا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تم وہی ہو جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ یہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ہیں اور میری طرف سے تمہاری باتوں کا یہی جواب دیں گے، پھر آپ ﷺ واپس تشریف لے آئے۔


قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ رُؤْيَا، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّتِي ذَكَرَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ذُكِرَ لِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُرِيتُ أَنَّهُ وُضِعَ فِي يَدَىَّ سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَفُظِعْتُهُمَا وَكَرِهْتُهُمَا، فَأُذِنَ لِي فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا، فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيُّ الَّذِي قَتَلَهُ فَيْرُوزُ بِالْيَمَنِ، وَالآخَرُ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ‏

I asked Ibn Abbas about the dream Allah's Apostle had mentioned. Ibn Abbas said, "Someone told me that the Prophet said, "When I was sleeping, I saw in a dream that two gold bangles were put in my hands, and that frightened me and made me dislike them. Then I was allowed to blow on them, and when I blew at them, both of them flew. Then I interpreted them as two liars who would appear.' One of them was Al-'Ansi who was killed by Fairuz in Yemen and the other was Musailima Al-Kadhdbab."

عبیداللہ بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نبی ﷺ کے اس خواب کے متعلق پوچھا جس کا ذکر آپ ﷺ نے فرمایا تھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا کہ میرے ہاتھوں پر سونے کے دو کنگن رکھ دئیے گئے ہیں۔ میں اس سے بہت گھبرایا اور ان کنگنوں سے مجھے تشویش ہوئی، اس دوران میں مجھے ان پر پھونک مارنے کی اجازت دی گئی، پھر میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ دونوں کنگن اڑ گئے۔میں نے اس خواب کی تعبیر دو جھوٹوں سے کی جو عنقریب ظاہر ہوں گے ۔عبیداللہ نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک اسود عنسی تھا، جسے فیروز نے یمن میں قتل کیا اور دوسرا مسیلمہ کذاب تھا۔

Chapter No: 73

باب قِصَّةُ أَهْلِ نَجْرَانَ

The story of people of Najran (Christians).

باب: نجران کے نصاری کا قِصّہ۔

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ جَاءَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرِيدَانِ أَنْ يُلاَعِنَاهُ، قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لاَ تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلاَعَنَّا، لاَ نُفْلِحُ نَحْنُ وَلاَ عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا‏.‏ قَالاَ إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلاً أَمِينًا، وَلاَ تَبْعَثْ مَعَنَا إِلاَّ أَمِينًا‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ لأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلاً أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ ‏"‏‏.‏ فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا قَامَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ ‏"‏‏

Narrated By Hudhaifa : Al-'Aqib and Saiyid, the rulers of Najran, came to Allah's Apostle with the intention of doing Lian one of them said to the other, "Do not do (this Lian) for, by Allah, if he is a Prophet and we do this Lian, neither we, nor our offspring after us will be successful." Then both of them said (to the Prophet), "We will give what you should ask but you should send a trustworthy man with us, and do not send any person with us but an honest one." The Prophet said, "I will send an honest man who Is really trustworthy." Then every one of the companions of Allah's Apostle wished to be that one. Then the Prophet said, "Get up, O Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah." When he got up, Allah's Apostle said, "This is the Trustworthy man of this (Muslim) nation."

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سید، مباہلہ کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۔ ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا : مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ واقعی سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہم اور ہماری نسل تو تباہ و برباد ہوجائے گی۔چنانچہ ان دونوں نے آپﷺسے عرض کی کہ آپ ہمیں جو فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے ، بس آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں جو واقعی امانت دار ہو۔آپﷺنے فرمایا: میں ضرور تمہارے پاس ایک امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلیٰ درجے کا امانت دار ہے ۔ اس پر رسول اللہﷺکے صحابہ کرام جھانکنے لگے کہ (یہ خوش قسمت شخص کون ہے ؟) آپﷺنےفرمایا: اے عبیدہ بن جراح ! کھڑے ہوجاؤ ۔ پھر جب وہ کھڑے ہوگئے تو آپﷺنے فرمایا: یہ شخص اس امت کے امین ہیں۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَ أَهْلُ نَجْرَانَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا ابْعَثْ لَنَا رَجُلاً أَمِينًا‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلاً أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ ‏"‏‏.‏ فَاسْتَشْرَفَ لَهُ النَّاسُ، فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ‏

Narrated By Hudhaifa : The people of Najran came to the Prophet and said, "Send an honest man to us." The Prophet said, "I will send to you an honest man who is really trustworthy." Everyone of the (Muslim) people hoped to be that one. The Prophet then sent Abu Ubaida bin Al-Jarrah.

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ اہل نجران نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے پاس کسی امانت دار شخص کو بھیجیں۔تو آپﷺنے فرمایا: میں ضرور تمہارے پاس ایک امانت دار شخص کو بھیج رہا ہوں جو واقعی امانت دار ہے ۔اس پر لوگ جھانکنے لگے (کہ یہ خوش قسمت شخص کون ہے ؟ )آخر آپﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ، وَأَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ ‏

Narrated By Anas : The Prophet said, "Every nation has an Amin (i.e. the most honest man), and the Amin of this nation is Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah."

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا: ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے ، اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن الجراح ہے۔

Chapter No: 74

باب قِصَّةُ عُمَانَ وَالْبَحْرَيْنِ

The story of Oman and Al-Bahrain.

باب؛ عمانؔ اور بحرینؔ کا قِصّہ۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، سَمِعَ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا ثَلاَثًا ‏"‏‏.‏ فَلَمْ يَقْدَمْ مَالُ الْبَحْرَيْنِ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ أَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنِي‏.‏ قَالَ جَابِرٌ فَجِئْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لَوْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا ثَلاَثًا ‏"‏‏.‏ قَالَ فَأَعْطَانِي‏.‏ قَالَ جَابِرٌ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ فَسَأَلْتُهُ، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَلَمْ يُعْطِنِي، فَقُلْتُ لَهُ قَدْ أَتَيْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي‏.‏ فَقَالَ أَقُلْتَ تَبْخَلُ عَنِّي وَأَىُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ ـ قَالَهَا ثَلاَثًا ـ مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلاَّ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ‏.‏ وَعَنْ عَمْرٍو عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ جِئْتُهُ، فَقَالَ لِي أَبُو بَكْرٍ عُدَّهَا‏.‏ فَعَدَدْتُهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَمِائَةٍ، فَقَالَ خُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ‏.‏

Narrated By Jabir bin Abdullah : Allah's Apostle said to me, "If the revenue of Al-Bahrain should come, I will give you so much and so much," repeating "so much" thrice. But the revenue of Al-Bahrain did not come till Allah's Apostle had died. When the revenue came during the rule of Abu Bakr. Abu Bakr ordered an announcer to announce, "Whoever had any debt or promise due upon the Prophet, should present himself to me (i.e. Abu Bakr). I came to Abu Bakr and informed him that the Prophet had said (to me), "If the revenue of Al-Bahrain should come, I will give you so-much and so much," repeating "so much" thrice. So Abu Bakr gave me (in another narration Jaibir said,). I met Abu Bakr after that and asked him (to give me what the Prophet had promised me) but he did not give me. I again went to him but he did not give me. I again went to him (for the third time) but he did not give me; On that I said to him, "I came to you but you did not give me, then I came to you and you did not give me, and then again I came to you, but you did not give me; so you should either give me or else you are like a miserly to me, on that, Abu Bakr said, "Do you say, 'You are like a miserly to me?' There is no worse disease than miserliness." Abu Bakr said it thrice and added, "Whenever I refused to give you, I had the intention of giving you." (In another narration) Jabir bin 'Abdullah said, "I went to Abu Bakr (and he gave me a handful of money) and told me to count it, I counted and found it five-hundred, and then Abu Bakr said (to me), "Take the same amount twice."

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اگر بحرین سے مال آیا تو میں آپ کو اتنا اتنا دوں گا۔یہ آپﷺنے تین مرتبہ فرمایا۔لیکن بحرین سے جب مال آیا تو آپﷺ وفات پاچکے تھے۔جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس وہ مال پہنچا تو انہوں نے منادی کے ذریعے اعلان کروایا کہ اگر کسی کا نبی ﷺکے ذمے کوئی قرض ہے یا کسی سے آپﷺنے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ میرے پاس تشریف لائے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے انہیں بتادیا کہ آپ ﷺنے مجھے فرمایا تھاکہ اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا ۔ آپﷺنے تین مرتبہ ایسا فرمایا تھا۔اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے مال دیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے مال طلب کیا تو انہوں نے مجھے کچھ نہ دیا ۔ میں دوبارہ ان کے پاس گیا پھر بھی کچھ نہ دیا۔ میں تیسری مرتبہ پھر گیا لیکن انہوں نے پھر بھی کچھ نہ دیا۔ میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا: میں آپ کے پاس آیا آپ نے مجھے مال نہ دیا۔ پھر دوبارہ آیا تو آپنے نہ دیا، پھر تیسری بار آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھےکچھ نہ دیا ۔ مجھے مال دیں یا پھر آپ میرے معاملات میں بخل سے کام لیتے ہیں ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے میری طرف بخل کی نسبت کی ہے ؟ بخل سے زیادہ بری بیماری کون سی ہوسکتی ہے ؟ انہوں نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔(کہنے لگے: ) میں نے ایک مرتبہ بھی تم سے روکنے کا ارادہ نہیں کیا ۔ میں چاہتا تھا کہ ذرا ٹھہر کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو مجھے انہوں نے کہا: ان کو شمار کرو۔ میں نے شمار کیا تو وہ پانچ سو درہم تھے ۔ انہوں نے فرمایا: اس طرح دو مرتبہ اور لے لو۔

Chapter No: 75

باب قُدُومُ الأَشْعَرِيِّينَ وَأَهْلِ الْيَمَنِ

The arrival of Al-Ashariyun and the people of Yemen.

باب: اشعری لوگوں اور یمن والوں کانبیﷺ کے پاس آنا

وَقَالَ أَبُو مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ ‏"

Abu Musa said, the Prophet (s.a.w) said, "They are from me and I am from them."

اور ابو موسٰی نےنبیﷺ سے روایت کی۔آپؐ نے فرمایا اشعری لوگ میرے ہیں ، میں ان کا ہوں۔

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي، مِنَ الْيَمَنِ، فَمَكَثْنَا حِينًا مَا نُرَى ابْنَ مَسْعُودٍ وَأُمَّهُ إِلاَّ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ، مِنْ كَثْرَةِ دُخُولِهِمْ وَلُزُومِهِمْ لَهُ‏.‏

Narrated By Abu Musa : My brother and I came from Yemen (to Medina) and remained for some time, thinking that Ibn Masud and his mother belonged to the family of the Prophet because of their frequent entrance (upon the Prophet) and their being attached to him.

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے بھائی یمن سے آئے تو ہم کچھ عرصہ (مدینہ میں)ٹھہرے ۔ہم عبد اللہ بن مسعودی رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ ماجدہ کو اہل بیت خیال کررہےتھے کیونکہ یہ لوگ آپﷺکے گھر بہت زیادہ جایا کرتےتھے اور آپﷺکے ہاں اکثر رہتے تھے۔


حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَبُو مُوسَى أَكْرَمَ هَذَا الْحَىَّ مِنْ جَرْمٍ، وَإِنَّا لَجُلُوسٌ عِنْدَهُ وَهْوَ يَتَغَدَّى دَجَاجًا، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ جَالِسٌ، فَدَعَاهُ إِلَى الْغَدَاءِ، فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ‏.‏ فَقَالَ هَلُمَّ، فَإِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَأْكُلُهُ‏.‏ فَقَالَ إِنِّي حَلَفْتُ لاَ آكُلُهُ‏.‏ فَقَالَ هَلُمَّ أُخْبِرْكَ عَنْ يَمِينِكَ، إِنَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَفَرٌ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ، فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَأَبَى أَنْ يَحْمِلَنَا فَاسْتَحْمَلْنَاهُ، فَحَلَفَ أَنْ لاَ يَحْمِلَنَا، ثُمَّ لَمْ يَلْبَثِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ أُتِيَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ، فَلَمَّا قَبَضْنَاهَا قُلْنَا تَغَفَّلْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَمِينَهُ، لاَ نُفْلِحُ بَعْدَهَا أَبَدًا فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا وَقَدْ حَمَلْتَنَا‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَجَلْ، وَلَكِنْ لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلاَّ أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهَا ‏"‏‏.‏

Narrated By Zahdam : When Abu Musa arrived (at Kufa as a governor) he honoured this family of Jarm (by paying them a visit). I was sitting near to him, and he was eating chicken as his lunch, and there was a man sitting amongst the people. Abu Musa invited the man to the lunch, but the latter said, "I saw chickens (eating something (dirty) so I consider them unclean." Abu Musa said, "Come on! I saw the Prophet eating it (i.e. chicken)." The man said "I have taken an oath that I will not ea (chicken)" Abu Musa said." Come on! I will tell you about your oath. We, a group of Al-Ash'ariyin people went to the Prophet and asked him to give us something to ride, but the Prophet refused. Then we asked him for the second time to give us something to ride, but the Prophet took an oath that he would not give us anything to ride. After a while, some camels of booty were brought to the Prophet and he ordered that five camels be given to us. When we took those camels we said, "We have made the Prophet forget his oath, and we will not be successful after that." So I went to the Prophet and said, "O Allah' Apostle ! You took an oath that you would not give us anything to ride, but you have given us." He said, "Yes, for if I take an oath and later I see a better solution than that, I act on the later (and gave the expiation of that oath).'"

حضرت زہدم سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (کوفہ کے امیر بن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں) آئے تو اانہوں نے قبیلہ جَرم کا بہت اعزاز و احترام کیا۔ زہدم کہتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ آپ مرغ کا ناشتہ کر رہے تھے۔ حاضرین میں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوموسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ نے انہیں بھی کھانے پر بلایا تو ان صاحب نے کہا کہ جب سے میں نے مرغیوں کو کچھ(گندی) چیزیں کھاتے دیکھا ہے، تب سے مجھے اس کے گوشت سے گھن آنے لگی ہے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آؤ بھائی میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ ان صاحب نے کہا لیکن میں نے اس کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ انہوں نے کہا: تم آ تو جاؤ میں تمہیں تمہاری قسم کے بارے میں بھی بتاتا ہوں ہم قبیلہ اشعر کے چند لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے (غزوہ تبوک کے لیے) جانور مانگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے۔ ہم نے پھر آپ سے مانگا تو آپ ﷺنے اس مرتبہ قسم کھائی کہ آپ ہم کو سواری نہیں دیں گے لیکن ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ غنیمت میں کچھ اونٹ آئے اور نبی ﷺ نے ان میں سے پانچ اونٹ ہم کو دلائے۔ جب ہم نے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا تو ہمیں خیال آیا کہ ہم نے تو نبی ﷺکو قسم سے غافل کردیا ہے قسم یاد نہیں دلائی۔ ایسی حالت میں ہماری بھلائی کبھی نہیں ہو گی۔ چنانچہ میں آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے تو قسم کھا لی تھی کہ آپ ہم کو سواری نہیں دیں گے پھر آپ نے سواری دے دی۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ہاں ایسا ہی ہے لیکن جب بھی میں کوئی قسم کھاتا ہوں اور اس کے سوا دوسری صورت مجھے اس سے بہتر نظر آتی ہے تو میں وہی کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے (اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں)۔


حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرَةَ، جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيُّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، قَالَ جَاءَتْ بَنُو تَمِيمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ أَبْشِرُوا يَا بَنِي تَمِيمٍ ‏"‏‏.‏ قَالُوا أَمَّا إِذْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا‏.‏ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اقْبَلُوا الْبُشْرَى إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ ‏"‏‏.‏ قَالُوا قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏

Narrated By Imran bin Husain : The people of Banu Tamim came to Allah's Apostle, and he said, "Be glad (i.e. have good tidings). O Banu Tamim!" They said, "As you have given us good tidings then give us (some material things)." On that the features of Allah's Apostle changed (i.e. he took it ill). Then some people from Yemen came, and the Prophet said (to them) "Accept good tidings as Banu Tamim have not accepted them." They said, "We accept them, O Allah's Apostle!"

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ بنو تمیم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو کچھ مال بھی عنایت فرمائیے۔ اس پر آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ پھر یمن کے کچھ اشعری لوگ آئے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت قبول نہیں کی، یمن والو! تم قبول کر لو۔ وہ بولے ہم نے قبول کی یا رسول اللہﷺ۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ الإِيمَانُ هَا هُنَا ‏"‏‏.‏ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْيَمَنِ ‏"‏ وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ، عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الإِبِلِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ رَبِيعَةَ وَمُضَرَ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Masud : The Prophet beckoned with his hand towards Yemen and said, "Belief is there." The harshness and mercilessness are the qualities of those farmers etc, who are busy with their camels and pay no attention to the religion (is towards the east) from where the side of the head of Satan will appear; those are the tribes of Rabi'a and Mudar.

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان یہاں ہے اور آپ ﷺنے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور بےرحمی اور سخت دلی ربیعہ اور مضر میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پاس اپنی آوازیں بلند کرتے ہیں جہاں شیطان کے دو سینگ طلوع ہوں گے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ، هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَأَلْيَنُ قُلُوبًا، الإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ، وَالْفَخْرُ وَالْخُيَلاَءُ فِي أَصْحَابِ الإِبِلِ، وَالسَّكِينَةُ وَالْوَقَارُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ ‏"‏‏.‏ وَقَالَ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "The people of Yemen have come to you and they are more gentle and soft-hearted. Belief is Yemenite and Wisdom is Yemenite, while pride and haughtiness are the qualities of the owners of camels (i.e. bedouins). Calmness and solemnity are the characters of the owners of sheep."

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیا ن کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاس یمن کے لوگ آئیں گے جو نرم دل ، اور نرم مزاج ہیں۔ ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے ۔ فخر او ر تکبر اونٹوں والوں میں ہے ، سکون و وقار بکریوں والوں میں ہے۔


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ الإِيمَانُ يَمَانٍ، وَالْفِتْنَةُ هَا هُنَا، هَا هُنَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "Belief is Yemenite while afflictions appear from there (the east) from where the side of the head of Satan will appear."

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :ایمان تو یمن کا ہے اور فتنہ (دین کی خرابی) ادھر (مشرق)سے ہوگی اور ادھر ہی سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ، أَضْعَفُ قُلُوبًا وَأَرَقُّ أَفْئِدَةً، الْفِقْهُ يَمَانٍ، وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ ‏"‏‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "The people of Yemen have come to you, and they are more soft hearted and gentle hearted people. The capacity for understanding religion is Yemenite and Wisdom is Yemenite."

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا : تمہارے پاس یمن والے آئیں ہیں ۔ رقیق القلب اور نرم دل ہیں ۔ دین کی سمجھ یمن والوں میں ہے اور حکمت بھی یمن کی ہے۔


حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ كُنَّا جُلُوسًا مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَجَاءَ خَبَّابٌ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَيَسْتَطِيعُ هَؤُلاَءِ الشَّبَابُ أَنْ يَقْرَءُوا كَمَا تَقْرَأُ قَالَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ شِئْتَ أَمَرْتُ بَعْضَهُمْ يَقْرَأُ عَلَيْكَ قَالَ أَجَلْ‏.‏ قَالَ اقْرَأْ يَا عَلْقَمَةُ‏.‏ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ حُدَيْرٍ أَخُو زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ أَتَأْمُرُ عَلْقَمَةَ أَنْ يَقْرَأَ وَلَيْسَ بِأَقْرَئِنَا قَالَ أَمَا إِنَّكَ إِنْ شِئْتَ أَخْبَرْتُكَ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي قَوْمِكَ وَقَوْمِهِ‏.‏ فَقَرَأْتُ خَمْسِينَ آيَةً مِنْ سُورَةِ مَرْيَمَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ كَيْفَ تَرَى قَالَ قَدْ أَحْسَنَ‏.‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَا أَقْرَأُ شَيْئًا إِلاَّ وَهُوَ يَقْرَؤُهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى خَبَّابٍ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِهَذَا الْخَاتَمِ أَنْ يُلْقَى قَالَ أَمَا إِنَّكَ لَنْ تَرَاهُ عَلَىَّ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَأَلْقَاهُ‏.‏ رَوَاهُ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ‏.‏

Narrated By Alqama : We were sitting with Ibn Masud when Khabbab came and said, "O Abu Abdur-Rahman! Can these young fellows recite Qur'an as you do?" Ibn Mas'ud said, "If you wish I can order one of them to recite (Qur'an) for you." Khabbab replied, "Yes. "Ibn Mas'ud said, "Recite, O 'Alqama!" On that, Zaid bin Hudair, the brother of Ziyad bin Hudair said, (to Ibn Mas'ud), "Why have you ordered 'Alqama to recite though he does not recite better than we?" Ibn Mas'ud said, "If you like, I would tell you what the Prophet said about your nation and his (i.e. 'Alqama's) nation." So I recited fifty Verses from Sura-Maryam. 'Abdullah (bin Mas'ud) said to Khabbab, "What do you think (about 'Alqama's recitation)?" Khabbab said, "He has recited well." 'Abdullah said, "Whatever I recite, 'Alqama recites." Then 'Abdullah turned towards Khabbab and saw that he was wearing a gold ring, whereupon he said, "Hasn't the time for its throwing away come yet?" Khabbab said, "You will not see me wearing it after today," and he throw it away.

حضرت علقمہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مشہور صحابی تشریف لائے اور کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا یہ نوجوان لوگ (جو تمہارے شاگرد ہیں) اسی طرح قرآن پڑھ سکتے ہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں کسی سے تلاوت کے لیے کہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ ضرور۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اے علقمہ! تم پڑھو۔ یہ سن کر زیاد بن حدیر کے بھائی زید بن حدیر نے کہا: آپ علقمہ کو قرآن پڑھنے کا حکم دیتےہیں حالانکہ وہ ہم سے اچھا قرآن پڑھنے والا نہیں۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگر تم چاہو تو میں تمہیں نبی ﷺکی حدیث سناؤں جو آپﷺنے تمہاری قوم اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمائی تھی۔خیر علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ مریم کی پچاس آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو! کیسا پڑھتا ہے؟ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا بہت خوب پڑھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو آیت بھی میں جس طرح پڑھتا ہوں علقمہ بھی اسی طرح پڑھتا ہے، پھر انہوں نے خباب رضی اللہ عنہ کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی، تو کہا: کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ یہ انگوٹھی پھینک دی جائے۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آج کے بعد آپ یہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے۔ چنانچہ انہوں نے انگوٹھی اتار دی۔ اسی حدیث کو غندر نے شعبہ سے روایت کیا ہے۔

Chapter No: 76

باب قِصَّةُ دَوْسٍ وَالطُّفَيْلِ بْنِ عَمْرٍو الدَّوْسِيِّ

The story of Daus and Tufail bin Amr Ad-Dausi.

باب: دوس قبیلے اور طفیل بن عمرو دوسی کا بیان۔

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّ دَوْسًا قَدْ هَلَكَتْ، عَصَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Tufail bin 'Amr came to the Prophet and said, "The Daus (nation) have perished as they disobeyed and refused to accept Islam. So invoke Allah against them." But the Prophet said, "O Allah! Give guidance to the Daus (tribe) and bring them (to Islam)!"

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قبیلہ دوس تو تباہ وبرباد ہوگیا کیونکہ اس نے نافرمانی اور انکار کیا (اسلام قبول نہیں کیا) ۔آپ اللہ تعالیٰ سے ان کے خلاف دعا کریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں میرے یہاں لے آ۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ لَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قُلْتُ فِي الطَّرِيقِ يَا لَيْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْكُفْرِ نَجَّتِ وَأَبَقَ غُلاَمٌ لِي فِي الطَّرِيقِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَبَايَعْتُهُ، فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ الْغُلاَمُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ هَذَا غُلاَمُكَ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ هُوَ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى‏.‏ فَأَعْتَقْتُهُ‏.‏

Narrated By Abu Huraira : When I came to the Prophet said on my way, "O what a long tedious tiresome night; nevertheless, it has rescued me from the place of Heathenism." A slave of mine ran away on the way. When I reached the Prophet I gave him the oath of allegiance (for Islam), and while I was sitting with him, suddenly the slave appeared. The Prophet said to me. "O Abu Huraira! Here is your slave," I said, "He (i.e. the slave) is (free) for Allah's Sake," and manumitted him.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب میں اپنے وطن سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلا تو راستے میں، میں نے یہ شعر پڑھا: (ترجمہ) کیسی ہے تکلیف کی لمبی یہ رات خیر اس نے کفر سے دی ہے نجات میرا غلام راستے میں بھاگ گیا تھا، پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے بیعت کی، ابھی آپ کے پاس میں بیٹھا ہی ہوا تھا کہ وہ غلام دکھائی دیا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے ابوہریرہ! یہ ہے تمہارا غلام! میں نے کہا :اب یہ اللہ کے لیے ہے میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔

Chapter No: 77

باب قِصَّةِ وَفْدِ طَيِّئٍ وَحَدِيثِ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ

The story of the delegation of Taiyy, and the narration of Adi bin Hatim.

باب: بنی طے کے ایلچیوں اور عدی بن حاتم کا قِصّہ۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ أَتَيْنَا عُمَرَ فِي وَفْدٍ، فَجَعَلَ يَدْعُو رَجُلاً رَجُلاً وَيُسَمِّيهِمْ فَقُلْتُ أَمَا تَعْرِفُنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ بَلَى، أَسْلَمْتَ إِذْ كَفَرُوا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا، وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا، وَعَرَفْتَ إِذْ أَنْكَرُوا‏.‏ فَقَالَ عَدِيٌّ فَلاَ أُبَالِي إِذًا‏.‏

Narrated By 'Adi bin Hatim : We came to 'Umar in a delegation (during his rule). He started calling the men one by one, calling each by his name. (As he did not call me early) I said to him. "Don't you know me, O chief of the Believers?" He said, "Yes, you embraced Islam when they (i.e. your people) disbelieved; you have come (to the Truth) when they ran away; you fulfilled your promises when they broke theirs; and you recognized it (i.e. the Truth of Islam) when they denied it." On that, 'Adi said, "I therefore don't care."

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سےمروی نے انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں (ان کی دور خلافت میں) ایک وفد کی شکل میں آئے۔ وہ ایک ایک شخص کو نام لے لے کر بلاتے جاتے تھےمیں نے ان سے کہا کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں؟ اے امیرالمؤمنین! فرمایا کیا تمہیں بھی نہیں پہچانوں گا، تم اس وقت اسلام لائے جب یہ سب کفر پر قائم تھے۔ تم نے اس وقت توجہ کی جب یہ سب منہ موڑ رہے تھے۔ تم نے اس وقت وفا کی جب یہ سب بے وفائی کر رہے تھے اور اس وقت پہچانا جب ان سب نے انکار کیا تھا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے کہا بس اب مجھے کوئی پرواہ نہیں۔

Chapter No: 78

باب حَجَّةُ الْوَدَاعِ

Hajjat-ul-Wada

باب:حجتہ الوداع کے بیان میں۔

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْىٌ فَلْيُهْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ لاَ يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا ‏"‏‏.‏ فَقَدِمْتُ مَعَهُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلاَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ انْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ ‏"‏‏.‏ فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ فَقَالَ ‏"‏ هَذِهِ مَكَانَ عُمْرَتِكِ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى، وَأَمَّا الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا‏.‏

Narrated By 'Aisha : We went out with Allah's Apostle during Hajjat-ul-Wada' and we assumed the Ihram for 'Umra. Then Allah's Apostle said to us, "Whoever has got the Hadi should assume the Ihram for Hajj and 'Umra and should not finish his Ihram till he has performed both ('Umra and Hajj)." I arrived at Mecca along with him (i.e. the Prophet) while I was menstruating, so I did not perform the Tawaf around the Ka'ba or between Safa and Marwa. I informed Allah's Apostle about that and he said, "Undo your braids and comb your hair, and then assume the ihram for Hajj and leave the 'Umra." I did so, and when we performed and finished the Hajj, Allah's Apostles sent me to At-Tanim along with (my brother) 'Abdur-Rahman bin Abu Bakr As-Siddiq, to perform the 'Umra. The Prophet said, "This 'Umra is in lieu of your missed 'Umra." Those who had assumed the ihram for 'Umra, performed the Tawaf around the Ka'ba and between Safa and Marwa, and then finished their Ihram, and on their return from Mina, they performed another Tawaf (around the Ka'ba and between Safa and Marwa), but those who combined their Hajj and 'Umra, performed only one Tawaf (between Safa and Marwa) (for both).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ہم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہو وہ عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لے اور جب تک دونوں کے ارکان نہ ادا کر لے احرام نہ کھولے۔ پھر میں آپ ﷺ کے ساتھ جب مکہ آئی تو مجھے حیض آچکا تھا۔ اس لیے نہ بیت اللہ کا طواف کر سکی اور نہ صفا اور مروہ کی سعی کر سکی۔ میں نے اس کی شکایت آپﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سر کے بال کھول دو اور اس میں کنگھی کرلو۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ چھوڑ دو۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم حج ادا کر چکے تو نبی ﷺ نے مجھے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تنعیم بھیجا اور میں نے عمرہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا یہ عمرہ اس عمرے کے بدل ہوگیا (جس کو تو نے چھوڑ دیا تھا) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جن لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ انہوں نے بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کے بعد احرام کھول دیا۔ پھر منیٰ سے واپسی کے بعد انہوں نے ایک اور طواف کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا، انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔


حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ فَقَدْ حَلَّ‏.‏ فَقُلْتُ مِنْ أَيْنَ قَالَ هَذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ‏}‏ وَمِنْ أَمْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَصْحَابَهُ أَنْ يَحِلُّوا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ‏.‏ قُلْتُ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ بَعْدَ الْمُعَرَّفِ‏.‏ قَالَ كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَرَاهُ قَبْلُ وَبَعْدُ‏.‏

Narrated By Ibn Juraij : 'Ata' said, "Ibn 'Abbas said, 'If he (i.e. the one intending to perform 'Umra) has performed the Tawaf around the Ka'ba, his Ihram is considered to have finished.' said, 'What proof does Ibn 'Abbas has as to this saying?" 'Ata' said, "(The proof is taken) from the Statement of Allah: "And afterwards they are brought For sacrifice unto Ancient House (Ka'ba at Mecca)" (22.33) and from the order of the Prophet to his companions to finish their Ihram during Hajjat-ul-Wada." I said (to 'Ata'), "That (i.e. finishing the Ihram) was after coming form 'Arafat." 'Ata' said, "Ibn 'Abbas used to allow it before going to 'Arafat (after finishing the 'Umra) and after coming from it (i.e. after performing the Hajj)."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: جب انسان بیت اللہ کا طواف کرے تو احرام کھول دے۔(ابن جریج نے کہا) میں نے عطاء سے پوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ مسئلہ کہاں سے نکالا؟ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ثم محلها إلى البيت العتيق‏» پھر ان کا حلال ہونا بیت عتیق کے پاس ہے (سورۃ الحج)۔ اور نبی ﷺکے اس حکم سے بھی اخذ کیا ہے جو آپ ﷺنے اپنے اصحاب کو حجۃ الوداع میں احرام کھول دینے کے لیے دیا تھا میں نے کہا : یہ حکم تو عرفات میں ٹھہرنے کے بعد کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا: لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ مذہب تھا کہ عرفات میں ٹھہرنے سے پہلے اور بعد ہر حال میں جب طواف کر لے تو احرام کھول ڈالنا درست ہے۔


حَدَّثَنِي بَيَانٌ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ سَمِعْتُ طَارِقًا، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِالْبَطْحَاءِ فَقَالَ ‏"‏ أَحَجَجْتَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ كَيْفَ أَهْلَلْتَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ لَبَّيْكَ بِإِهْلاَلٍ كَإِهْلاَلِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ ‏"‏ طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حِلَّ ‏"‏‏.‏ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي‏.

Narrated By Abu Musa Al-Ashari : I came to the Prophet at a place called Al-Batha'. The Prophet said, "Did you assume the Ihram for Hajj?" I said, "Yes," He said, "How did you express your intention (for performing Hajj)? " I said, "Labbaik (i.e. I am ready) to assume the Ihram with the same intention as that of Allah's Apostle." The Prophet said, "Perform the Tawaf around the Ka'ba and between Safa and Marwa, and then finish your Ihram." So I performed the Tawaf around the Ka'ba and between Safa and Marwa and then I came to a woman from the tribe of Qais who removed the lice from my head.

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپﷺ وادی بطحاء میں قیام کئے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا :تم نے حج کا احرام باندھ لیا؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ دریافت فرمایا، احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی؟ میں نے کہا: لبیک کہتے وقت میں نے نیت کی تھی کہ وہی احرام باندھتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کا ہے ۔آپﷺنے فرمایا کہ پہلے بیت اللہ کا طواف کرو، پھر صفا اور مروہ کی سعی کرو، پھر احرام کھول دو۔ چنانچہ میں بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر کے قبیلہ قیس کی ایک عورت کے گھر آیا اور انہوں نے میرے سر سے جوئیں نکالیں اور کنکھی کی۔


حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، أَخْبَرَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ حَفْصَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يَحْلِلْنَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَتْ حَفْصَةُ فَمَا يَمْنَعُكَ فَقَالَ ‏"‏ لَبَّدْتُ رَأْسِي وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلَسْتُ أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ هَدْيِي ‏"‏‏

Narrated By Hafsa : (The wife of the Prophet) The Prophet ordered all his wives to finish their Ihram during the year of Hajjat-ul-Wada. On that, I asked the Prophet "What stops you from finishing your ihram?" He said, "I have matted my hair and garlanded my Hadi. So I will not finish my Ihram unless I have slaughtered my Hadi."

نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی بیویوں کو احرام کھولنے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا: کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا (یا رسول اللہﷺ!) پھر آپ احرام کیوں نہیں کھولتے؟ آپﷺ نے فرمایا :میں نے تو اپنے بالوں کو جما لیا ہے اور اپنی قربانی کو ہار پہنا دیا ہے، اس لیے میں جب تک قربانی نہ کر لوں اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ، مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ امْرَأَةً، مِنْ خَثْعَمَ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ ‏

Narrated By Ibn Abbas : A woman from the tribe of Khath'am asked for the verdict of Allah's Apostle (regarding something) during Hajjat-ul-Wada' while Al-Fadl bin 'Abbas was the companion-rider behind Allah's Apostle. She asked, "Allah's ordained obligation (i.e. compulsory Hajj) enjoined on His slaves has become due on my old father who cannot sit firmly on the riding animal. Will it be sufficient if I perform the Hajj on his behalf?" He said, "Yes."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺسے ایک مسئلہ پوچھا، اس حالت میں کہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نبی ﷺکی سواری پر آپﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کا جو فریضہ اس کے بندوں پر ہے (یعنی حج) میرے والد پر بھی فرض ہو چکا ہے لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہے کہ وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! کرسکتی ہو۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَقْبَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْفَتْحِ وَهْوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ عَلَى الْقَصْوَاءِ‏.‏ وَمَعَهُ بِلاَلٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ حَتَّى أَنَاخَ عِنْدَ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ لِعُثْمَانَ ‏"‏ ائْتِنَا بِالْمِفْتَاحِ ‏"‏، فَجَاءَهُ بِالْمِفْتَاحِ فَفَتَحَ لَهُ الْبَابَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأُسَامَةُ وَبِلاَلٌ وَعُثْمَانُ، ثُمَّ أَغْلَقُوا عَلَيْهِمِ الْبَابَ، فَمَكَثَ نَهَارًا طَوِيلاً ثُمَّ خَرَجَ، وَابْتَدَرَ النَّاسُ الدُّخُولَ، فَسَبَقْتُهُمْ فَوَجَدْتُ بِلاَلاً قَائِمًا مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ فَقُلْتُ لَهُ أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ صَلَّى بَيْنَ ذَيْنِكَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ‏.‏ وَكَانَ الْبَيْتُ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ سَطْرَيْنِ، صَلَّى بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ مِنَ السَّطْرِ الْمُقَدَّمِ، وَجَعَلَ باب الْبَيْتِ خَلْفَ ظَهْرِهِ، وَاسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الَّذِي يَسْتَقْبِلُكَ حِينَ تَلِجُ الْبَيْتَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ، قَالَ وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى وَعِنْدَ الْمَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ مَرْمَرَةٌ حَمْرَاءُ‏.

Narrated By (Abdullah) bin 'Umar : The Prophet arrived (at Mecca) in the year of the Conquest (of Mecca) while Usama was riding behind him on (his she-camel)'. Al-Qaswa.' Bilal and 'Uthman bin Talha were accompanying him. When he made his she-camel kneel down near the Ka'ba, he said to 'Uthman, "Get us the key (of the Ka'ba). He brought the key to him and opened the gate (of the Ka'ba), for him. The Prophet, Usama, Bilal and 'Uthman (bin Talha) entered the Ka'ba and then closed the gate behind them (from inside). The Prophet stayed there for a long period and then came out. The people rushed to get in, but I went in before them and found Bilal standing behind the gate, and I said to him, "Where did the Prophet pray?" He said, "He prayed between those two front pillars." The Ka'ba was built on six pillars, arranged in two rows, and he prayed between the two pillars of the front row leaving the gate of the Ka'ba at his back and facing (in prayer) the wall which faces one when one enters the Ka'ba. Between him and that wall (was the distance of about three cubits). But I forgot to ask Bilal about the number of Rakat the Prophet had prayed. There was a red piece of marble at the place where he (i.e. the Prophet) had offered the prayer.

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا :فتح مکہ کے دن نبی ﷺ تشریف لائے، آپﷺ کی قصواء اونٹنی پر پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپﷺ کے ساتھ حضرت بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما بھی تھے ۔آپﷺ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کعبہ کی چابی لاؤ، وہ چابی لائے اور دروازہ کھولا۔ آپﷺ اندر داخل ہوئے تو آپ ﷺ کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی اندر گئے، پھر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور دیر تک اندر (نماز اور دعاؤں میں مشغول) رہے۔ جب آپﷺ باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ ان اگلے دو ستونوں کے درمیان پڑھی تھی اور اسوقت دو قطاروں میں کعبے کے چھ ستوں تھے ، یعنی آپﷺنے اگلی قطار کے دو ستوں کے درمیان نماز پڑھی تھی اور بیت اللہ کے دروازے کو اپنے پیچھے رکھا تھااور چہرہ مبارک اس سمت کی طرف رکھا جو آپ کے سامنے تھا جبکہ بیت اللہ میں داخل ہوتے ہیں۔آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا) ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ پوچھنا میں بھول گیا کہ نبی ﷺنے کتنی رکعت نماز پڑھی تھی۔ جس جگہ آپ ﷺنے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَخْبَرَتْهُمَا أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَىٍّ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَاضَتْ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَحَابِسَتُنَا هِيَ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَطَافَتْ بِالْبَيْتِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فَلْتَنْفِرْ ‏"‏‏.

Narrated By 'Aisha : (The wife of the Prophet) Safiya bin Huyai, the wife of the Prophet menstruated during Hajjat-ul-Wada' The Prophet said, "Is she going to detain us?" I said to him, "She has already come to Mecca and performed the Tawaf (ul-ifada) around the Ka'ba, O Allah's Apostle." The Prophet said, " Let her then proceed on (to Medina)."

نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا حجۃ الوداع کے موقع پر حائضہ ہو گئی تھیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ ہمیں روکنے والی ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا : پھر اسے چاہیے کہ اب کوچ کرے۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنَّا نَتَحَدَّثُ بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَلاَ نَدْرِي مَا حَجَّةُ الْوَدَاعِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ ذَكَرَ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ فَأَطْنَبَ فِي ذِكْرِهِ وَقَالَ ‏"‏ مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ، أَنْذَرَهُ نُوحٌ وَالنَّبِيُّونَ مِنْ بَعْدِهِ، وَإِنَّهُ يَخْرُجُ فِيكُمْ، فَمَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ شَأْنِهِ فَلَيْسَ يَخْفَى عَلَيْكُمْ أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ عَلَى مَا يَخْفَى عَلَيْكُمْ ثَلاَثًا، إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّهُ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ ‏"‏‏.

Narrated By Ibn Umar : We were talking about Hajjat-ul-Wada, while the Prophet was amongst us. We did not know what Hajjat-ul-Wada' signified. The Prophet praised Allah and then mentioned Al-Masih Ad-Dajjal and described him extensively, saying, "Allah did not send any prophet but that prophet warned his nation of Al-Masih Ad-Dajjal. Noah and the prophets following him warned (their people) of him. He will appear amongst you (O Muhammad's followers), and if it happens that some of his qualities may be hidden from you, but your Lord's State is clear to you and not hidden from you. The Prophet said it thrice. Verily, your Lord is not blind in one eye, while he (i.e. Ad-Dajjal) is blind in the right eye which looks like a grape bulging out (of its cluster).

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم حجۃ الوداع کے متعلق گفتگو کرتےتھے ، جبکہ نبی ﷺ ہم میں موجود تھے اور ہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجۃ الوداع کا مفہوم کیا ہے۔ پھر نبی ﷺ نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی پھر مسیح دجال کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جتنے بھی انبیاء اللہ نے بھیجے ہیں، سب نے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی امت کو اس سے خبردار کیا ،اور اس کے بعد دوسرے نبیوں نے بھی۔ اس (دجال)کا ظہور تم ہی میں ہوگا۔ جس کا حال تم پر پوشیدہ نہیں رہے گا ، لہذا یہ بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ تمہارارب اس صورت پر نہیں ہے کہ جو تم پرمخفی رہے۔آپﷺنے تین مرتبہ ایسا فرمایا۔بے شک تمہارا رب ایک چشم نہیں جبکہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا ، گویا اس کی ایک آنکھ پھولے ہوئے انگور کی طرح ہے۔


‏"‏ أَلاَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثَلاَثًا، وَيْلَكُمْ، أَوْ وَيْحَكُمُ، انْظُرُوا لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ

No doubt,! Allah has made your blood and your properties sacred to one another like the sanctity of this day of yours, in this town of yours, in this month of yours." The Prophet added: No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message to you? " They replied, "Yes," The Prophet said thrice, "O Allah! Be witness for it." The Prophet added, "Woe to you!" (or said), "May Allah be merciful to you! Do not become infidels after me (i.e. my death) by cutting the necks (throats) of one another."

خوب سن لو ! اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون اور تمہارے مال اسی طرح حرام کر رکھے ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے تمہیں احکام شریعت پہنچادیے ہیں ؟ سب نے کہا: جی ہاں ۔ آپﷺنے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہ آپﷺنے تین مرتبہ فرمایا۔ افسوس! دیکھنا میرے بعد پھر کافروں جیسے کام نہ شروع کردینا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا شروع کردو۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم غَزَا تِسْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، وَأَنَّهُ حَجَّ بَعْدَ مَا هَاجَرَ حَجَّةً وَاحِدَةً لَمْ يَحُجَّ بَعْدَهَا حَجَّةَ الْوَدَاعِ‏.‏ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَبِمَكَّةَ أُخْرَى‏.

Narrated By Zaid bin Arqam : The Prophet fought nineteen Ghazwas and performed only one Hajj after he migrated (to Medina), and did not perform another Hajj after it, and that was Hajj-ul-Wada,' Abu Ishaq said, "He performed when he was in Mecca."

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے انیس جنگیں لڑیں اور ہجرت کے بعد آپﷺنے صرف ایک ہی حج کیا ہے یعنی حجۃ الوداع اس کے بعد آپﷺنے کوئی حج نہیں کیا۔ ابو اسحاق سے مروی ہے کہ آپﷺنے ہجرت سے قبل مکہ میں ایک حج کیا تھا۔


حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِجَرِيرٍ ‏"‏ اسْتَنْصِتِ النَّاسَ ‏"‏ فَقَالَ ‏"‏ لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ‏"‏‏.‏

Narrated By Jarir : The Prophet ordered me during Hajjatul-Wada'. "Ask the people to listen." He then said, "Do not become infidels after me by cutting the necks (throats) of one another. "

حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا :لوگوں کو خاموش کر اؤ، پھر فرمایا: میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ، أَىُّ شَهْرٍ هَذَا ‏"‏ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‏.‏ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَلَيْسَ ذُو الْحِجَّةِ ‏"‏‏.‏ قُلْنَا بَلَى‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَأَىُّ بَلَدٍ هَذَا ‏"‏‏.‏ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ ‏"‏‏.‏ قُلْنَا بَلَى‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَأَىُّ يَوْمٍ هَذَا ‏"‏ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ ‏"‏‏.‏ قُلْنَا بَلَى‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ ـ قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَأَعْرَاضَكُمْ ـ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَسَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، أَلاَ فَلاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلاَّلاً، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلاَ لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلَّغُهُ أَنْ يَكُونَ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ ـ فَكَانَ مُحَمَّدٌ إِذَا ذَكَرَهُ يَقُولُ صَدَقَ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قَالَ ـ أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ‏.‏ مَرَّتَيْنِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Bakra : The Prophet said, "Time has taken its original shape which it had when Allah created the Heavens and the Earth. The year is of twelve months, four of which are sacred, and out of these (four) three are in succession, i.e. Dhul-Qa'da, Dhul-Hijja and Al-Muharram, and the fourth is Rajab which is named after the Mudar tribe, between (the month of) Jumaida (ath-thania) and Sha'ban." Then the Prophet asked, "Which is this month?" We said, "Allah and His Apostle know better." On that the Prophet kept quiet so long that we thought that he might name it with another name. Then the Prophet said, "Isn't it the month of Dhul-Hijja?" We replied, "Yes." Then he said, "Which town is this?" "We replied, "Allah and His Apostle know better." On that he kept quiet so long that we thought that he might name it with another name. Then he said, "Isn't it the town of Mecca?" We replied, "Yes, " Then he said, "Which day is today?" We replied, "Allah and His Apostle know better." He kept quiet so long that we thought that he might name it with another name. Then he said, "Isn't it the day of An-Nahr (i.e. sacrifice)?" We replied, "Yes." He said, "So your blood, your properties, (The sub-narrator Muhammad said, 'I think the Prophet also said: And your honour...) are sacred to one another like the sanctity of this day of yours, in this city of yours, in this month of yours; and surely, you will meet your Lord, and He will ask you about your deeds. Beware! Do not become infidels after me, cutting the throats of one another. It is incumbent on those who are present to convey this message (of mine) to those who are absent. May be that some of those to whom it will be conveyed will understand it better than those who have actually heard it." (The sub-narrator, Muhammad, on remembering that narration, used to say, "Muhammad spoke the truth!") He (i.e. Prophet) then added twice, "No doubt! Haven't I conveyed (Allah's Message) to you?"

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آ گیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذوالقعدہ ، ذو الحجۃ ، اور محرم (اور چوتھا) رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ (پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور ان کے رسول کو بہتر علم ہے۔ اس پر آپﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر دریافت فرمایا اور یہ شہر کون سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے۔ پھر آپﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا شاید اس کا کوئی اور نام آپﷺ رکھیں گے، جو مشہور نام کے علاوہ ہو گا۔، لیکن آپﷺ نے فرمایا: کیا یہ مکہ نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں (یہ مکہ ہی ہے) پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اور یہ دن کون سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے، پھر آپﷺ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپﷺ اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپﷺ نے فرمایا: کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: پس تمہارا خون اور تمہارا مال ،اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں اور تم بہت جلد اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں باز پرس کرے گا۔خبردار! میرے بعد تم اپنے دین سے برگشتہ نہ ہونا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ سنو! تم میں سے حاضر، غائب کو پہنچادے۔ شاید جس کو پیغام پہنچے وہ کسی سننے والے سے زیادہ اس پیغام کو محفوظ کرنے والا ہو۔ محمد بن سیرین جب اس حدیث کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ محمدﷺ نے سچ فرمایا۔ پھر آپﷺ نے دو مرتبہ فرمایا : کیا میں نے دین پہنچادیا ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أُنَاسًا، مِنَ الْيَهُودِ قَالُوا لَوْ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِينَا لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا‏.‏ فَقَالَ عُمَرُ أَيَّةُ آيَةٍ فَقَالُوا ‏{‏الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي‏}‏‏.‏ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ أَىَّ مَكَانٍ أُنْزِلَتْ، أُنْزِلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ‏.

Narrated By Tariq bin Shibab : Some Jews said, "Had this Verse been revealed to us, we would have taken that day as 'Id (festival)." 'Umar said, "What Verse?" They said: "This day I have Perfected your religion for you, Completed My Favour upon you And have chosen for you Islam as your religion" (5.3) 'Umar said, "I know the place where it was revealed; It was revealed while Allah's Apostle was staying at 'Arafat."

حضرت طارق بن شہاب سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ چند یہودیوں نے کہا : اگر یہ آیت کریمہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن عید مناتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ کون سی آیت؟ انہوں نے کہا: «اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي‏» آج میں نے تم پر اپنے دین کو مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول ﷺ میدان عرفات میں تشریف فرماتھے۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى يَوْمَ النَّحْرِ‏.‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ وَقَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ‏.‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا مَالِكٌ مِثْلَهُ‏.‏

Narrated By 'Aisha : We set out with Allah's Apostle, and some of us assumed the ihram for 'Umra, some assumed it for Hajj, and some assumed it for both Hajj and 'Umra. Allah's Apostle assumed the Ihram for Hajj. So those who had assumed the Ihram for Hajj or for both Hajj and 'Umra, did not finish their Ihram till the day of An-Nahr (i.e. slaughter of sacrifices). Narrated By Malik : same as above saying, "(We set out) with Allah's Apostle in Hajjat-ul-Wada'...)"

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے تو کچھ لوگ ہم میں سے عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھے، کچھ حج کا اور کچھ عمرہ اور حج دونوں کا۔ نبی ﷺ نے بھی حج کا احرام باندھا تھا۔ جو لوگ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے یا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، وہ یوم النحر یعنی قربانی کے دن حلال ہوئے تھے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع (کے لیے ہم نکلے)۔ اس کے علاوہ دوسری روایت میں بھی پہلی کی طرح مذکور ہے۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ـ هُوَ ابْنُ سَعْدٍ ـ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عَادَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ، أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلاَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَىْ مَالِي قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ فَالثُّلُثِ قَالَ ‏"‏ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ آأُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ ‏"‏ إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلاً تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلاَّ ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ‏.‏ لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ رَثَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ ‏"

Narrated By Sad : The Prophet visited me during Hajjat ul-Wada' while I was suffering from a disease which brought me to the verge of death. I said, "O Allah's Apostle! My ailment has reached such a (bad) state as you see, and I have much wealth, but I have no-one to inherit from me except my only daughter. Shall I give 2/3 of my property as alms (in charity)?" The Prophet said, "No," I said, "Shall I give half of my property as alms?" He said, "No." I said, "(Shall I give) 1/3 of it? " He replied, " 1/3, and even 1/3 is too much. It is better for you to leave your inheritors wealthy rather than to leave them poor, begging people (for their sustenance); and whatever you spend for Allah's Sake, you will get reward for it even for the morsel of food which you put in your wives mouth." I said, "O Allah's Apostle! Should I remain (in Mecca) behind my companions (who are going with you to Medina)?" The Prophet said, "If you remain behind, any good deed which you will do for Allah's Sake, will upgrade and elevate you. May be you will live longer so that some people may benefit by you and some other (i.e. infidels) may get harmed by you." The Prophet then added, "O Allah! Complete the Migration of my companions and do not turn them on their heels. But the poor Sad bin Khaula (not the above mentioned Sad) (died in Mecca)." Allah's Apostle pitied Sad for he died in Mecca.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺمیری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیماری نے مجھے موت کے منہ میں ڈالا تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے، میرا مرض اس حد کو پہنچ گیا ہے اور میرے پاس مال ہے، جس کی وارث خالی میری ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کی: نصف کر دوں۔ فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کی:کیا پھر تہائی کر دوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا : تہائی تو بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود رہی تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا میں (مکہ میں ہی رہ جاؤں گا ) اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ (مدینہ )نہیں جاسکوں گا؟آپﷺنے فرمایا: تمہیں ہرگز پیچھے (مکہ میں ) نہیں چھوڑا جائے گا مگر تم اللہ کی خوشنودی کےلیے جو کام بھی کروگے تو تمہارا مقام اللہ کے ہاں بلند ہوگا ۔ امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہوگے اور تم سے کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور کچھ لوگ تمہاری وجہ سے نقصان اٹھائیں گے ۔ یا اللہ ! میرے ساتھیوں کی ہجرت پوری کردے اور انہیں ایڑیوں کے بل مت پھیر۔ لیکن نقصان میں تو سعد بن خولہ رہے ۔رسول اللہﷺاظہار افسوس کرتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں فوت ہوگئے تھے۔


حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَلَقَ رَأْسَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : The Prophet got his head shaved during Hajjat-ul-Wada.'

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ رسول اللہﷺنے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈوایا تھا۔


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَخْبَرَهُ ابْنُ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حَلَقَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَأُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ‏.‏

Narrated By Ibn Umar : During Hajjat-ul-Wada', the Prophet and some of his companions got their heads shaved while some of his companions got their head-hair cut short.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ نبی ﷺ اور آپﷺ کے کچھ ساتھیوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر سر منڈوائے تھے اور بعض صحابہ نے بال کٹوائےتھے۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏.‏ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، أَقْبَلَ يَسِيرُ عَلَى حِمَارٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَائِمٌ بِمِنًى فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَسَارَ الْحِمَارُ بَيْنَ يَدَىْ بَعْضِ الصَّفِّ، ثُمَّ نَزَلَ عَنْهُ، فَصَفَّ مَعَ النَّاسِ‏.‏

Narrated By 'Abdullah bin 'Abbas : That he came riding a donkey when Allah 's Apostle was standing at Mina during Hajjat-ul-Wada', leading the people in prayer. The donkey passed in front of a part of the row (of the people offering the prayer). Then he dismounted from it and took his position in the row with the people.

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے تو رسول اللہﷺ منیٰ میں کھڑے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔ ان کا گدھا صف کے کچھ حصے سے گزرا، پھر وہ اتر کر لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہو گئے۔


حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، سُئِلَ أُسَامَةُ وَأَنَا شَاهِدٌ، عَنْ سَيْرِ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّتِهِ‏.‏ فَقَالَ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ‏.‏

Narrated By Hisham's father : In my presence, Usama was asked about the speed of the Prophet during his Hajj. He replied, "It was Al-'Anaq (i.e. moderate easy speed) and if he encountered an open space, he used to increase his speed."

ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا : حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے حجۃ الوداع کے موقع پر نبیﷺ کی سواری کی رفتار کیسی تھی؟ تو انہوں نے کہا: درمیانی رفتار تھی اور جب کشادہ جگہ ملتی تو اس سے تیز چلاتے تھے۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا‏.‏

Narrated By 'Abdullah bin Yazid Al-Khatmi : That Abu Aiyub informed him that he offered the Maghrib and 'Isha prayers together with the Prophet during Hajjat-ul-Wada.

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مغرب اور عشاء کی نمازیں اکھٹی پڑھی تھیں۔

Chapter No: 79

باب غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْىَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ

The Ghazwa of Tabuk which is also called Ghazwa Al-Usrah (the battle of hardship).

باب: جنگ تبوک کا بیان ، جس کو غزوۂ عسرت بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَسْأَلُهُ الْحُمْلاَنَ لَهُمْ، إِذْ هُمْ مَعَهُ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ وَهْىَ غَزْوَةُ تَبُوكَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابِي أَرْسَلُونِي إِلَيْكَ لِتَحْمِلَهُمْ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ وَاللَّهِ لاَ أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَىْءٍ ‏"‏‏.‏ وَوَافَقْتُهُ، وَهْوَ غَضْبَانُ وَلاَ أَشْعُرُ، وَرَجَعْتُ حَزِينًا مِنْ مَنْعِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَجَدَ فِي نَفْسِهِ عَلَىَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الَّذِي قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، فَلَمْ أَلْبَثْ إِلاَّ سُوَيْعَةً إِذْ سَمِعْتُ بِلاَلاً يُنَادِي أَىْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ‏.‏ فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدْعُوكَ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، قَالَ ‏"‏ خُذْ هَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ ـ وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ ابْتَاعَهُنَّ حِينَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ ـ فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ فَقُلْ إِنَّ اللَّهَ ـ أَوْ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلاَءِ فَارْكَبُوهُنَّ ‏"‏‏.‏ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِمْ بِهِنَّ، فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلاَءِ وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَدَعُكُمْ حَتَّى يَنْطَلِقَ مَعِي بَعْضُكُمْ إِلَى مَنْ سَمِعَ مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لاَ تَظُنُّوا أَنِّي حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا لَمْ يَقُلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا لِي إِنَّكَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ‏.‏ فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى أَتَوُا الَّذِينَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَنْعَهُ إِيَّاهُمْ، ثُمَّ إِعْطَاءَهُمْ بَعْدُ، فَحَدَّثُوهُمْ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَهُمْ بِهِ أَبُو مُوسَى‏.‏

Narrated By Abu Musa : My Companions sent me to Allah's Apostle to ask him for some animals to ride on as they were accompanying him in the army of Al-Usra, and that was the Ghazwa (Battle) of Tabuk, I said, "O Allah's Prophet! My companions have sent me to you to provide them with means of transportation." He said, "By Allah! I will not make you ride anything." It happened that when I reached him, he was in an angry mood, and I didn't notice it. So I returned in a sad mood because of the refusal the Prophet and for the fear that the Prophet might have become 'angry with me. So I returned to my companions and informed them of what the Prophet had said. Only a short while had passed when I heard Bilal calling, "O 'Abdullah bin Qais!" I replied to his call. Bilal said, "Respond to Allah's Apostle who is calling you." When I went to him (i.e. the Prophet), he said, "Take these two camels tied together and also these two camels tied together,"' referring to six camels he had brought them from Sad at that time. The Prophet added, "Take them to your companions and say, 'Allah (or Allah's Apostle) allows you to ride on these,' so ride on them." So I took those camels to them and said, "The Prophet allows you to ride on these (camels) but by Allah, I will not leave you till some of you proceed with me to somebody who heard the statement of Allah's Apostle. Do not think that I narrate to you a thing which Allah's Apostle has not said." They said to me, "We consider you truthful, and we will do what you like." The sub-narrator added: So Abu Musa proceeded along with some of them till they came to those who have heard the statement of Allah's Apostle wherein he denied them (some animals to ride on) and (his statement) whereby he gave them the same. So these people told them the same information as Abu Musa had told them.

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ ﷺسے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپﷺ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کر سکا تھا۔ آپ ﷺکے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں نبی ﷺکے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس! (ابو موسی اشعری) میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا :رسول اللہ ﷺتمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے خریدےتھے اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپﷺ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺنے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہو جاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ نبی ﷺنے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے نبی ﷺکا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے نبی کریم ﷺکے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کر لیں گے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے جنہوں نے نبی ﷺکا وہ ارشاد سنا تھا کہ نبی ﷺنے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کی تھی۔


حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ، وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا فَقَالَ أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ ‏"‏ أَلاَ تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي ‏"‏‏.‏ وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ سَمِعْتُ مُصْعَبًا‏.‏

Narrated By Sad : Allah's Apostle set out for Tabuk. appointing 'Ali as his deputy (in Medina). 'Ali said, "Do you want to leave me with the children and women?" The Prophet said, "Will you not be pleased that you will be to me like Aaron to Moses? But there will be no prophet after me."

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺغزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبیﷺنے فرمایا :کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو "سمعت" لفظ کے ساتھ بیان کیا ۔


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَطَاءً، يُخْبِرُ قَالَ أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْعُسْرَةَ قَالَ كَانَ يَعْلَى يَقُولُ تِلْكَ الْغَزْوَةُ أَوْثَقُ أَعْمَالِي عِنْدِي‏.‏ قَالَ عَطَاءٌ فَقَالَ صَفْوَانُ قَالَ يَعْلَى فَكَانَ لِي أَجِيرٌ فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا يَدَ الآخَرِ، قَالَ عَطَاءٌ فَلَقَدْ أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ أَيُّهُمَا عَضَّ الآخَرَ فَنَسِيتُهُ، قَالَ فَانْتَزَعَ الْمَعْضُوضُ يَدَهُ مِنْ فِي الْعَاضِّ، فَانْتَزَعَ إِحْدَى ثَنِيَّتَيْهِ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ‏.‏ قَالَ عَطَاءٌ وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا، كَأَنَّهَا فِي فِي فَحْلٍ يَقْضَمُهَا ‏"‏‏.‏

Narrated By Safwan bin Yala bin Umaiya : That his father said, "I participated in Al-Usra (i.e. Tabuk) along with the Prophet." Yala added, "(My participation in) that Ghazwa was the best of my deeds to me." Ya'la said, "I had a labourer who quarrelled with somebody, and one of the two bit the hand of the other ('Ata', the sub-narrator, said, "Safwan told me who bit whom but I forgot it"), and the one who was bitten, pulled his hand out of the mouth of the biter, so one of the incisors of the biter was broken. So we came to the Prophet and he considered the biter's claim as invalid (i.e. the biter did not get a recompense for his broken incisor). The Prophet said, "Should he leave his hand in your mouth so that you might snap it as if it were in the mouth of a male camel to snap it?"

حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا : میں نبیﷺکے ساتھ غزوۂ عسرت (غزوۂ تبوک ) میں شریک تھا۔ حضرت یعلیٰ فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک یہ غزوۂ میرا انتہائی قابل وثوق عمل ہے ۔ میرا ایک مزدور تھا وہ ایک دوسرے شخص سے لڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چباڈالا ۔راوی حدیث حضرت عطاء نے کہا: مجھے صفوان بن یعلیٰ نے بتایا تھا کہ کس نے دوسرے کا ہاتھ چبایا مگر یہ میں بھول گیا ہوں ۔ انہوں نے کہا: جس کا ہاتھ چبایا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ چبانے والے کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک دانت نکل گیا۔وہ دونوں نبیﷺکے پاس آئے تو آپ ﷺنے اس کے دانت کو ضائع قرار دیا۔ حضرت عطاء نے کہا: میرا خیال ہے کہ حضرت صفوان بن یعلیٰ نے کہا تھا: نبی ﷺنے فرمایا: کیا وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں چھوڑے رکھتا جسے تو چباتا رہتا گویا وہ اونٹ کے منہ میں ہے جسے وہ چباتا ہے ؟

Chapter No: 80

باب حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ

The narration of Kaab bin Malik.

باب: کعب بن مالک کا قِصّہ۔(جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے)

وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا‏}‏

And the Statement of Allah, "And (He did forgive also) the three [who did not join the Tabuk expedition and whose case was deferred (by the Prophet (s.a.w)) for Allah's Decision] ..." (V.9:118)

اور (سورۂ براۃ میں) اللہ تعالٰی کا فرمانا وَعَلیَ الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ـ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ ـ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ، تَبُوكَ قَالَ كَعْبٌ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلاَّ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ، عَنْهَا إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلاَمِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا، كَانَ مِنْ خَبَرِي أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلاَ أَيْسَرَ حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، وَاللَّهِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِي قَبْلَهُ رَاحِلَتَانِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرِيدُ غَزْوَةً إِلاَّ وَرَّى بِغَيْرِهَا، حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ، غَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا وَعَدُوًّا كَثِيرًا، فَجَلَّى لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ، وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَثِيرٌ، وَلاَ يَجْمَعُهُمْ كِتَابٌ حَافِظٌ ـ يُرِيدُ الدِّيوَانَ ـ قَالَ كَعْبٌ فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلاَّ ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْىُ اللَّهِ، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلاَلُ، وَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ، فَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَىْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَيْهِ‏.‏ فَلَمْ يَزَلْ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اشْتَدَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا، فَقُلْتُ أَتَجَهَّزُ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُوا لأَتَجَهَّزَ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، ثُمَّ غَدَوْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَلَمْ يَزَلْ بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ، وَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ، وَلَيْتَنِي فَعَلْتُ، فَلَمْ يُقَدَّرْ لِي ذَلِكَ، فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَطُفْتُ فِيهِمْ، أَحْزَنَنِي أَنِّي لاَ أَرَى إِلاَّ رَجُلاً مَغْمُوصًا عَلَيْهِ النِّفَاقُ أَوْ رَجُلاً مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ، فَقَالَ وَهْوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ ‏"‏ مَا فَعَلَ كَعْبٌ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَنَظَرُهُ فِي عِطْفِهِ‏.‏ فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِئْسَ مَا قُلْتَ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا‏.‏ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّهُ تَوَجَّهَ قَافِلاً حَضَرَنِي هَمِّي، وَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَاسْتَعَنْتُ عَلَى ذَلِكَ بِكُلِّ ذِي رَأْىٍ مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ، وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَخْرُجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَىْءٍ فِيهِ كَذِبٌ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ، وَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَيَرْكَعُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ، وَيَحْلِفُونَ لَهُ، وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلاً فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلاَنِيَتَهُمْ، وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ، وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ، فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ ‏"‏ تَعَالَ ‏"‏‏.‏ فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي ‏"‏ مَا خَلَّفَكَ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ بَلَى، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، لَرَأَيْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلاً، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَىَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَىَّ فِيهِ إِنِّي لأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ، لاَ وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي مِنْ عُذْرٍ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلاَ أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ ‏"‏‏.‏ فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لاَ تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِمَا اعْتَذَرَ إِلَيْهِ الْمُتَخَلِّفُونَ، قَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَكَ، فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأُكَذِّبُ نَفْسِي، ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي أَحَدٌ قَالُوا نَعَمْ، رَجُلاَنِ قَالاَ مِثْلَ مَا قُلْتَ، فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ‏.‏ فَقُلْتُ مَنْ هُمَا قَالُوا مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيُّ وَهِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ‏.‏ فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا إِسْوَةٌ، فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي، وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلاَمِنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَتَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ فِي نَفْسِي الأَرْضُ، فَمَا هِيَ الَّتِي أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَاىَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلاَةَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ وَأَطُوفُ فِي الأَسْوَاقِ، وَلاَ يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهْوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلاَمِ عَلَىَّ أَمْ لاَ ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ فَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلاَتِي أَقْبَلَ إِلَىَّ، وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَىَّ ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهْوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَىَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَىَّ السَّلاَمَ، فَقُلْتُ يَا أَبَا قَتَادَةَ، أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُنِي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَسَكَتَ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ فَسَكَتَ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ‏.‏ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‏.‏ فَفَاضَتْ عَيْنَاىَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ، قَالَ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي بِسُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّأْمِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ يَقُولُ مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ، حَتَّى إِذَا جَاءَنِي دَفَعَ إِلَىَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ، فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ، وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلاَ مَضْيَعَةٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ‏.‏ فَقُلْتُ لَمَّا قَرَأْتُهَا وَهَذَا أَيْضًا مِنَ الْبَلاَءِ‏.‏ فَتَيَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا، حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً مِنَ الْخَمْسِينَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْتِينِي فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ فَقُلْتُ أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ قَالَ لاَ بَلِ اعْتَزِلْهَا وَلاَ تَقْرَبْهَا‏.‏ وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَىَّ مِثْلَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِي الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَتَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الأَمْرِ‏.‏ قَالَ كَعْبٌ فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ قَالَ ‏"‏ لاَ وَلَكِنْ لاَ يَقْرَبْكِ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَىْءٍ، وَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا‏.‏ فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لاِمْرَأَةِ هِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لاَ أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَا يُدْرِينِي مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ كَلاَمِنَا، فَلَمَّا صَلَّيْتُ صَلاَةَ الْفَجْرِ صُبْحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ، قَدْ ضَاقَتْ عَلَىَّ نَفْسِي، وَضَاقَتْ عَلَىَّ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَى عَلَى جَبَلِ سَلْعٍ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ، أَبْشِرْ‏.‏ قَالَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ، وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلاَةَ الْفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا، وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَىَّ مُبَشِّرُونَ، وَرَكَضَ إِلَىَّ رَجُلٌ فَرَسًا، وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ فَأَوْفَى عَلَى الْجَبَلِ وَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَىَّ، فَكَسَوْتُهُ إِيَّاهُمَا بِبُشْرَاهُ، وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ، وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنُّونِي بِالتَّوْبَةِ، يَقُولُونَ لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ‏.‏ قَالَ كَعْبٌ حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ فَقَامَ إِلَىَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّانِي، وَاللَّهِ مَا قَامَ إِلَىَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ، وَلاَ أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ، قَالَ كَعْبٌ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ ‏"‏ أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ ‏"‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ قَالَ ‏"‏ لاَ، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ، فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِ اللَّهِ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا نَجَّانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لاَ أُحَدِّثَ إِلاَّ صِدْقًا مَا بَقِيتُ، فَوَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلاَهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلاَنِي، مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا، وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيتُ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم ‏{‏لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ‏}‏ فَوَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ أَنْ هَدَانِي لِلإِسْلاَمِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ لاَ أَكُونَ كَذَبْتُهُ، فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا، فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْىَ شَرَّ مَا قَالَ لأَحَدٍ، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ‏{‏سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ‏}‏‏.‏ قَالَ كَعْبٌ وَكُنَّا تَخَلَّفْنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ حَلَفُوا لَهُ، فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّهُ فِيهِ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ ‏{‏وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا‏}‏ وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا عَنِ الْغَزْوِ إِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ، فَقَبِلَ مِنْهُ‏.

Narrated By Abdullah bin Kab bin Malik : Who, from among Kab's sons, was the guide of Kab when he became blind: I heard Kab bin Malik narrating the story of (the Ghazwa of) Tabuk in which he failed to take part. Kab said, "I did not remain behind Allah's Apostle in any Ghazwa that he fought except the Ghazwa of Tabuk, and I failed to take part in the Ghazwa of Badr, but Allah did not admonish anyone who had not participated in it, for in fact, Allah's Apostle had gone out in search of the caravan of Quraish till Allah made them (i.e. the Muslims) and their enemy meet without any appointment. I witnessed the night of Al-'Aqaba (pledge) with Allah's Apostle when we pledged for Islam, and I would not exchange it for the Badr battle although the Badr battle is more popular amongst the people than it (i.e. Al-'Aqaba pledge). As for my news (in this battle of Tabuk), I had never been stronger or wealthier than I was when I remained behind the Prophet in that Ghazwa. By Allah, never had I two she-camels before, but I had then at the time of this Ghazwa. Whenever Allah's Apostle wanted to make a Ghazwa, he used to hide his intention by apparently referring to different Ghazwa till it was the time of that Ghazwa (of Tabuk) which Allah's Apostle fought in severe heat, facing, a long journey, desert, and the great number of enemy. So the Prophet announced to the Muslims clearly (their destination) so that they might get prepared for their Ghazwa. So he informed them clearly of the destination he was going to. Allah's Apostle was accompanied by a large number of Muslims who could not be listed in a book namely, a register." Ka'b added, "Any man who intended to be absent would think that the matter would remain hidden unless Allah revealed it through Divine Revelation. So Allah's Apostle fought that Ghazwa at the time when the fruits had ripened and the shade looked pleasant. Allah's Apostle and his companions prepared for the battle and I started to go out in order to get myself ready along with them, but I returned without doing anything. I would say to myself, 'I can do that.' So I kept on delaying it every now and then till the people got ready and Allah's Apostle and the Muslims along with him departed, and I had not prepared anything for my departure, and I said, I will prepare myself (for departure) one or two days after him, and then join them.' In the morning following their departure, I went out to get myself ready but returned having done nothing. Then again in the next morning, I went out to get ready but returned without doing anything. Such was the case with me till they hurried away and the battle was missed (by me). Even then I intended to depart to take them over. I wish I had done so! But it was not in my luck. So, after the departure of Allah's Apostle, whenever I went out and walked amongst the people (i.e, the remaining persons), it grieved me that I could see none around me, but one accused of hypocrisy or one of those weak men whom Allah had excused. Allah's Apostle did not remember me till he reached Tabuk. So while he was sitting amongst the people in Tabuk, he said, 'What did Ka'b do?' A man from Banu Salama said, 'O Allah's Apostle! He has been stopped by his two Burdas (i.e. garments) and his looking at his own flanks with pride.' Then Mu'adh bin Jabal said, 'What a bad thing you have said! By Allah! O Allahs Apostle! We know nothing about him but good.' Allah's Apostle kept silent." Ka'b bin Malik added, "When I heard that he (i.e. the Prophet) was on his way back to Medina. I got dipped in my concern, and began to think of false excuses, saying to myself, 'How can I avoid his anger tomorrow?' And I took the advice of wise member of my family in this matter. When it was said that Allah's Apostle, had come near all the evil false excuses abandoned from my mind and I knew well that I could never come out of this problem by forging a false statement. Then I decided firmly to speak the truth. So Allah's Apostle arrived in the morning, and whenever he returned from a journey., he used to visit the Mosque first of all and offer a two-Rak'at prayer therein and then sit for the people. So when he had done all that (this time), those who had failed to join the battle (of Tabuk) came and started offering (false) excuses and taking oaths before him. They were something over eighty men; Allah's Apostle accepted the excuses they had expressed, took their pledge of allegiance asked for Allah's Forgiveness for them, and left the secrets of their hearts for Allah to judge. Then I came to him, and when I greeted him, he smiled a smile of an angry person and then said, 'Come on.' So I came walking till I sat before him. He said to me, 'What stopped you from joining us. Had you not purchased an animal For carrying you?' I answered, "Yes, O Allah's Apostle! But by Allah, if I were sitting before any person from among the people of the world other than you, I would have avoided his anger with an excuse. By Allah, I have been bestowed with the power of speaking fluently and eloquently, but by Allah, I knew well that if today I tell you a lie to seek your favour, Allah would surely make you angry with me in the near future, but if I tell you the truth, though you will get angry because of it, I hope for Allah's Forgiveness. Really, by Allah, there was no excuse for me. By Allah, I had never been stronger or wealthier than I was when I remained behind you.' Then Allah's Apostle said, 'As regards this man, he has surely told the truth. So get up till Allah decides your case.' I got up, and many men of Banu Salama followed me and said to me. 'By Allah, we never witnessed you doing any sin before this. Surely, you failed to offer excuse to Allah's Apostle as the others who did not join him, have offered. The prayer of Allah's Apostle to Allah to forgive you would have been sufficient for you.' By Allah, they continued blaming me so much that I intended to return (to the Prophet) and accuse myself of having told a lie, but I said to them, 'Is there anybody else who has met the same fate as I have?' They replied, 'Yes, there are two men who have said the same thing as you have, and to both of them was given the same order as given to you.' I said, 'Who are they?' They replied, Murara bin Ar-Rabi Al-Amri and Hilal bin Umaiya Al-Waqifi.' By that they mentioned to me two pious men who had attended the Ghazwa (Battle) of Badr, and in whom there was an example for me. So I did not change my mind when they mentioned them to me. Allah's Apostle forbade all the Muslims to talk to us, the three aforesaid persons out of all those who had remained behind in that Ghazwa. So we kept away from the people and they changed their attitude towards us till the very land (where I lived) appeared strange to me as if I did not know it. We remained in that condition for fifty nights. As regards my two fellows, they remained in their houses and kept on weeping, but I was the youngest of them and the firmest of them, so I used to go out and witness the prayers along with the Muslims and roam about in the markets, but none would talk to me, and I would come to Allah's Apostle and greet him while he was sitting In his gathering after the prayer, and I would wonder whether the Prophet did move his lips in return to my greetings or not. Then I would offer my prayer near to him and look at him stealthily. When I was busy with my prayer, he would turn his face towards me, but when I turned my face to him, he would turn his face away from me. When this harsh attitude of the people lasted long, I walked till I scaled the wall of the garden of Abu Qatada who was my cousin and dearest person to me, and I offered my greetings to him. By Allah, he did not return my greetings. I said, 'O Abu Qatada! I beseech you by Allah! Do you know that I love Allah and His Apostle?' He kept quiet. I asked him again, beseeching him by Allah, but he remained silent. Then I asked him again in the Name of Allah. He said, "Allah and His Apostle know it better.' Thereupon my eyes flowed with tears and I returned and jumped over the wall." Ka'b added, "While I was walking in the market of Medina, suddenly I saw a Nabati (i.e. a Christian farmer) from the Nabatis of Sham who came to sell his grains in Medina, saying, 'Who will lead me to Kab bin Malik?' The people began to point (me) out for him till he came to me and handed me a letter from the king of Ghassan in which the following was written: "To proceed, I have been informed that your friend (i.e. the Prophet) has treated you harshly. Anyhow, Allah does not let you live at a place where you feel inferior and your right is lost. So join us, and we will console you." When I read it, I said to myself, 'This is also a sort of a test.' Then I took the letter to the oven and made a fire therein by burning it. When forty out of the fifty nights elapsed, behold ! There came to me the messenger of Allah's Apostle and said, 'Allah's Apostle orders you to keep away from your wife,' I said, 'Should I divorce her; or else! what should I do?' He said, 'No, only keep aloof from her and do not cohabit her.' The Prophet sent the same message to my two fellows. Then I said to my wife. 'Go to your parents and remain with them till Allah gives His Verdict in this matter." Kab added, "The wife of Hilal bin Umaiya came to Apostle and said, 'O Allah's Apostle! Hilal bin Umaiya is a helpless old man who has no servant to attend on him. Do you dislike that I should serve him? ' He said, 'No (you can serve him) but he should not come near you.' She said, 'By Allah, he has no desire for anything. By, Allah, he has never ceased weeping till his case began till this day of his.' On that, some of my family members said to me, 'Will you also ask Allah's Apostle to permit your wife (to serve you) as he has permitted the wife of Hilal bin Umaiya to serve him?' I said, 'By Allah, I will not ask the permission of Allah's Apostle regarding her, for I do not know What Allah's Apostle would say if I asked him to permit her (to serve me) while I am a young man.' Then I remained in that state for ten more nights after that till the period of fifty nights was completed starting from the time when Allah's Apostle prohibited the people from talking to us. When I had offered the Fajr prayer on the 50th morning on the roof of one of our houses and while I was sitting in the condition which Allah described (in the Qur'an) i.e. my very soul seemed straitened to me and even the earth seemed narrow to me for all its spaciousness, there I heard the voice of one who had ascended the mountain of Sala' calling with his loudest voice, 'O Kab bin Malik! Be happy (by receiving good tidings).' I fell down in prostration before Allah, realizing that relief has come. Allah's Apostle had announced the acceptance of our repentance by Allah when he had offered the Fajr prayer. The people then went out to congratulate us. Some bringers of good tidings went out to my two fellows, and a horseman came to me in haste, and a man of Banu Aslam came running and ascended the mountain and his voice was swifter than the horse. When he (i.e. the man) whose voice I had heard, came to me conveying the good tidings, I took off my garments and dressed him with them; and by Allah, I owned no other garments than them on that day. Then I borrowed two garments and wore them and went to Allah's Apostle. The people started receiving me in batches, congratulating me on Allah's Acceptance of my repentance, saying, 'We congratulate you on Allah's Acceptance of your repentance." Kab further said, "When I entered the Mosque. I saw Allah's Apostle sitting with the people around him. Talha bin Ubaidullah swiftly came to me, shook hands with me and congratulated me. By Allah, none of the Muhajirin (i.e. Emigrants) got up for me except him (i.e. Talha), and I will never forget this for Talha." Kab added, "When I greeted Allah's Apostle he, his face being bright with joy, said "Be happy with the best day that you have got ever since your mother delivered you." Kab added, "I said to the Prophet 'Is this forgiveness from you or from Allah?' He said, 'No, it is from Allah.' Whenever Allah's Apostle became happy, his face would shine as if it were a piece of moon, and we all knew that characteristic of him. When I sat before him, I said, 'O Allah's Apostle! Because of the acceptance of my repentance I will give up all my wealth as alms for the Sake of Allah and His Apostle. Allah's Apostle said, 'Keep some of your wealth, as it will be better for you.' I said, 'So I will keep my share from Khaibar with me,' and added, 'O Allah's Apostle! Allah has saved me for telling the truth; so it is a part of my repentance not to tell but the truth as long as I am alive. By Allah, I do not know anyone of the Muslims whom Allah has helped foretelling the truth more than me. Since I have mentioned that truth to Allah's Apostle till today, I have never intended to tell a lie. I hope that Allah will also save me (from telling lies) the rest of my life. So Allah revealed to His Apostle the Verse: "Verily, Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin (i.e. Emigrants (up to His Saying) And be with those who are true (in word and deed)." (9.117-119) By Allah, Allah has never bestowed upon me, apart from His guiding me to Islam, a Greater blessing than the fact that I did not tell a lie to Allah's Apostle which would have caused me to perish as those who have told a lie perished, for Allah described those who told lies with the worst description He ever attributed to anybody else. Allah said: "They (i.e. the hypocrites) will swear by Allah to you when you return to them (up to His Saying) Certainly Allah is not pleased with the rebellious people..." (9.95-96) Kab added, "We, the three persons, differed altogether from those whose excuses Allah's Apostle accepted when they swore to him. He took their pledge of allegiance and asked Allah to forgive them, but Allah's Apostle left our case pending till Allah gave His Judgment about it. As for that Allah said): And to the three (He did for give also) who remained behind." (9.118) What Allah said (in this Verse) does not indicate our failure to take part in the Ghazwa, but it refers to the deferment of making a decision by the Prophet about our case in contrast to the case of those who had taken an oath before him and he excused them by accepting their excuses.

حضرت عبد اللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہوگئےتو ان کے بیٹوں میں سے حضرت عبد اللہ ہی انہیں جدھر انہوں نے آنا جانا ہوتا لے جاتے ۔ انہوں نے کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کا واقعہ سنا ، غزوات کیے ہیں میں ان میں سے کسی غزوے میں بھی آپﷺسے پیچھے نہیں رہا۔میں صرف غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ گیا تھا ۔ البتہ میں غزوۂ بدر میں بھی شریک نہیں تھا لیکن جنگ بدر سے پیچھے رہ جانے پر اللہ تعالیٰ نے کسی پر عتاب نہیں فرمایا کیونکہ رسول اللہﷺقریش کے ایک قافلے کا ارادہ کرکے باہر نکلےتھے لیکن اللہ تعالیٰ نے وقت طے کیے بغیر مسلمانوں کا سامنا دشمن سے کرادیا۔ میں تو عقبہ کی رات بھی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تھا جہاں میں نے اسلام پر قائم رہنے کا مضبوط قول و قرار کیا تھا۔ اگرچہ لوگوں میں غزوۂ بدر کی شہرت زیادہ ہے لیکن میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ مجھے بیعت عقبہ کے بدلے میں غزوۂ بدر میں شرکت کا موقع ملا ہوتا ۔ اور میرا قصہ یہ ہے کہ میں جس زمانے میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہا ، اتنا طاقتور اور خوشحال تھا کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا ۔ اللہ کی قسم ! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹیاں کبھی جمع نہیں ہوئی تھیں جبکہ اس موقع پر میرے پاس دو اونٹنیاں موجود تھیں ۔ رسول اللہ ﷺکا یہ قاعدہ تھا کہ جب کسی غزوے میں جانے کا ارادہ کرتے تو اس کو مکمل طور پر ظاہر نہ کرتے بلکہ کسی اور مقام کا نام لیا کرتےتھے۔ لیکن یہ غزوۂ چونکہ سخت گرمی میں ہوا اور طویل بیابان کا سفر تھا اور دشمن زیادہ تعداد میں تھے ، اس لیے آپ ﷺنے مسلمانوں سے یہ معاملہ صاف صاف بیان کردیا تاکہ وہ اس جنگ کےلیے اچھی طرح تیار ہوجائیں او رانہیں وہ سمت بھی بتلادی جس سمت آپ جانا چاہتے تھے ۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ مسلمان کثیر تعداد میں تھے اور کوئی رجسٹر یا دفتر وغیرہ نہ تھا جس میں ان کے نام محفوظ ہوتے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صورت حال ایسی تھی کہ جو شخص لشکر میں سے غائب ہونا چاہتا وہ یہ سوچ سکتا تھا کہ اگر بذریعہ وحی آپﷺکو اطلاع نہ دی گئی تو میری غیر حاضری کا کسی کو پتہ نہ چل سکے گا۔ اور سول اللہ ﷺنےاس جنگ کا ارادہ ایسے وقت میں کیا تھا جب پھل پک چکے تھے اور ہر طرف سایہ عام تھا ۔ خیر رسول اللہ ﷺنے اور آپﷺکے ساتھ دیگر مسلمانوں نے بھی سفر کا سامان تیار کرنا شروع کیا ۔ میری کیفیت یہ تھی کہ میں صبح اس ارادے سے نکلتا کہ میں بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر تیاری کروں گا لیکن جب شام کو واپس آتا تو کوئی فیصلہ نہ کرسکا ہوتا ۔ پھر میں اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ میں تیاری مکمل کرنے پر پوری طرح قادر ہوں۔اسی طرح وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ لوگوں نے زور شور سے تیاری کرلی۔ پھر رسول اللہﷺاور آپﷺکے ساتھ مسلمان روانہ ہوگئے جبکہ میں اپنی تیاری کے سلسلے میں کچھ بھی نہ کرسکا ۔ پھر میں نے اپنے دل میں یہ کہا : کہ میں آپ کی روانگی کے ایک یا دو دن بعد تیاری مکمل کرلوں گا اور ان سے جاملوں گا ۔ لیکن ان کے روانہ ہوجانے کے بعد بھی یہی کیفیت رہی کہ صبح کے وقت تیاری کے خیال سے نکلا لیکن جب گھر لوٹا تو وہی کیفیت تھی، یعنی کچھ بھی نہ کرسکا۔ پھر دوسری صبح کو بھی اسی خیال سے نکلا لیکن جب واپس آیا تو کچھ نہ کرپایا۔ میری کیفیت مسلسل یہی رہی یہاں تک کہ مسلمان تیز تیز چل کر آگے بڑھ گئے ۔ میں نے پھر ارادہ کیا کہ میں بھی چل پڑوں اور ان سے جاملوں ، کاش کہ میں نے ایسا کرلیا ہوتا لیکن یہ سعادت میرے مقدر ہی میں نہ تھی۔رسول اللہﷺکے جانے کے بعد حالت یہ تھی کہ جب میں باہر لوگوں کے پاس جاتا اور ان میں چل پھر کر دیکھتا تو جو بات مجھے غمگین کرتی یہ تھی کہ جو شخص نظر آتا وہ صرف ایسا ہوتا جس پر نفاق کا الزام تھا ، یا پھر وہ ضعیف اور کمزور لوگ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا تھا۔ ادھر رسول اللہ ﷺنے راستے میں تو مجھے کہیں بھی یاد نہ فرمایا۔ مگر جب تبوک پہنچ گئے اور ایک موقع پر لوگوں کے ساتھ تشریف فرما تھے تو آپﷺنے فرمایا: کعب نے کیا کیا ہے ؟ بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!اسے صحت و خوشحالی کی دو چادروں نے روک رکھا ہے اور وہ اپنی ان چادروں کے کناروں کو دیکھنے میں مشغول ہوگا۔یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اسے کہا: تم نے بہت بری بات کہی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم ! ہم نے کعب میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔ یہ گفتگو سن کر رسول اللہﷺخاموش ہوگئے ۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ آپ واپس آرہے ہیں تو خیال ہوا کہ کوئی حیلہ سوچنا چاہیے تاکہ آپ کی ناراضگی سے بچ جاؤں ۔ نیز میں نے اس سلسلے میں اپنے خاندان کے ہر صاحب عقل آدمی سے مدد مانگی ۔ پھر جب یہ اطلاع ملی کہ رسول اللہﷺ(مدینہ کے ) قریب آگئے ہیں تو یہ خیال باطل میرے قلب سے نکل گیا اور میں نے یقین کرلیا کہ جھوٹ بول کر آپ کی ناراضی سے نہیں بچ سکوں گا۔ اس لیے میں نے سچ بولنے کا ارادہ کرلیا۔ رسول اللہﷺصبح کے وقت تشریف لائے اور آپ کا معمول تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملاقات کےلیے تشریف فرما ہوتے ، چنانچہ جب آپ نماز سے فراغت کے بعد ملاقات کےلیے بیٹھے تو پیچھے رہ جانے والوں نے آنا شروع کیا اور قسمیں اٹھا اٹھا کر آپ کے سامنے مختلف قسم کے عذر پیش کرنے لگے۔ ان لوگوں کی تعداد 80 سے کچھ زیادہ تھی۔رسول اللہ ﷺنے ان کے بیان کردہ عذر قبول کرلیے ۔ ان سے بیعت لی او ران کےلیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کی نیتوں کو اللہ کے حوالے کردیا۔ الغرض میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ مسکرائے لیکن ایسی مسکراہٹ جس میں غصے کی آمیزش تھی۔پھر آپ ﷺنے فرمایا: ادھر آؤ۔ میں آگے بڑھا اور آپ کے سامنے جاکر بیٹھ گیا ۔ آپ نے دریافت فرمایا: تم کیوں پیچھے رہ گئے ؟ تم نے تو سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کی : جی ہاں خریدی تھی۔ اللہ کی قسم! میں اگر آپ کے علاوہ کسی اور دنیاوی شخصیت کے سامنے ہوتا تو ضرور یہ خیال کرتا کہ میں کسی عذر بہانے سے اس کے غضب سے نجات پاسکتا ہوں کیونکہ میں قوت گویائی اور دلیل بازی میں باہر ہوں۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سامنے جھوٹ بول کر آپ کو راضی بھی کرلوں تو عنقریب اللہ آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کر دے گا اور آپ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے ۔ اور اگر میں آپ سے ساری بات سچ سچ بیان کردوں تو آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے ، تاہم مجھے امید ہے کہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمادے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی قسم!میں اتنا تنومند اور خوشحال کبھی نہ تھا جتنا میں اس موقع پر تھا جس میں آپ کے ساتھ جانے سے رہ گیا ۔ میری یہ گفتگو سن کر رسول اللہﷺنے فرمایا: یہ شخص ہے جس نے صحیح بات بتائی ہے ۔ اچھا جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ صادر فرمائے۔ میں اٹھ گیا اور جب میں جانے لگا تو بنو سلمہ کے کچھ لوگ میرے گرد جمع ہوگئے اور میرے پیچھے چلنے لگے ۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارے علم میں نہیں ہے کہ تم نے آج سے پہلے کبھی کوئی گناہ کیا ہو تو تم رسول اللہﷺکی خدمت میں عذر پیش کرنے سے کیوں قاصر رہے جیسا کہ دوسرے پیچھے رہ جانے والوں نے آپ کی خدمت میں عذر پیش کیے ہیں ۔ تم نے جو گناہ کیا تھا ، اس کی تلافی کےلیے تو رسول اللہﷺکا تمہارے لیے استغفار ہی کافی تھا ۔ اللہ کی قسم! ان لوگوں نے مجھے اتنی ملامت کی کہ ایک دفعہ تو میں نے ارادہ کرلیا کہ میں واپس جاؤں اور جو کچھ میں نے آپ سے کہا تھا ، اس کے متعلق کہوں کہ وہ جھوٹ تھا۔پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا یہ معاملہ جو میرے ساتھ پیش آیا ہے میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی ہوا ہے ؟ وہ کہنے لگے : ہاں دو اور آدمیوں نے بھی وہی کچھ کہا ہے جو تم نے کہا ہے اور ان کو بھی وہی جواب ملا جو آپ کو ملا ہے ۔ میں نے پوچھا : وہ دونوں کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ ایک حضرت مرارہ بن ربیع العمری اور دوسرے حضرت ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے میرے سامنے دو ایسے نیک آدمیوں کے نام لیے جو غزوۂ بدر میں شرکت کرچکے تھے اور ان کا طرز عمل میرے لیے قابل تقلید تھا، چنانچہ ان دونوں کا ذکر سن کر میں (نے اپنا ارادہ بدل دیا اور ) آگے چل پڑا۔ اور رسول اللہ ﷺنے باقی تمام پیچھے رہ جانے والوں میں سے صرف ہم تینوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے لوگوں کو منع فرما دیا تھا ، لہذا لوگ ہم سے دور دور رہنے لگے اور ہمارے لیے اس حد تک بدل گئے کہ میں محسوس کرنے لگا کہ کوئی اجنبی سرزمین ہے ۔ ہم پچاس دن تک اسی حال میں رہے۔دوسرے دونوں ساتھی تو تھک ہار کر گھر میں بیٹھ گئے اور روتے رہے لیکن میں چونکہ سب میں جوان اور طاقتور تھا ، لہذا باہر نکلا کرتا تھا۔مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوا کرتا اور بازاروں میں پھرا کرتا تھا لیکن مجھ سے کوئی شخص بات نہ کرتا۔ میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں بھی اس وقت حاضر ہوتا جب آپ نماز کے بعد لوگوں کے ساتھ تشریف فرما ہوتے ۔ میں جب آپﷺکو سلام کرتا تو اپنے دل میں یہی سوچتا رہتا کہ آیا میرے سلام کے جواب میں رسول اللہﷺکے لب مبارک متحرک ہوئے تھے یا نہیں ؟ پھر میں آپﷺکے قریب ہی نماز پڑھتا اور دز دیدہ نظروں سے آپ کی طرف دیکھتا ۔ جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف توجہ کرتا تو آپ دوسری طرف دیکھنے لگتے۔ جب لوگوں کی یہ بے اعتنائی بہت طویل اور ناقابل برداشت ہوگئی تو ایک دن میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پھلانگ کر اندر چلا گیا۔ یہ صاحب میرے چچا زاد بھائی اور میرے محبوب ترین دوست تھے ۔ میں نے انہیں سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انہوں نے میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ میں نے ان سے کہا: اے ابو قتادہ ! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺکا دوست جانتے ہو؟ لیکن وہ خاموش رہے ۔ میں نے ان سے دوبارہ یہی سوال کیا لیکن وہ پھر خاموش رہے ۔ میں نے پھر یہی بات دہرائی تو کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول ﷺہی بہتر جانتے ہیں ۔ یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں منہ موڑ کر واپس چلا آیا اور دیوار پھلانگ کر باہر آگیا۔حضرت کعب کا بیان ہے کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار سے گزرہا تھا ۔ میں نےدیکھا کہ علاقہ شام کا ایک نبطی جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے آیا تھا لوگوں سے پوچھ رہا ہے : کوئی شخص ہے جو مجھے کعب بن مالک کا بتا سکے؟ لوگ میری طرف اشارہ کرکے اسے بتانے لگے ۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس میں یہ لکھا ہوا تھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر زیادتی کی ہے ، حالانکہ تمہیں اللہ نے اس لیے نہیں بنایا کہ تم ذلیل و خوار اور برباد رہو، لہذا تم ہمارے پاس چلے آؤ ہم تمہیں شایان شان عزت و مرتبہ دیں گے ۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو دل میں کہا : یہ بھی ایک امتحان ہے اور وہ خط لے کر تنور کی طرف گیا اور اسے نذر آتش کردیا۔ پھر جب پچاس دنوں میں سے چالیس راتیں گزر گئیں تو میرے پاس رسول اللہﷺکا ایک قاصد آیا اور کہنے لگا : رسول اللہ ﷺنے تمہیں حکم دیا کہ تم اپنی رفیقہ حیات سے کنارہ کش ہوجاؤ۔ میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں ؟ یا پھر کیا کروں ؟ اس نے کہا: بس اس سے کنارہ کش ہوجاؤ اس کے قریب نہ جاؤ ۔ میرے دونوں ساتھیوں کو بھی اسی قسم کا حکم دیا گیا تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے میکے چلی جاؤ اور جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملے کا فیصلہ صادر نہ فرمادے وہیں مقیم رہو۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:اللہ کے رسول ! ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ ایک ناتواں اور بوڑھا شخص ہے ، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ یہ بھی ناپسند فرمائیں گے کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں ؟ آپﷺنے فرمایا: نہیں ، لیکن وہ تمہارے قریب نہ آئے ۔ اس نے کہا: قسم اللہ کی ! انہیں تو کسی بات کا ہوش ہی نہیں اور جس دن سے یہ معاملہ پیش آیا ہے وہ مسلسل رو رہے ہیں ۔ یہ سن کر میرے بعض اہل خانہ نے مشورہ دیا کہ اگر تم بھی رسول اللہﷺسے اپنی بیوی کے سلسلے میں اجازت لے لو تو کیا حرج ہے جیسے آپ نے حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو خدمت کرنے کی اجازت دے دی ہے ؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! میں اس سلسلے میں رسول اللہﷺسے اجازت ہرگز نہیں طلب کروں گا۔نامعلوم میرے اجازت طلب کرنے پر آپ کیا جواب دیں جبکہ میں ایک نوجوان آدمی ہوں۔ الغرض اس کے بعد دس دن اور گزر گئے یہاں تک کہ جس دن سے رسول اللہﷺنے لوگوں کو ہمارے ساتھ بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا تھا اس دن سے پچاس دن پورے ہوگئے ۔ پچاسویں رات کی صبح کو میں اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز فجر سے فراغت کے بعد بیٹھا ہوا تھا اور میری حالت بعینہ وہی تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے کہ میں اپنی جان سے تنگ تھا ، اور زمین اپنی فراخی کے باوجود میرے لیے جان سے تنگ تھا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود میرے لیے تنگ ہوچکی تھی کہ اچانک میں نے کسی پکارنے والے کی آواز سنی جو کوہ سلع پر چڑھ کر اپنی بلند ترین آواز میں پکار رہا تھا : اے کعب بن مالک! خوش ہوجاؤ۔میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور سمجھ گیا کہ آزمائش کا وقت ختم ہوگیا ہے دراصل رسول اللہﷺنے نماز فجر کے بعد اعلان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی ہے ، لہذا لوگ ہمیں خوشخبری دینے کےلیے دوڑ پڑے ۔ کچھ لوگ خوشخبری دینے کےلیے میرے دوسرے دونوں ساتھیوں کی طرف گئے اور ایک شخص گھوڑا دوڑا کر میری طرف چلا اور ایک دوڑنے والا جو قبیلہ اسلم کا فرد تھا دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس کی آواز گھوڑے سے تیز نکلی ، لہذا یہ شخص جس کی آواز میں ، میں نے خوشخبری سنی تھی میرے پاس پہنچا تو میں نے اپنے کپڑے اتار کر خوشخبری دینے والے کو انعام میں پہنا دیے ۔ اللہ کی قسم ! میرے پاس اس دن ان کپڑوں کے علاوہ کوئی جوڑا نہ تھا ، لہذا میں نے دو کپڑے ادھار لیے کر پہنے اور رسول اللہ ﷺکی خدمت میں جانے کےلیے چل پڑا ۔ لوگ گروہ در گروہ مجھ سے ملتے اور توبہ قبول ہونے کی مبارک دیتے ہوئی کہتے : تم کو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمالی اور تمہیں معاف کردیا۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہﷺتشریف فرماتھے اور لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی ۔ اللہ کی قسم ! مہاجرین میں سے ان کے علاوہ اور کوئی شخص میری طرف اٹھ کر نہیں آیا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس سلوک کو میں کبھی نہیں بھولا ۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب میں نے رسول اللہﷺکو سلام کیا تو آپﷺنے خوشی سے دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ فرمایا: تمہیں آج کا دن مبارک ہو۔ یہ دن ان تمام دنوں میں سے سب سے بہتر ہے جو تمہاری پیدائش کے بعد سے آج تک تم پر گزرے ہیں ۔ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ﷺ! یہ (معافی) آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے ؟ آپﷺنے فرمایا: نہیں ، یہ معافی اللہ کی طرف سے ہے ۔ رسو ل اللہ ﷺجس وقت خوش ہوتے تو آپﷺکا چہرہ مبارک اس طرح دمک اٹھتا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہو اور ہم اس چہرے کو دیکھ کر جان لیا کرتے تھے کہ آپ خوش ہیں۔ الغرض جب میں آپ کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! میں اس توبہ کی خوشی میں چاہتا ہوں کہ اپنا مال اللہ اور اس کے رسول ﷺکےلیے بطور صدقہ دے دوں ۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: سب نہیں ،اپنا کچھ مال اپنے پاس بھی رکھو کیونکہ ایسا کرنا تمہارے لیے بہتر ہوگا۔میں نے عرض کی : اچھا میں اپنا وہ حصہ جو خیبر میں ہے (اپنے پاس ) روک لیتا ہوں ۔ پھر میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ﷺ! چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچ بولنے کی برکت سے نجات دی ہے ، اس لیے میں اپنی توبہ کی (قبولیت کی ) خوشی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا ہمیشہ سچ بات کہوں گا ، چنانچہ اللہ کی قسم ! میرے علم میں ایسا کوئی مسلمان نہیں جسے سچ بولنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اتنے خوبصورت انداز میں نوازا ہو جس قدر حسین و خوبصورت انداز میں اس نے مجھے نوازا ہے جس دن سے میں نے رسول اللہ ﷺکے ربرو یہ عہد کیا تھا ۔ میں نے جس دن رسول اللہﷺسے یہ بات کہی اس دن سے آج تک کبھی قصدا جھوٹ نہیں بولا۔اور مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیل باقی ماندہ زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺپر یہ آیات نازل فرمائیں۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کرلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول تک ۔۔۔۔ اور سچ بولنے والوں کا ساتھ دو۔ اللہ کی قسم! جس سے مجھے اللہ نے دین اسلام کی رہنمائی فرمائی ہے اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے مجھے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سب سے عظیم نعمت میرے نقطہ نگاہ سے یہ ہے کہ مجھے رسول اللہﷺکے سامنے سچ بولنے کی توفیق عطا ہوئی اور میں جھوٹ بول کر ہلاک نہ ہوا جیسے دوسرے وہ لوگ ہلاک ہوگئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نزول وحی کے وقت ان لوگوں کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے زیادہ برے الفاظ کسی اور کے لیے استعمال نہیں فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: وہ تمہارے لیے جلد ہی اللہ کی قسمیں اٹھائیں گے جب تم ان کی طرف لوٹوگے ۔۔۔۔ اس آیت تک ۔۔۔۔ تحقیق اللہ تعالیٰ بدکردار لوگوں سے راضی نہیں ہوگا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں کے معاملے سے مؤخر کردیا گیا تھا جن کے عذر رسول اللہ ﷺنے ان کی قسموں کی وجہ سے قبول کرلیے تھے ۔ ان سے بیعت لے لی تھی اور ان کے گناہ معاف ہونے کی دعا بھی فرمادی تھی اور ہمارے مقدر کا فیصلہ معلق کردیا تھا یہاں تک کہ اللہ نے خود اس کا فیصلہ فرمایا۔ اس کے متعلق ارشاد باری ہے : اور ان تینوں پر بھی اللہ نے توجہ فرمائی جن کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا تھا۔ (ان کی توبہ بھی قبول کی گئی) اس آیت میں خلفوا سے مراد یہ نہیں کہ انہیں جہاد سے پیچھے چھوڑ دیا گیا بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ انہیں معلق کردیا گیا اور ان کے مقدر کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا تھا جبکہ ان لوگوں کے عذر قبول کرلیے گئے تھے جنہوں نے قسمیں اٹھا اٹھاکر عذر پیش کیے تھے۔

‹ First6789