Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Al-Maghazi (Military Expeditions) (64)    كتاب المغازي

12345Last ›

Chapter No: 21

‏{‏ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا ‏}‏

"Then after the distress, He send down security for you. Slumber ..." (V.3:154)

باب: اللہ تعالٰی کا (سورت آل عمران میں) فرمانا جب تم شکست کا غم کر چکے تو تم پر امن کی اونگھ بھیجی جو تم میں سے ایک گروہ کو دبا رہی تھی اور بعضوں کو اس وقت بھی اپنی جان کے لالے پڑے تھے (یعنے منافقوں کو) وہ اللہ کی نسبت جہالت کے وقت کی سی بدگمانی کر رہے تھے کہہ رہے تھے اب وہ بات ہم کو کہاں ملی جس کا پیغمبر صاحب نے وعدہ کیا تھا (یعنے فتح) اے پیغمبر کہہ دے سارا کام اللہ کے اختیار میں ہے یہ لوگ دلوں میں اور بھی باتیں (کفر اور نفاق کی) چھپائے ہوئے ہیں جن کو تجھ پر نہیں کھولتے اپنے دل میں کہتے ہیں اگر ہماری بات چلتی تو ہم لوگ یہاں کیوں مارے جاتے اے پیغمبر کہہ دے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کی قسمت میں مارا جانا لکھا تھا وہ (کسی بہانے سے) قتل گاہ میں آموجود ہوتے اس لڑائی میں یہ بھی حکمت تھی کہ اللہ کو تمہارے دلوں کی بات آزمانا اور تمہارے دلی خیالات کو صاف کرنا منظور تھا اور اللہ دلوں کی بات خوب جانتا ہے اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انسؓ سے انہوں نے ابوطلحہ سے انہوں نے کہا میں بھی ان لوگوں میں تھا جن کو احد کے دن اونگھ نے دبا لیا تھا مجھ کو ایسی اونگھ آئی کہ کئی بار میرے ہاتھ سے تلوار گر پڑی وہ گرتی جاتی تھی میں اٹھاتا جاتا تھا وہ گرتی جاتی تھی میں اٹھاتا جاتا تھا۔،

وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنْتُ فِيمَنْ تَغَشَّاهُ النُّعَاسُ يَوْمَ أُحُدٍ، حَتَّى سَقَطَ سَيْفِي مِنْ يَدِي مِرَارًا، يَسْقُطُ وَآخُذُهُ، وَيَسْقُطُ فَآخُذُهُ‏.

Abu Talha(RA) said, "I was amongst those who were overtaken by slumber till my sword fell from my hand on several occasions. The sword fell and I picked it up, and again it fell, and I picked it up."

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں ان لوگوں میں سے تھا جنہیں غزوہ احد کے موقع پر اونگھ نے آ گھیرا تھا اور اسی حالت میں میری تلوار کئی مرتبہ ہاتھ سےگر پڑی تھی۔ میں اسے اٹھا لیتا، پھر گرجاتی اور میں اسے پھر اٹھا لیتا۔

Chapter No: 22

باب ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ‏}‏

"Not for you (Muhammad (s.a.w)) is the decision whether He turns in mercy to (pardon) them or punishes them; verily, they are the wrong-doers" (V.3:128)

باب: (سورت آل عمران میں) یہ آیت اے پیغمبر تیرا کچھ اختیار نہیں اللہ کا اختیار ہے چاہے ان کو معاف کرے چاہے ان کو سزا دے کیونکہ وہ گنہگار ہیں ۔

قَالَ حُمَيْدٌ وَثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ شُجَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ ‏"‏ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيَّهُمْ ‏"‏‏.‏ فَنَزَلَتْ ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ ‏}‏

Anas said, "On the day of Uhud, the face of the Prophet (s.a.w) was wounded, and he said, 'How can a nation who injured the face of their Prophet ever succeed?' Then the following verse was revealed, 'Not for you (Muhammad (s.a.w)) is the decision ...' (V.3:128)"

حمید اور ثابت بنانی نے انسؓ سے روایت کیا کہ نبیﷺ کے سر میں احد کے دن زخم آیا۔آپؐ نے فرمایا بھلا اس قوم کو کیا فلاح ہو گی جنہوں نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا اس وقت (سورت آل عمران کی یہ آیت اتری) اے پیغمبر تیرے کچھ اختیار نہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ مِنَ الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنَ الْفَجْرِ يَقُولُ ‏"‏ اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا ‏"‏‏.‏ بَعْدَ مَا يَقُولُ ‏"‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ‏"‏‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ‏}‏

Narrated By Salim's father : That he heard Allah's Apostle, when raising his head from bowing of the first Rak'a of the morning prayer, saying, "O Allah! Curse so-and-so and so-and-so" after he had said, "Allah hears him who sends his praises to Him. Our Lord, all the Praises are for you!" So Allah revealed: "Not for you (O Muhammad!)... (till the end of Verse) they are indeed wrong-doers." (3.128)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آپ ﷺفجر نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھاتے تو یہ بد دعا مانگتے : اے اللہ ! فلاں، فلاں ، اور فلاں پر لعنت برسا۔آپﷺیہ بد دعا سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا ولک الحمد کہنے کے بعد کرتے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے (سورت آل عمران کی یہ آیت اتاری) لَیسَ لَکَ مِنَ الاَمرِ شَیء فَاِنَّھُم ظَاِلُمونَ اے نبی ! آپ کو کچھ اختیار نہیں ،(اللہ چاہیے تو انہیں معاف کردے یا انہیں سزادے ) کیونکہ وہ ظالم ہیں۔


وَعَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدْعُو عَلَى صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَسُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو وَالْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَزَلَتْ ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ‏}‏‏.‏

Salim bin 'Abdullah said' "Allah's Apostle used to invoke evil upon Safwan bin Umaiya, Suhail bin 'Amr and Al-Harith bin Hisham. So the Verse was revealed: "Not for you (O Muhammad!)... (till the end of Verse) For they are indeed wrong-doers." (3.128)

حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺصفوان بن امیہ ، سہیل بن عمرو ، اور حارث بن ہشام کے خلاف بد دعا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:" لیس لک من الامر شیء ،فانھم ظالمون تک۔

Chapter No: 23

باب ذِكْرِ أُمِّ سَلِيطٍ

Narration regarding Umm Salit.

باب: ام سلیط کا بیان۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاءٍ مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، فَبَقِيَ مِنْهَا مِرْطٌ جَيِّدٌ، فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّتِي عِنْدَكَ‏.‏ يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ‏.‏ فَقَالَ عُمَرُ أُمُّ سَلِيطٍ أَحَقُّ بِهِ‏.‏ وَأُمُّ سَلِيطٍ مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، قَالَ عُمَرُ فَإِنَّهَا كَانَتْ تُزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُدٍ‏

Narrated By Tha'laba bin Abi Malik : 'Umar bin Al-Khattab distributed woollen clothes amongst some women of Medina, and a nice woollen garment remained. Some of those who were sitting with him, said, "O chief of the believers! Give it to the daughter of Allah's Apostle who is with you," and by that, they meant Um Kulthum, the daughter of 'Ali. Umar said, "Um Salit has got more right than she." Um Saht was amongst those Ansari women who had given the pledge of allegiance to Allah's Apostle. 'Umar added, "She (i.e. Um Salit) used to carry the filled water skins for us on the day of the battle of Uhud."

ثعلبہ بن ابی مالک سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کروائیں۔ ایک عمدہ قسم کی چادر باقی بچ گئی تو ایک صاحب نے جو وہیں موجود تھے، عرض کیا: اے امیرالمؤمنین! یہ چادر رسول اللہ ﷺ کی نواسی کو دے دیجئے جو آپ کے نکاح میں ہیں۔ ان کا اشارہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ ام سلیط رضی اللہ عنہا کا تعلق قبیلہ انصار سے تھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺسے بیعت کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ غزوۂ احد میں وہ ہمارے لیے پانی کی مشکیں بھربھر کر لاتی تھیں۔

Chapter No: 24

باب قَتْلُ حَمْزَةَ بِن عَبدالمطَّلِبِ رضى الله عَنْهُ

The martyrdom of Hamza bin Abdul-Muttalib

باب: حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت کا قصہ۔

حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ قَالَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِي وَحْشِيٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ وَكَانَ وَحْشِيٌّ يَسْكُنُ حِمْصَ فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَقِيلَ لَنَا هُوَ ذَاكَ فِي ظِلِّ قَصْرِهِ، كَأَنَّهُ حَمِيتٌ‏.‏ قَالَ فَجِئْنَا حَتَّى وَقَفْنَا عَلَيْهِ بِيَسِيرٍ، فَسَلَّمْنَا، فَرَدَّ السَّلاَمَ، قَالَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِهِ، مَا يَرَى وَحْشِيٌّ إِلاَّ عَيْنَيْهِ وَرِجْلَيْهِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ يَا وَحْشِيُّ أَتَعْرِفُنِي قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لاَ وَاللَّهِ إِلاَّ أَنِّي أَعْلَمُ أَنَّ عَدِيَّ بْنَ الْخِيَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَةً يُقَالُ لَهَا أُمُّ قِتَالٍ بِنْتُ أَبِي الْعِيصِ، فَوَلَدَتْ لَهُ غُلاَمًا بِمَكَّةَ، فَكُنْتُ أَسْتَرْضِعُ لَهُ، فَحَمَلْتُ ذَلِكَ الْغُلاَمَ مَعَ أُمِّهِ، فَنَاوَلْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَكَأَنِّي نَظَرْتُ إِلَى قَدَمَيْكَ‏.‏ قَالَ فَكَشَفَ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ أَلاَ تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَةَ قَالَ نَعَمْ، إِنَّ حَمْزَةَ قَتَلَ طُعَيْمَةَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ بِبَدْرٍ، فَقَالَ لِي مَوْلاَىَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَةَ بِعَمِّي فَأَنْتَ حُرٌّ، قَالَ فَلَمَّا أَنْ خَرَجَ النَّاسُ عَامَ عَيْنَيْنِ ـ وَعَيْنَيْنِ جَبَلٌ بِحِيَالِ أُحُدٍ، بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَادٍ ـ خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَى الْقِتَالِ، فَلَمَّا اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ خَرَجَ سِبَاعٌ فَقَالَ هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُورِ، أَتُحَادُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم قَالَ ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَكَانَ كَأَمْسِ الذَّاهِبِ ـ قَالَ ـ وَكَمَنْتُ لِحَمْزَةَ تَحْتَ صَخْرَةٍ فَلَمَّا دَنَا مِنِّي رَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا فِي ثُنَّتِهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ وَرِكَيْهِ ـ قَالَ ـ فَكَانَ ذَاكَ الْعَهْدَ بِهِ، فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَهُمْ فَأَقَمْتُ بِمَكَّةَ، حَتَّى فَشَا فِيهَا الإِسْلاَمُ، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى الطَّائِفِ، فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَسُولاً، فَقِيلَ لِي إِنَّهُ لاَ يَهِيجُ الرُّسُلَ ـ قَالَ ـ فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا رَآنِي قَالَ ‏"‏ آنْتَ وَحْشِيٌّ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَةَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنَ الأَمْرِ مَا بَلَغَكَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُغَيِّبَ وَجْهَكَ عَنِّي ‏"‏‏.‏ قَالَ فَخَرَجْتُ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَخَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ قُلْتُ لأَخْرُجَنَّ إِلَى مُسَيْلِمَةَ لَعَلِّي أَقْتُلُهُ فَأُكَافِئَ بِهِ حَمْزَةَ ـ قَالَ ـ فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ ـ قَالَ ـ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةِ جِدَارٍ، كَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرُ الرَّأْسِ ـ قَالَ ـ فَرَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ ـ قَالَ ـ وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَى هَامَتِهِ‏.‏ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ فَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ فَقَالَتْ جَارِيَةٌ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ وَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَتَلَهُ الْعَبْدُ الأَسْوَدُ‏

Narrated By Jafar bin 'Amr bin Umaiya : I went out with 'Ubaidullah bin 'Adi Al-Khaiyar. When we reached Hims (i.e. a town in Syria), 'Ubaidullah bin 'Adi said (to me), "Would you like to see Wahshi so that we may ask him about the killing of Hamza?" I replied, "Yes." Wahshi used to live in Hims. We enquired about him and somebody said to us, "He is that in the shade of his palace, as if he were a full water skin." So we went up to him, and when we were at a short distance from him, we greeted him and he greeted us in return. 'Ubaidullah was wearing his turban and Wahshi could not see except his eyes and feet. 'Ubaidullah said, "O Wahshi! Do you know me?" Wahshi looked at him and then said, "No, by Allah! But I know that 'Adi bin Al-Khiyar married a woman called Um Qital, the daughter of Abu Al-Is, and she delivered a boy for him at Mecca, and I looked for a wet nurse for that child. (Once) I carried that child along with his mother and then I handed him over to her, and your feet resemble that child's feet." Then 'Ubaidullah uncovered his face and said (to Wahshi), "Will you tell us (the story of) the killing of Hamza?" Wahshi replied "Yes, Hamza killed Tuaima bin 'Adi bin Al-Khaiyar at Badr (battle) so my master, Jubair bin Mut'im said to me, 'If you kill Hamza in revenge for my uncle, then you will be set free." When the people set out (for the battle of Uhud) in the year of 'Ainain... 'Ainain is a mountain near the mountain of Uhud, and between it and Uhud there is a valley... I went out with the people for the battle. When the army aligned for the fight, Siba' came out and said, 'Is there any (Muslim) to accept my challenge to a duel?' Hamza bin 'Abdul Muttalib came out and said, 'O Siba'. O Ibn Um Anmar, the one who circumcises other ladies! Do you challenge Allah and His Apostle?' Then Hamza attacked and killed him, causing him to be non-extant like the bygone yesterday. I hid myself under a rock, and when he (i.e. Hamza) came near me, I threw my spear at him, driving it into his umbilicus so that it came out through his buttocks, causing him to die. When all the people returned to Mecca, I too returned with them. I stayed in (Mecca) till Islam spread in it (i.e. Mecca). Then I left for Taif, and when the people (of Taif) sent their messengers to Allah's Apostle, I was told that the Prophet did not harm the messengers; So I too went out with them till I reached Allah's Apostle. When he saw me, he said, 'Are you Wahshi?' I said, 'Yes.' He said, 'Was it you who killed Hamza?' I replied, 'What happened is what you have been told of.' He said, 'Can you hide your face from me?' So I went out when Allah's Apostle died, and Musailamah Al-Kadhdhab appeared (claiming to be a prophet). I said, 'I will go out to Musailamah so that I may kill him, and make amends for killing Hamza. So I went out with the people (to fight Musailamah and his followers) and then famous events took place concerning that battle. Suddenly I saw a man (i.e. Musailamah) standing near a gap in a wall. He looked like an ash-coloured camel and his hair was dishevelled. So I threw my spear at him, driving it into his chest in between his breasts till it passed out through his shoulders, and then an Ansari man attacked him and struck him on the head with a sword. 'Abdullah bin 'Umar said, 'A slave girl on the roof of a house said: Alas! The chief of the believers (i.e. Musailamah) has been killed by a black slave."

حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ سفر میں نکلا جب ہم لوگ حمص پہنچےتو عبید اللہ بن عدی نے کہا:کیا آپ کو وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ سے ملنے کی خواہش ہے ، ان سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وحشی حمص ہی میں رہا کرتا تھا خیر (ہم گئے) ہم نے ان کا پتہ پوچھا لوگوں نے کہا: دیکھو وہ اپنے مکان کے سایہ میں بیٹھا ہے مشک کی طرف پھولا ہوا۔ جعفر نے کہا: ہم جب اس کے پاس پہنچے تو تھوڑی دیر کھڑے رہے پھر ہم نے اس کو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اس وقت عبیداللہ اپنا عمامہ سر پر لپیٹے ہوئے تھے وحشی کو ان کا کوئی عضو نظر نہیں آتا تھا صرف آنکھیں اور پاؤں دیکھتا تھا تو عبیداللہ نے ان سے پوچھا: اے وحشی! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟راوی نے کہا: وحشی نے ان کو دیکھا اور کہنے لگا: نہیں اللہ کی قسم! میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت ام قتال بنت ابی العیص سے نکاح کیا تھا۔پھر مکہ میں اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ،تو میں اس کےلیے دودھ پلانے والی تلاش کررہا تھا میں نے اس کے بچے کو اٹھایا اس کی ماں بھی اس کے ہمراہ تھی۔ پھر میں نے اس بچے کو دودھ پلانے والی کے سپرد کیا گویا اب میں تمہارے قدموں کو دیکھ رہا ہوں (جو اس بچے کے قدموں سے ملتے جلتے ہیں)۔ اس کے بعد عبید اللہ نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا: کیا آپ ہمیں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصہ بیان کرنا پسند فرمائیں گے؟انہوں نے کہا : ہاں۔ پھر وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ نے قصہ یوں بیان کیا : کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا ۔ تو میرے مالک جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا: کہ اگر تم میرے چچا کے بدلے میں حضرت حمزہ کو قتل کرلوگے تو میں تمہیں آزاد کردوں گا۔ جب قریش کے لوگ عینین کی لڑائی کے سال نکلے ۔عینین ایک پہاڑ ہے احد پہاڑ کےسامنے۔ اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ہمراہ نکلا ۔جب لوگوں نے جنگ کے لئے صف باندھی تو (قریش کی طرف سے) ایک شخص سباع(بن عبدالعزے)میدان میں نکلا اور کہنے لگا: ہے کوئی مجھ سے لڑنے والا؟ یہ سنتے ہی حمزہ بن عبدالمطب رضی اللہ عنہ نکلےاورکہنےلگے:ارےسباغ ارے ام انمار!جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی۔ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ؟ اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ کرکے اس سے قصہ پارینہ بنادیا۔اس سے ہمیشہ کےلیے نیست نابود کردیا۔بہرحال میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کےلیے ایک پتھر کی آڑ میں گھات لگاکر بیٹھ گیا ۔جب وہ میرے قریب آئے تو میں نے اپنے نیزے سے ان پر وار کیا اور ان کے زیر ناف ایسا نیزہ پیوست کیا کہ وہ ان کی دونوں سرینوں کے پار ہوگیا۔یہ ان کا آخری وقت تھا۔ پھر جب قریش مکہ واپس آئے تو میں بھی ان کے ہمراہ مکہ واپس آکر مقیم ہوگیا۔یہاں تک کہ مکہ میں بھی دین اسلام پھیل گیا۔ اس وقت میں طائف چلا گیا ۔طائف کے لوگوں نے رسول اللہﷺ کے پاس کچھ قاصد بھیجے مجھ سے لوگوں نے کہا تھا کہ آپ ﷺ قاصدوں کو کچھ نہیں کہتے اس لیے میں بھی ان کے ساتھ ہوگیا یہاں تکہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوا۔ جب رسول اللہ ﷺکی نظر مجھ پر پڑگئی تو آپﷺنے فرمایا: وحشی تو ہی ہے نا؟ میں نے عرض کیا: جی ، آپ ﷺحمزہ کو تو نے ہی قتل کیا تھا میں نے کہا: آپﷺ کو تو تمام رپورٹ پہنچ چکی ہے(کہ حمزہ کو میں نے کیوں مارا) آپﷺ نے فرمایا:کیا تو مجھ سے خود کو چھپاسکتا ہے ؟بہرحال میں اٹھ کر باہر آگیا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب (یمامہ والا) نمود ہوا تو میں نے (اپنے دل میں ) کہا: میں تو ضرور جاکر مسیلمہ کو قتل کردوں گا تاکہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ اتار سکوں۔اس کے بعد میں مسلمانوں کے ہمراہ نکلا اور پھر وہی کچھ ہوا جو ہونا تھا۔وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو پراگندہ بالوں کے ساتھ شکستہ دیوار کی اوٹ میں کھڑا تھا گویا وہ خاکستری اونٹ کی مانند ہے ۔میں نے اسے نیزہ یوں مارا کہ اس کی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس کے دونوں شانوں کے پار کردیا۔پھر ایک انصاری نے دوڑ کر اس کی کھوپڑی پر تلوار کا وار کردیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک لڑکی نے چھت پر کھڑے ہوکر اعلان کیا امیر المومنین کو ایک سیاہ فام غلام نے قتل کردیا ہے۔

Chapter No: 25

باب مَا أَصَابَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْجِرَاحِ يَوْمَ أُحُدٍ

The wounds inflicted on the Prophet (s.a.w) on the day of Uhud.

باب: احد کی جنگ میں نبیﷺ کو جو زخم لگے ان کا بیان۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا بِنَبِيِّهِ ـ يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ ـ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‏"‏‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle (pointing to his broken canine tooth) said, "Allah's Wrath has become severe on the people who harmed His Prophet. Allah's Wrath has become severe on the man who is killed by the Apostle of Allah in Allah's Cause."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم پرانتہائی سخت ہوجاتاہے جو اپنے نبی کےساتھ یہ سلوک کرتے ہیں ۔۔۔ آپ ﷺنے اپنے دو دندان مبارک کی طرف اشارہ کیا۔اس آدمی پر اللہ تعالیٰ کا غضب سخت ہوتا ہے جس سے اللہ کے رسول نے اللہ کے راستے میں قتل کیا ہو۔


حَدَّثَنِي مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي سَبِيلِ اللَّهِ، اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْهَ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Ibn 'Abbas : Allah's Wrath became severe on him whom the Prophet had killed in Allah's Cause. Allah's Wrath became severe on the people who caused the face of Allah's Prophet to bleed.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا سخت غضب اس پر ہوتا ہے جس کو نبی ﷺاللہ کے راستے میں قتل کردے۔اس قوم پر بھی اللہ کا سخت غضب نازل ہوا جس نے اللہ کے نبی ﷺکا چہرہ انور خون آلود کیا۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ،، وَهْوَ يُسْأَلُ عَنْ جُرْحِ، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لأَعْرِفُ مَنْ كَانَ يَغْسِلُ جُرْحَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَنْ كَانَ يَسْكُبُ الْمَاءَ وَبِمَا دُووِيَ ـ قَالَ ـ كَانَتْ فَاطِمَةُ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَغْسِلُهُ وَعَلِيٌّ يَسْكُبُ الْمَاءَ بِالْمِجَنِّ، فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ أَنَّ الْمَاءَ لاَ يَزِيدُ الدَّمَ إِلاَّ كَثْرَةً أَخَذَتْ قِطْعَةً مِنْ حَصِيرٍ، فَأَحْرَقَتْهَا وَأَلْصَقَتْهَا فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَئِذٍ، وَجُرِحَ وَجْهُهُ، وَكُسِرَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ‏

Narrated By Abu Hazim : That he heard Sahl bin Sad being asked about the wounds of Allah's Apostle saying, "By Allah, I know who washed the wounds of Allah's Apostle and who poured water (for washing them), and with what he was treated." Sahl added, "Fatima, the daughter of Allah's Apostle used to wash the wounds, and 'Ali bin Abi Talib used to pour water from a shield. When Fatima saw that the water aggravated the bleeding, she took a piece of a mat, burnt it, and inserted its ashes into the wound so that the blood was congealed (and bleeding stopped). His canine tooth got broken on that day, and face was wounded, and his helmet was broken on his head."

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان سے رسول اللہ ﷺکے زخموں کے متعلق سوال ہوا ، تو انہوں نے بیان فرمایا: للہ کی قسم! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زخموں کو کس نے دھویا تھا اور کون ان پر پانی ڈال رہا تھا اور جس دوا سے آپ کا علاج کیا گیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی خون کو دھو رہی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون اور زیادہ نکلا آ رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا اور پھر اسے زخم پر چپکا دیا جس سے خون کا آنا بند ہو گیا۔ اسی دن نبی کریم ﷺ کے آگے کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہو گیا تھا اور خود سر مبارک پر ٹوٹ گئی تھی۔


حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ نَبِيٌّ، اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ دَمَّى وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Ibn Abbas : Allah's Wrath gets severe on a person killed by a prophet, and Allah's Wrath became severe on him who had caused the face of Allah's Apostle to bleed.

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جس نے رسول اللہ ﷺکے چہرہ مبارک کو خون آلود کیا تھا۔

Chapter No: 26

باب ‏{‏الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ‏}‏

"Those who answered (the Call of) Allah and the Messenger (s.a.w) ..." (V.3:172)

باب: (سورت آل عمران کی) یہ آیت جن لوگوں نے زخمی ہونے پر اللہ اور رسول کا کہنا مانا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ‏{‏الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ‏}‏ قَالَتْ لِعُرْوَةَ يَا ابْنَ أُخْتِي كَانَ أَبُوكَ مِنْهُمُ الزُّبَيْرُ وَأَبُو بَكْرٍ، لَمَّا أَصَابَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا أَصَابَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَانْصَرَفَ عَنْهُ الْمُشْرِكُونَ خَافَ أَنْ يَرْجِعُوا قَالَ ‏"‏ مَنْ يَذْهَبُ فِي إِثْرِهِمْ ‏"‏‏.‏ فَانْتَدَبَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلاً، قَالَ كَانَ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَالزُّبَيْرُ‏

Narrated By 'Aisha : Regarding the Holy Verse: "Those who responded (To the call) of Allah And the Apostle (Muhammad), After being wounded, For those of them Who did good deeds And refrained from wrong, there is a great reward." (3.172) She said to 'Urwa, "O my nephew! Your father, Az-Zubair and Abu Bakr were amongst them (i.e. those who responded to the call of Allah and the Apostle on the day (of the battle of Uhud). When Allah's Apostle, suffered what he suffered on the day of Uhud and the pagans left, the Prophet was afraid that they might return. So he said, 'Who will go on their (i.e. pagans') track?' He then selected seventy men from amongst them (for this purpose)." (The sub-narrator added, "Abu Bakr and Az-Zubair were amongst them.")

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے آیت کریمہ «الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح للذين أحسنوا منهم واتقوا أجر عظيم‏» ترجمہ: جن لوگوں نے زخمی ہوجانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا ، ان میں سے جو نیک اور مخلص ہیں ان کےلیے اجر عظیم ہے۔تلاوت کی تو عروہ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! تمہارے والد زبیر رضی اللہ عنہ اور (نانا) ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے تھے۔ احد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کو جو کچھ تکلیف پہنچنی تھی جب وہ پہنچی اور مشرکین واپس جانے لگے تو نبی کریم ﷺ کو اس کا خطرہ ہوا کہ کہیں وہ پھر لوٹ کر حملہ نہ کریں۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائیں گے۔ اسی وقت ستر صحابہ رضی اللہ عنہم تیار ہو گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے تھے۔

Chapter No: 27

باب مَنْ قُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ أُحُدٍ

The Muslims who were killed on the day of Uhud.

باب: جو مسلمان احد کے دن شہید ہوئے

مِنْهُمْ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَالْيَمَانُ وَأَنَسُ بْنُ النَّضْرِ وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ

Amongst them were Hamza bin Abdul-Muttalib, Al-Yaman, An-Nadr bin Anas and Musab bin Umair.

جیسےحمزہؓ بن عبدالمطلب اور یمانؓ اور نضر بن انسؓ اور مصعب بن عمیرؓ ان کا بیان۔

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ مَا نَعْلَمُ حَيًّا مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ أَكْثَرَ شَهِيدًا أَعَزَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الأَنْصَارِ‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ وَحَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّهُ قُتِلَ مِنْهُمْ يَوْمَ أُحُدٍ سَبْعُونَ، وَيَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ سَبْعُونَ، وَيَوْمَ الْيَمَامَةِ سَبْعُونَ، قَالَ وَكَانَ بِئْرُ مَعُونَةَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَيَوْمُ الْيَمَامَةِ عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ يَوْمَ مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابِ‏

Narrated By Qatada : We do not know of any tribe amongst the 'Arab tribes who lost more martyrs than Al-Ansar, and they will have superiority on the Day of Resurrection. Anas bin Malik told us that seventy from the Ansar were martyred on the day of Uhud, and seventy on the day (of the battle of) Bir Ma'una, and seventy on the day of Al-Yamama. Anas added, "The battle of Bir Ma'una took place during the lifetime of Allah's Apostle and the battle of Al-Yamama, during the caliphate of Abu Bakr, and it was the day when Musailamah Al-Kadhdhab was killed."

حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ ہمیں عرب کے قبائل میں سے کوئی ایسا قبیلہ معلوم نہیں جس کے شہید انصار سے زیادہ ہوں،اور وہ قبیلہ قیامت کے دن انصار سے زیادہ عزت والا ہو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ غزوۂ احد میں قبیلہ انصار کے ستر آدمی شہید ہوئے اور بئرمعونہ کے حادثہ میں اس کے ستر آدمی شہید ہوئے اور یمامہ کی لڑائی میں اس کے ستر آدمی شہید ہوئے۔ راوی نے بیان کیا کہ بئرمعونہ کا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں پیش آیا تھا اور یمامہ کی جنگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی تھی جو مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ‏"‏‏.‏ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدٍ، قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ ‏"‏ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلاَءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏"‏‏.‏ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُغَسَّلُوا‏.

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : Allah's Apostle used to shroud two martyrs of Uhud in one sheet and then say, "Which of them knew Qur'an more?" When one of the two was pointed out, he would put him first in the grave. Then he said, "I will be a witness for them on the Day of Resurrection." He ordered them to be buried with their blood (on their bodies). Neither was the funeral prayer offered for them, nor were they washed.

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ نے احد کے شہداء کو ایک ہی کپڑے میں دو دو کو کفن دیا اور آپ ﷺدریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا عالم سب سے زیادہ کون ہے؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کرکے آپ کو بتایا جاتا تو لحد میں آپ ﷺ انہی کو آگے فرماتے۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ قیامت کے دن میں ان سب پر گواہ رہوں گا۔ پھر آپﷺ نے تمام شہداء کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرما دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔


وَقَالَ أَبُو الْوَلِيدِ عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا، قَالَ لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ،، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تَبْكِيهِ أَوْ مَا تَبْكِيهِ، مَا زَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ ‏"‏‏

Jabir added, "When my father was martyred, I started weeping and uncovering his face. The companions of the Prophet stopped me from doing so but the Prophet did not stop me. Then the Prophet said, '(O Jabir.) don't weep over him, for the angels kept on covering him with their wings till his body was carried away (for burial)."

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: کہ جب میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے تو میں رونے لگا اور بار بار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا۔ صحابہ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺنے نہیں روکا۔ (فاطمہ بنت عمر رضی اللہ عنہا عبداللہ کی بہن بھی رونے لگیں) آپ ﷺنے ان سے فرمایا :کہ روؤ مت۔ (آپ ﷺ نے «لا تبكيه» فرمایا، یا «ما تبكيه» ۔ راوی کو شک ہوگیا) فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو اٹھالیا گیا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ أُرَى عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ رَأَيْتُ فِي رُؤْيَاىَ أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ، فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ بِهِ اللَّهُ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا بَقَرًا وَاللَّهُ خَيْرٌ، فَإِذَا هُمُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ أُحُدٍ ‏"‏‏

Narrated By Abu Musa : The Prophet said, "I saw in a dream that I moved a sword and its blade got broken, and that symbolized the casualties which the believers suffered on the day of Uhud. Then I moved it again, and it became as perfect as it had been, and that symbolized the Conquest (of Mecca) which Allah helped us to achieve, and the union of all the believers. I (also) saw cows in the dream, and what Allah does is always beneficial. Those cows appeared to symbolize the faithful believers (who were martyred) on the day of Uhud."

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو ہلایا اور اس سے اس کی دھار ٹوٹ گئی۔ اس کی تعبیر مسلمانوں کے اس نقصان کی شکل میں ظاہر ہوئی جو غزوہ احد میں انہیں اٹھانا پڑا تھا۔ پھر میں نے دوبارہ اس تلوار کو ہلایا، تو پھر وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ ہوگئی جیسی پہلے تھی۔ اس کی تعبیر اللہ تعالیٰ نے فتح اور مسلمانوں کے پھر از سر نو اجتماع کی صورت میں ظاہر کی۔ میں نے اسی خواب میں ایک گائے دیکھی تھی (جو ذبح ہو رہی تھی) اور اللہ تعالیٰ کے تمام کام خیر و برکت لیے ہوتے ہیں۔ اس کی تعبیر وہ مسلمان تھے (جو) احد کی لڑائی میں (شہید ہوئے)۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ خَبَّابٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ، فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ، فَمِنَّا مَنْ مَضَى أَوْ ذَهَبَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، كَانَ مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَلَمْ يَتْرُكْ إِلاَّ نَمِرَةً كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاَهُ، وَإِذَا غُطِّيَ بِهَا رِجْلاَهُ خَرَجَ رَأْسُهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ، وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَيْهِ الإِذْخِرَ ‏"‏‏.‏ أَوْ قَالَ ‏"‏ أَلْقُوا عَلَى رِجْلَيْهِ مِنَ الإِذْخِرِ ‏"‏‏.‏ وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهْوَ يَهْدِبُهَا‏

Narrated By Khabbab : We migrated with the Prophet for Allah's Cause, so our reward became due with Allah. Some of us passed away (i.e. died) without enjoying anything from their reward, and one of them was Mus'ab bin 'Umar who was killed (i.e. martyred) on the day of Uhud. He did not leave behind except a sheet of striped woollen cloth. If we covered his head with it, his feet became naked, and if we covered his feet with it, his head became naked. The Prophet said to us, "Cover his head with it and put Idhkhir (i.e. a kind of grass) over his feet," or said, "Put some Idhkhir over his feet." But some of us have got their fruits ripened, and they are collecting them.

حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبیﷺکے ساتھ ہجرت کی اور ہمارا مقصد اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنا تھا۔ ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر ثواب دیتا۔ ہم میں سے بعض لوگ تو وہ تھے جو اللہ سے جا ملے اور (دنیا میں) انہوں نے اپنا کوئی ثواب نہیں دیکھا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے تھے۔ غزوہ احد میں انہوں نے شہادت پائی اور ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز انہوں نے نہیں چھوڑی۔ اس چادر سے (کفن دیتے وقت) جب ہم ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا «غطوا بها رأسه،‏‏‏‏ واجعلوا على رجليه الإذخر» چادر سے سر چھپا دو اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دو۔ یا آپ ﷺ نے یوں فرمایا «ألقوا على رجليه من الإذخر» یعنی ان کے پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو۔ اور ہم میں بعض وہ ہیں جنہیں ان کے اس عمل کا پھل (اسی دنیا میں) دے دیا گیا اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

Chapter No: 28

باب أُحُدٌ يُحِبُّنَا ‏{‏وَنُحِبُّهُ‏}‏

"Uhud is a mountain that loves us and is loved by us."

باب: نبیﷺ کا یہ فرمانا احد ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے ہم اس سے محبت رکھتے ہیں

قَالَهُ عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.

This was narrated by Abbas bin Sahl from Abi Humaid from the Prophet (s.a.w)

یہ عباس بن سہل نے ابو حمید سے انہوں نے نبیﷺ سے روایت کیا۔

حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ‏"‏‏

Narrated By Anas : The Prophet said, "This is a mountain that loves us and is loved by us."

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : یہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَمْرٍو، مَوْلَى الْمُطَّلِبِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ فَقَالَ ‏"‏ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَإِنِّي حَرَّمْتُ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا ‏"

Narrated By Anas bin Malik : When the mountain of Uhud appeared before Allah's Apostle he said, "This IS a mountain that loves us and is loved by us. O, Allah! Abraham made Mecca a Sanctuary, and I have made Medina (i.e. the area between its two mountains) a Sanctuary as well."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺ کو (خیبر سے واپس ہوتے ہوئے) احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپﷺ نے فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا اور میں ان دو پتھریلے میدانوں کے درمیان والے علاقے (مدینہ منورہ) کو حرمت والا شہر قرار دیتا ہوں۔


حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ ‏"‏ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي لأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ ـ أَوْ مَفَاتِيحَ الأَرْضِ ـ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا ‏"‏‏

Narrated By Uqba : One day the Prophet went out and offered the (funeral) prayer for the people (i.e. martyrs) of Uhud as he used to offer a funeral prayer for any dead person, and then (after returning) he ascended the pulpit and said, "I am your predecessor before you, and I am a witness upon you, and I am looking at my Tank just now, and I have been given the keys of the treasures of the world (or the keys of the world). By Allah, I am not afraid that you will worship others besides Allah after me, but I am afraid that you will compete with each other for (the pleasures of) this world."

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے میت پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے میرکارواں ہوں،اور تمہارے حق میں گواہی دوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمائی گئی ہے۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کےلیے حرص کرنے لگوگے۔

Chapter No: 29

باب غَزْوَةُ الرَّجِيعِ وَرِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبِئْرِ مَعُونَةَ وَحَدِيثِ عَضَلٍ وَالْقَارَةِ وَعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ وَخُبَيْبٍ وَأَصْحَابِهِ

The Ghazwa of Ar-Raji, Riel, Dhakwan and Bir Mauna and the narration about (the tribes of) Adal and Al-Qara and (the story of) Asim bin Thabit, Khubaib and his companions.

باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل اور ذکوان و بئر معونہ کے غزوہ کا بیان اور عضل اور قارہ کا قصّہ اور عاصم بن ثابت اور خبیب اور ان کے ساتھیوں کا قصّہ

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ أَنَّهَا بَعْدَ أُحُدٍ

Narrated by Ibn Ishaq, Asim bin Umar said, "It happened after Uhud."

ابن اسحاق نے کہا ہم سے عاصم بن عمر نے بیان کیا کہ غزوہ رجیع جنگ احد کے بعد ہوا۔

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الثَّقَفِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً عَيْنًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ ـ وَهْوَ جَدُّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ـ فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ عُسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لَحِيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لَحْيَانَ، فَتَبِعُوهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى أَتَوْا مَنْزِلاً نَزَلُوهُ فَوَجَدُوا فِيهِ نَوَى تَمْرٍ تَزَوَّدُوهُ مِنَ الْمَدِينَةِ فَقَالُوا هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ‏.‏ فَتَبِعُوا آثَارَهُمْ حَتَّى لَحِقُوهُمْ، فَلَمَّا انْتَهَى عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ، وَجَاءَ الْقَوْمُ فَأَحَاطُوا بِهِمْ، فَقَالُوا لَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ إِنْ نَزَلْتُمْ إِلَيْنَا أَنْ لاَ نَقْتُلَ مِنْكُمْ رَجُلاً‏.‏ فَقَالَ عَاصِمٌ أَمَّا أَنَا فَلاَ أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ‏.‏ فَقَاتَلُوهُمْ حَتَّى قَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةِ نَفَرٍ بِالنَّبْلِ، وَبَقِيَ خُبَيْبٌ، وَزَيْدٌ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَأَعْطَوْهُمُ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ، فَلَمَّا أَعْطَوْهُمُ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ نَزَلُوا إِلَيْهِمْ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ حَلُّوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا‏.‏ فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ الَّذِي مَعَهُمَا هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ‏.‏ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ، فَلَمْ يَفْعَلْ، فَقَتَلُوهُ، وَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وَزَيْدٍ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ، فَاشْتَرَى خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ يَوْمَ بَدْرٍ، فَمَكَثَ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى إِذَا أَجْمَعُوا قَتْلَهُ اسْتَعَارَ مُوسَى مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ أَسْتَحِدَّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ، قَالَتْ فَغَفَلْتُ عَنْ صَبِيٍّ لِي فَدَرَجَ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَاهُ، فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ فَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَ ذَاكَ مِنِّي، وَفِي يَدِهِ الْمُوسَى فَقَالَ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لأَفْعَلَ ذَاكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‏.‏ وَكَانَتْ تَقُولُ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ، وَمَا بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ ثَمَرَةٌ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ، وَمَا كَانَ إِلاَّ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ، فَخَرَجُوا بِهِ مِنَ الْحَرَمِ، لِيَقْتُلُوهُ فَقَالَ دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ‏.‏ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ لَوْلاَ أَنْ تَرَوْا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ مِنَ الْمَوْتِ، لَزِدْتُ‏.‏ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ هُوَ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا ثُمَّ قَالَ مَا أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَىِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ، وَبَعَثَ قُرَيْشٌ إِلَى عَاصِمٍ لِيُؤْتَوْا بِشَىْءٍ مِنْ جَسَدِهِ يَعْرِفُونَهُ، وَكَانَ عَاصِمٌ قَتَلَ عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَبَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ، فَلَمْ يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَىْءٍ‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet sent a Sariya of spies and appointed 'Asim bin Thabit, the grandfather of 'Asim bin 'Umar bin Al-Khattab, as their leader. So they set out, and when they reached (a place) between 'Usfan and Mecca, they were mentioned to one of the branch tribes of Bani Hudhail called Lihyan. So, about one-hundred archers followed their traces till they (i.e. the archers) came to a journey station where they (i.e. 'Asim and his companions) had encamped and found stones of dates they had brought as journey food from Medina. The archers said, "These are the dates of Medina," and followed their traces till they took them over. When 'Asim and his companions were not able to go ahead, they went up a high place, and their pursuers encircled them and said, "You have a covenant and a promise that if you come down to us, we will not kill anyone of you." 'Asim said, "As for me, I will never come down on the security of an infidel. O Allah! Inform Your Prophet about us." So they fought with them till they killed 'Asim along with seven of his companions with arrows, and there remained Khubaib, Zaid and another man to whom they gave a promise and a covenant. So when the infidels gave them the covenant and promise, they came down. When they captured them, they opened the strings of their arrow bows and tied them with it. The third man who was with them said, "This is the first breach in the covenant," and refused to accompany them. They dragged him and tried to make him accompany them, but he refused, and they killed him. Then they proceeded on taking Khubaib and Zaid till they sold them in Mecca. The sons of Al-Harith bin 'Amr bin Naufal bought Khubaib. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amr on the day of Badr. Khubaib stayed with them for a while as a captive till they decided unanimously to kill him. (At that time) Khubaib borrowed a razor from one of the daughters of Al-Harith to shave his pubic hair. She gave it to him. She said later on, "I was heedless of a little baby of mine, who moved towards Khubaib, and when it reached him, he put it on his thigh. When I saw it, I got scared so much that Khubaib noticed my distress while he was carrying the razor in his hand. He said 'Are you afraid that I will kill it? Allah willing, I will never do that,' " Later on she used to say, "I have never seen a captive better than Khubaib Once I saw him eating from a bunch of grapes although at that time no fruits were available at Mecca, and he was fettered with iron chains, and in fact, it was nothing but food bestowed upon him by Allah." So they took him out of the Sanctuary (of Mecca) to kill him. He said, "Allow me to offer a two-Rak'at prayer." Then he went to them and said, "Had I not been afraid that you would think I was afraid of death, I would have prayed for a longer time." So it was Khubaib who first set the tradition of praying two Rakat before being executed. He then said, "O Allah! Count them one by one," and added, 'When I am being martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allah's Sake, because this death is in Allah's Cause. If He wishes, He will bless the cut limbs." Then 'Uqba bin Al-Harith got up and martyred him. The narrator added: The Quraish (infidels) sent some people to 'Asim in order to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for 'Asim had killed one of their chiefs on the day of Badr. But Allah sent a cloud of wasps which protected his body from their messengers who could not harm his body consequently.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے جاسوسی کےلیے ایک جماعت بھیجی اور اس کا امیر عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بنایا، جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا ہیں۔ یہ جماعت روانہ ہوئی اور جب عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچی تو قبیلہ ہذیل کے ایک قبیلے کو جسے بنو لحیان کہا جاتا تھا، ان کا علم ہوگیا اور قبیلہ کے تقریباً سو تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کے نشانات قدم کو تلاش کرتے ہوئے چلے۔آخر ایک ایسی جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں صحابہ کی اس جماعت نے پڑاؤ کیا تھا۔ وہاں ان کو کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو صحابہ مدینہ سے لائے تھے۔ قبیلہ والوں نے کہا کہ یہ تو یثرب کی کھجور (کی گھٹلی) ہے اب انہوں نے پھر تلاش شروع کی اور صحابہ کو پالیا۔ عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو صحابہ کی اس جماعت نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے وہاں پہنچ کر ٹیلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور صحابہ سے کہا کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اگر تم نے ہتھیار ڈال دیئے تو ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ اس پر عاصم رضی اللہ عنہ بولے کہ میں تو کسی کافر کی حفاظت و امن میں خود کو کسی صورت میں بھی نہیں دے سکتا۔ اے اللہ! ہمارے ساتھ پیش آنے والے حالات کی خبر اپنے نبی کو پہنچا دے۔ چنانچہ ان صحابہ نے ان سے قتال کیا اور عاصم اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ ان کے تیروں سے شہید ہوگئے۔ خبیب، زید اور ایک اور صحابی ان کے حملوں سے ابھی محفوظ تھے۔ قبیلہ والوں نے پھر حفاظت و امان کا یقین دلایا۔ یہ حضرات ان کی یقین دہانی پر اتر آئے۔ پھر جب قبیلہ والوں نے انہیں پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تو ان کی کمان کی تانت اتار کر ان صحابہ کو انہیں سے باندھ دیا۔ تیسرے صحابہ جو خبیب اور زید کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ پہلے تو قبیلہ والوں نے انہیں گھسیٹا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے زور لگاتے رہے لیکن جب وہ کسی طرح تیار نہ ہوئے تو انہیں وہیں قتل کردیا اور خبیب اور زید کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر انہیں مکہ میں لا کر بیچ دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو تو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا۔ وہ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی کی حیثیت سے رہے۔ جس وقت ان سب کا خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل پر اتفاق ہو چکا تو اتفاق سے انہیں دنوں حارث کی ایک لڑکی (زینب) سے انہوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا تو انہوں نے ان کو استرہ بھی دے دیا تھا۔ ان کا بیان تھا کہ میرا لڑکا میری غفلت میں خبیب رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ میں نے جب اسے اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی۔ انہوں نے میری گھبراہٹ کو جان لیا، استرہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا، کیا تمہیں اس کا خطرہ ہے کہ میں اس بچے کو قتل کردوں گا؟ ان شاءاللہ میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔ ان کا بیان تھا کہ خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر قیدی میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے انہیں انگور کا خوشہ کھاتے ہوئے دیکھا حالانکہ اس وقت مکہ میں کسی طرح کا پھل موجود نہیں تھا جبکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی تھے، تو وہ اللہ کی بھیجی ہوئی روزی تھی۔ پھر حارث کے بیٹے قتل کرنے کےلیے انہیں لے کر حرم کے حدود سے باہر گئے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو (انہوں نے اجازت دے دی اور)۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ان سے فرمایا کہ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں موت سے گھبرا گیا ہوں تو اور زیادہ نماز پڑھتا۔ خبیب رضی اللہ عنہ ہی پہلے وہ شخص ہیں جن سے قتل سے پہلے دو رکعت نماز کا طریقہ چلا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے لیے بددعا کی، اے اللہ! انہیں ایک ایک کرکے ہلاک کردے اور یہ اشعار پڑھے جب کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر اللہ کی راہ میں مجھے قتل کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ چاہے گا تو جسم کے ایک ایک کٹے ہوئے ٹکڑے میں برکت دے گا۔ پھر عقبہ بن حارث نے کھڑے ہوکر انہیں شہید کردیا اور قریش نے عاصم رضی اللہ عنہ کی لاش کےلیے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے قریش کے ایک بہت بڑے، سردار کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کی ایک فوج کو بادل کی طرح ان کے اوپر بھیجا اور ان بھڑوں نے ان کی لاش کو قریش کے آدمیوں سے محفوظ رکھا اور قریش کے بھیجے ہوئے یہ لوگ (ان کے پاس نہ پھٹک سکے) کچھ نہ کرسکے۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ الَّذِي قَتَلَ خُبَيْبًا هُوَ أَبُو سِرْوَعَةَ‏

Narrated By Jabir : The person who killed Khubaib was Abu Sarua (i.e. 'Uqba bin Al-Harith).

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو ابو سروعہ (عقبہ بن حارث ) نے شہید کیا تھا۔


حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَبْعِينَ رَجُلاً لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمُ الْقُرَّاءُ، فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ، عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُونَةَ، فَقَالَ الْقَوْمُ وَاللَّهِ مَا إِيَّاكُمْ أَرَدْنَا، إِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُونَ فِي حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَقَتَلُوهُمْ فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلاَةِ الْغَدَاةِ، وَذَلِكَ بَدْءُ الْقُنُوتِ وَمَا كُنَّا نَقْنُتُ‏.‏ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ وَسَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا عَنِ الْقُنُوتِ أَبَعْدَ الرُّكُوعِ، أَوْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ قَالَ لاَ بَلْ عِنْدَ فَرَاغٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ‏

Narrated By 'Abdul Aziz : Anas said, "The Prophet sent seventy men, called Al-Qurra 'for some purpose. The two groups of Bani Sulaim called Ri'l and Dhakwan, appeared to them near a well called Bir Ma'una. The people (i.e. Al-Qurra) said, 'By Allah, we have not come to harm you, but we are passing by you on our way to do something for the Prophet.' But (the infidels) killed them. The Prophet therefore invoked evil upon them for a month during the morning prayer. That was the beginning of Al Qunut and we used not to say Qunut before that." A man asked Anas about Al-Qunut, "Is it to be said after the Bowing (in the prayer) or after finishing the Recitation (i.e. before Bowing)?" Anas replied, "No, but (it is to be said) after finishing the Recitation."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ستر صحابہ کی ایک جماعت تبلیغ اسلام کےلیے بھیجی تھی۔ انہیں قراء کہا جاتا تھا۔ راستے میں بنو سلیم کے دو قبیلے رعل اور ذکوان نے ایک کنویں کے قریب ان کے ساتھ مزاحمت کی۔ یہ کنواں بئرمعونہ کے نام سے مشہور تھا۔ صحابہ نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم تمہارے خلاف، یہاں لڑنے نہیں آئے بلکہ ہمیں تو رسول اللہﷺ کی طرف سے ایک ضرورت پر مامور کیا گیا ہے۔ لیکن کفار کے ان قبیلوں نے تمام صحابہ کو شہیدکردیا۔ اس واقعہ کے بعد نبی ﷺ صبح کی نماز میں ان کےلیے ایک مہینہ تک بددعا کرتے رہے۔ اسی دن سے دعا قنوت کی ابتداء ہوئی، ورنہ اس سے پہلے ہم دعا قنوت نہیں پڑھا کرتے تھے اور عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ ایک صاحب (عاصم احول) نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ یہ دعا رکوع کے بعد پڑھی جائے گی یا قرآت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد؟ (رکوع سے پہلے) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں بلکہ قرآت قرآن سے فارغ ہونے کے بعد(رکوع سے پہلے)۔


حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنَ الْعَرَبِ

Narrated By Anas : Allah's Apostle said Al-Qunut for one month after the posture of Bowing, invoking evil upon some 'Arab tribes.

حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد ایک مہینہ تک قنوت پڑھی جس میں آپ ﷺ عرب کے قبائل (رعل وذکوان وغیرہ) کےلیے بددعا کرتے تھے۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رِعْلاً، وَذَكْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لَحْيَانَ اسْتَمَدُّوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى عَدُوٍّ، فَأَمَدَّهُمْ بِسَبْعِينَ مِنَ الأَنْصَارِ، كُنَّا نُسَمِّيهِمُ الْقُرَّاءَ فِي زَمَانِهِمْ، كَانُوا يَحْتَطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ، حَتَّى كَانُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ قَتَلُوهُمْ، وَغَدَرُوا بِهِمْ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو فِي الصُّبْحِ عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لَحْيَانَ‏.‏ قَالَ أَنَسٌ فَقَرَأْنَا فِيهِمْ قُرْآنًا ثُمِّ إِنَّ ذَلِكَ رُفِعَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا، أَنَّا لَقِينَا رَبَّنَا، فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا‏.‏ وَعَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثَهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَنَتَ شَهْرًا فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لَحْيَانَ‏ زَادَ خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ أُولَئِكَ السَّبْعِينَ، مِنَ الأَنْصَارِ قُتِلُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ، قُرْآنًا كِتَابًا‏.‏ نَحْوَهُ‏.‏

Narrated By Anas bin Malik : (The tribes of) Ril, Dhakwan, 'Usaiya and Bani Lihyan asked Allah's Apostle to provide them with some men to support them against their enemy. He therefore provided them with seventy men from the Ansar whom we used to call Al-Qurra' in their lifetime. They used to collect wood by daytime and pray at night. When they were at the well of Ma'una, the infidels killed them by betraying them. When this news reached the Prophet , he said Al-Qunut for one month In the morning prayer, invoking evil upon some of the 'Arab tribes, upon Ril, Dhakwan, 'Usaiya and Bani Libyan. We used to read a verse of the Qur'an revealed in their connection, but later the verse was cancelled. It was: "convey to our people on our behalf the information that we have met our Lord, and He is pleased with us, and has made us pleased." (Anas bin Malik added:) Allah's Prophet said Qunut for one month in the morning prayer, invoking evil upon some of the 'Arab tribes (namely), Ril, Dhakwan, Usaiya, and Bani Libyan. (Anas added:) Those seventy Ansari men were killed at the well of Mauna.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دشمنوں کے مقابل مدد چاہی۔ نبی کریم ﷺ نے ستر انصاری صحابہ کو ان کی کمک کے لیے روانہ کیا۔ ہم انہیں قراء کہا کرتے تھے۔ اپنی زندگی میں معاش کے لیے دن میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اور رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب یہ حضرات بئرمعونہ پر پہنچے تو ان قبیلے والوں نے انہیں دھوکا دیا اور انہیں شہید کردیا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے صبح کی نماز میں ایک مہینے تک عرب کے چند قبائل رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کےلیے بددعا کی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان صحابہ کے بارے میں قرآن میں (آیت نازل ہوئی اور) ہم اس کی تلاوت کرتے تھے۔ پھر وہ آیت منسوخ ہو گئی(آیت کا ترجمہ) ہماری طرف سے ہماری قوم (مسلمانوں) کو خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب کے پاس آ گئے ہیں۔ ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہمیں بھی (اپنی نعمتوں سے) اس نے خوش رکھا ہے۔ اور قتادہ سے روایت ہے ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہینے تک صبح کی نماز میں، عرب کے چند قبائل یعنی رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کے لیے بددعا کی تھی۔ دوسری روایت میں خلیفہ بن خیاط (امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ) نے یہ اضافہ کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ ستر صحابہ قبیلہ انصار سے تھے اور انہیں بئرمعونہ کے پاس شہید کر دیا گیا تھا۔اس حدیث میں قرآن سے مراد اللہ کی کتاب ہے ، اور یہ حدیث پہلی (عبد الاعلی) کی حدیث کی طرح ہے ۔


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ خَالَهُ أَخٌ لأُمِّ سُلَيْمٍ فِي سَبْعِينَ رَاكِبًا، وَكَانَ رَئِيسَ الْمُشْرِكِينَ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ خَيَّرَ بَيْنَ ثَلاَثِ خِصَالٍ فَقَالَ يَكُونُ لَكَ أَهْلُ السَّهْلِ، وَلِي أَهْلُ الْمَدَرِ، أَوْ أَكُونُ خَلِيفَتَكَ، أَوْ أَغْزُوكَ بِأَهْلِ غَطَفَانَ بِأَلْفٍ وَأَلْفٍ، فَطُعِنَ عَامِرٌ فِي بَيْتِ أُمِّ فُلاَنٍ فَقَالَ غُدَّةٌ كَغُدَّةِ الْبَكْرِ فِي بَيْتِ امْرَأَةٍ مِنْ آلِ فُلاَنٍ ائْتُونِي بِفَرَسِي‏.‏ فَمَاتَ عَلَى ظَهْرِ فَرَسِهِ، فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَيْمٍ هُوَ ‏{‏وَ‏}‏ رَجُلٌ أَعْرَجُ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلاَنٍ قَالَ كُونَا قَرِيبًا حَتَّى آتِيَهُمْ، فَإِنْ آمَنُونِي كُنْتُمْ، وَإِنْ قَتَلُونِي أَتَيْتُمْ أَصْحَابَكُمْ‏.‏ فَقَالَ أَتُؤْمِنُونِي أُبَلِّغْ رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ وَأَوْمَئُوا إِلَى رَجُلٍ، فَأَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ فَطَعَنَهُ ـ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ حَتَّى أَنْفَذَهُ ـ بِالرُّمْحِ، قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ‏.‏ فَلُحِقَ الرَّجُلُ، فَقُتِلُوا كُلُّهُمْ غَيْرَ الأَعْرَجِ كَانَ فِي رَأْسِ جَبَلٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْنَا، ثُمَّ كَانَ مِنَ الْمَنْسُوخِ إِنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا‏.‏ فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَيْهِمْ ثَلاَثِينَ صَبَاحًا، عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ وَعُصَيَّةَ، الَّذِينَ عَصَوُا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Anas : That the Prophet sent his uncle, the brother of Um Sulaim at the head of seventy riders. The chief of the pagans, 'Amir bin At-Tufail proposed three suggestions (to the Prophet) saying, "Choose one of three alternatives: (1) that the bedouins will be under your command and the townspeople will be under my command; (2) or that I will be your successor, (3) or otherwise I will attack you with two thousand from Bani Ghatafan." But 'Amir was infected with plague in the House of Um so-and-so. He said, "Shall I stay in the house of a lady from the family of so-and-so after having a (swelled) gland like that she-camel? Get me my horse." So he died on the back of his horse. Then Haram, the brother of Um Sulaim and a lame man along with another man from so-and-so (tribe) went towards the pagans (i.e. the tribe of 'Amir). Haram said (to his companions), "Stay near to me, for I will go to them. If they (i.e. infidels) should give me protection, you will be near to me, and if they should kill me, then you should go back to your companions. Then Haram went to them and said, "Will you give me protection so as to convey the message of Allah's Apostle ?" So, he started talking to them' but they signalled to a man (to kill him) and he went behind him and stabbed him (with a spear). He (i.e. Haram) said, "Allahu Akbar! I have succeeded, by the Lord of the Ka'ba!" The companion of Haram was pursued by the infidels, and then they (i.e. Haram's companions) were all killed except the lame man who was at the top of a mountain. Then Allah revealed to us a verse that was among the cancelled ones later on. It was: 'We have met our Lord and He is pleased with us and has made us pleased.' (After this event) the Prophet invoked evil on the infidels every morning for 30 days. He invoked evil upon the (tribes of) Ril, Dhakwan, Bani Lihyan and Usaiya who disobeyed Allah and His Apostle.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبیﷺ نے ان کے ماموں،حضرت ام سلیم کے بھائی کو ان ستر سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے نبیﷺ کے سامنے(شرارت اور تکبر سے) تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے کہا: یا تو یہ کیجئے کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی حکومت ہو اور شہری آبادی پر میری ہو یا پھر مجھے آپ کا جانشیں مقرر کیا جائے ورنہ پھر میں ہزاروں غطفانیوں کو لے کر آپ پر چڑھائی کردوں گا۔ (اس پر نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے بددعا کی) اور ام فلاں کے گھر میں وہ مرض طاعون میں گرفتار ہوا۔ کہنے لگا کہ اس فلاں کی عورت کے گھر کے جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے۔ میرا گھوڑا لاؤ۔ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مرگیا۔ بہرحال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنی فلاں سے تھا، آگے بڑھے۔ حرام نے (اپنے دونوں ساتھیوں سے بنو عامر تک پہنچ کر پہلے ہی) کہہ دیا کہ تم دونوں میرے قریب ہی کہیں رہنا۔ میں ان کے پاس پہلے جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امن دے دیا تو تم لوگ قریب ہی ہو اور اگر انہوں نے قتل کردیا تو آپ حضرات اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا۔ چنانچہ قبیلہ میں پہنچ کر انہوں نے ان سے کہا، کیا تم مجھے امان دیتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا پیغام تمہیں پہنچا دوں؟ پھر وہ آپ ﷺ کا پیغام انہیں پہنچانے لگے تو قبیلہ والوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے آکر ان پر نیزہ سے وار کیا۔ ہمام نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ نیزہ آرپار ہوگیا تھا۔ حرام کی زبان سے اس وقت نکلا اللہ اکبر، کعبہ کے رب کی قسم! میں نے تو اپنی مراد حاصل کرلی۔ اس کے بعد ان میں سے ایک صحابی کو بھی مشرکین نے پکڑ لیا (جو حرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور انہیں بھی شہید کردیا) پھر اس مہم کے تمام صحابہ کو شہید کردیا۔ صرف لنگڑے صحابی بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے۔ ان شہداء کی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی، بعد میں وہ آیت منسوخ ہوگئی (آیت یہ تھی) «إنا قد لقينا ربنا فرضي عنا وأرضانا‏.‏» ۔ نبی ﷺ نے ان قبائل رعل، ذکوان، بنو لحیان اور عصیہ کےلیے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی تھی تیس دن تک صبح کی نماز میں بددعا کی۔


حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ لَمَّا طُعِنَ حَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ ـ وَكَانَ خَالَهُ ـ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ قَالَ بِالدَّمِ هَكَذَا، فَنَضَحَهُ عَلَى وَجْهِهِ وَرَأْسِهِ، ثُمَّ قَالَ فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ

Narrated By Anas bin Malik : That when Haram bin Milhan, his uncle was stabbed on the day of Bir Ma'una he sprinkled his blood over his face and his head this way and then said, "I have succeeded, by the Lord of the Ka'ba."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جب حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو جو ان کے ماموں تھے بئرمعونہ کے موقع پر زخمی کیا گیا تو زخم پر سے خون کو ہاتھ میں لے کر انہوں نے اپنے چہرہ اور سر پر لگا لیا اور کہا:"فزت و رب الکعبۃ" کعبہ کے رب کی قسم! میری مراد حاصل ہوگئی۔


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتِ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَبُو بَكْرٍ فِي الْخُرُوجِ حِينَ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الأَذَى، فَقَالَ لَهُ ‏"‏ أَقِمْ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَطْمَعُ أَنْ يُؤْذَنَ لَكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ إِنِّي لأَرْجُو ذَلِكَ ‏"‏ قَالَتْ فَانْتَظَرَهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ ظُهْرًا فَنَادَاهُ فَقَالَ ‏"‏ أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَاىَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَشَعَرْتَ أَنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الصُّحْبَةُ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الصُّحْبَةُ ‏"‏‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي نَاقَتَانِ قَدْ كُنْتُ أَعْدَدْتُهُمَا لِلْخُرُوجِ‏.‏ فَأَعْطَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم إِحْدَاهُمَا وَهْىَ الْجَدْعَاءُ، فَرَكِبَا فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا الْغَارَ، وَهْوَ بِثَوْرٍ، فَتَوَارَيَا فِيهِ، فَكَانَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ غُلاَمًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ أَخُو عَائِشَةَ لأُمِّهَا، وَكَانَتْ لأَبِي بَكْرٍ مِنْحَةٌ، فَكَانَ يَرُوحُ بِهَا وَيَغْدُو عَلَيْهِمْ، وَيُصْبِحُ فَيَدَّلِجُ إِلَيْهِمَا ثُمَّ يَسْرَحُ، فَلاَ يَفْطُنُ بِهِ أَحَدٌ مِنَ الرِّعَاءِ، فَلَمَّا خَرَجَ خَرَجَ مَعَهُمَا يُعْقِبَانِهِ حَتَّى قَدِمَا الْمَدِينَةَ، فَقُتِلَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ‏.‏ وَعَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ فَأَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ لَمَّا قُتِلَ الَّذِينَ بِبِئْرِ مَعُونَةَ وَأُسِرَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ قَالَ لَهُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ مَنْ هَذَا فَأَشَارَ إِلَى قَتِيلٍ، فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ هَذَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ‏.‏ فَقَالَ لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى إِنِّي لأَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الأَرْضِ، ثُمَّ وُضِعَ‏.‏ فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم خَبَرُهُمْ فَنَعَاهُمْ فَقَالَ ‏"‏ إِنَّ أَصْحَابَكُمْ قَدْ أُصِيبُوا، وَإِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا رَبَّهُمْ، فَقَالُوا رَبَّنَا أَخْبِرْ عَنَّا إِخْوَانَنَا بِمَا رَضِينَا عَنْكَ وَرَضِيتَ عَنَّا‏.‏ فَأَخْبَرَهُمْ عَنْهُمْ ‏"‏‏.‏ وَأُصِيبَ يَوْمَئِذٍ فِيهِمْ عُرْوَةُ بْنُ أَسْمَاءَ بْنِ الصَّلْتِ، فَسُمِّيَ عُرْوَةُ بِهِ، وَمُنْذِرُ بْنُ عَمْرٍو سُمِّيَ بِهِ مُنْذِرًا‏

Narrated By 'Aisha : Abu Bakr asked the Prophet to allow him to go out (of Mecca) when he was greatly annoyed (by the infidels). But the Prophet said to him, ''Wait." Abu Bakr said, O Allah's Apostle! Do you hope that you will be allowed (to migrate)?" Allah's Apostle replied, "I hope so." So Abu Bakr waited for him till one day Allah's Apostle came at noon time and addressed him saying "Let whoever is present with you, now leave you." Abu Bakr said, "None is present but my two daughters." The Prophet said, "Have you noticed that I have been allowed to go out (to migrate)?" Abu Bakr said, "O Allah's Apostle, I would like to accompany you." The Prophet said, "You will accompany me." Abu Bakr said, "O Allah's Apostle! I have got two she-camels which I had prepared and kept ready for (our) going out." So he gave one of the two (she-camels) to the Prophet and it was Al-Jad'a. They both rode and proceeded till they reached the Cave at the mountain of Thaur where they hid themselves. Amir bin Fuhaira was the slave of 'Abdullah bin Al-Tufail bin Sakhbara 'Aisha's brother from her mother's side. Abu Bakr had a milch she-camel. Amir used to go with it (i.e. the milch she-camel) in the afternoon and come back to them before noon by setting out towards them in the early morning when it was still dark and then he would take it to the pasture so that none of the shepherds would be aware of his job. When the Prophet (and Abu Bakr) went away (from the Cave), he (i.e. 'Amir) too went along with them and they both used to make him ride at the back of their camels in turns till they reached Medina. 'Amir bin Fuhaira was martyred on the day of Bir Ma'una. Narrated 'Urwa: When those (Muslims) at Bir Ma'una were martyred and 'Amr bin Umaiya Ad-Damri was taken prisoner, 'Amir bin At-Tufail, pointing at a killed person, asked Amr, "Who is this?" 'Amr bin Umaiya said to him, "He is 'Amir bin Fuhaira." 'Amir bin At-Tufail said, "I saw him lifted to the sky after he was killed till I saw the sky between him and the earth, and then he was brought down upon the earth. Then the news of the killed Muslims reached the Prophet and he announced the news of their death saying, "Your companions (of Bir Ma'una) have been killed, and they have asked their Lord saying, 'O our Lord! Inform our brothers about us as we are pleased with You and You are pleased with us." So Allah informed them (i.e. the Prophet and his companions) about them (i.e. martyrs of Bir Mauna). On that day, 'Urwa bin Asma bin As-Salt who was one of them, was killed, and Urwa (bin Az-Zubair) was named after 'Urwa bin Asma and Mundhir (bin AzZubair) was named after Mundhir bin 'Amr (who had also been martyred on that day).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب مکہ میں مشرکین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سخت تکلیف دینے لگے تو رسول اللہ ﷺ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت چاہی۔نبیﷺنے فرمایا کہ ابھی یہیں ٹھہرے رہو۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا آپ بھی (اللہ تعالیٰ سے) اپنے لیے ہجرت کی اجازت کے امیدوار ہیں۔آپ ﷺنے فرمایا: ہاں مجھے اس کی امید ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ انتظار کرنے لگے۔ آخر نبیﷺ ایک دن ظہر کے وقت (ہمارے گھر) تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارا اور فرمایا کہ تخلیہ کرلو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صرف میری دونوں لڑکیاں یہاں موجود ہیں۔نبیﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا مجھے بھی ساتھ چلنے کی سعادت حاصل ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تم بھی میرے ساتھ چلوگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت ہی کی نیت سے تیار کر رکھا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک اونٹنی جس کا نام الجدعا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ دونوں بزرگ سوار ہوکر روانہ ہوئے حتی کہ غار ثور تک پہنچ گئے اور اس میں جا کر دونوں پوشیدہ ہوگئے۔ عامر بن فہیرہ جو عبداللہ بن طفیل بن سنجرہ کے غلام، عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھائی تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک دودھ دینے والی اونٹنی کو صبح و شام چرانے کےلیے لے جاتے۔ اور رات کے آخری حصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے۔ اور پھر اسے چرانے کےلیے لے کر روانہ ہو جاتے۔ اس طرح کوئی چرواہا اس پر آگاہ نہ ہوسکا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار سے نکل کر روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے عامر بن فہیرہ بھی پہنچے تھے۔ آخر دونوں حضرات مدینہ پہنچ گئے۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوگئے تھے۔ ابواسامہ سے روایت ہے، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ جب بئرمعونہ کے حادثہ میں قراء حضرات شہید کئے گئے اور عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ قید کئے گئے تو عامر بن طفیل نے ایک مقتول کی طرف اشارہ کرکے پوچھا یہ کون ہیں ؟تو عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ یہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس پر عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ شہید ہوجانے کے بعد ان کی لاش آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ میں نے اوپر نظر اٹھائی تو لاش آسمان و زمین کے درمیان لٹک رہی تھی۔ پھر وہ زمین پر رکھ دی گئی۔ ان شہداء کے متعلق نبی ﷺ کو جب اطلاع ملی تو آپﷺ نے ان کی شہادت کی خبر صحابہ کو دی اور فرمایا کہ تمہارے ساتھی شہید کردیئے گئے ہیں اور شہادت کے بعد انہوں نے اپنے رب کے حضور میں عرض کیا کہ اے ہمارے رب! ہمارے(مسلمان) بھائیوں کو اس کی اطلاع دیدے کہ ہم تیرے پاس پہنچ کر کس طرح خوش ہیں اور تو بھی ہم سے راضی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید کے ذریعہ) مسلمانوں کو اس کی اطلاع دے دی۔ اسی حادثہ میں عروہ بن اسماء بن صلت رضی اللہ عنہما بھی شہید ہوئے تھے(پھر زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جب پیدا ہوئے) تو ان کا نام عروہ، انہیں عروہ بن اسماء رضی اللہ عنہما کے نام پر رکھا گیا۔ منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ اس حادثہ میں شہید ہوئے تھے۔ (اور زبیر رضی اللہ عنہ کے دوسرے صاحب زادے کا نام) منذر انہیں کے نام پر رکھا گیا تھا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَنَتَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الرُّكُوعِ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَيَقُولُ ‏"‏ عُصَيَّةُ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ‏"‏‏

Narrated By Anas : The Prophet said Al-Qunut after Bowing (i.e. Ar-Ruku') for one month, invoking evil upon (the tribes of) Ril and Dhakwan. He used to say, "Usaiya disobeyed Allah and His Apostle."

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبیﷺنے رکوع کے بعد ایک ماہ تک قنوت پڑھی، قبیلہ رعل اور ذکوان پر بد دعا کرتے تھے۔ اور (قنوت میں ) یہ فرمارہے تھے :" عصیہ قبیلہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی"۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الَّذِينَ قَتَلُوا ـ يَعْنِي ـ أَصْحَابَهُ بِبِئْرِ مَعُونَةَ ثَلاَثِينَ صَبَاحًا حِينَ يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَلِحْيَانَ وَعُصَيَّةَ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ أَنَسٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الَّذِينَ قُتِلُوا أَصْحَابِ بِئْرِ مَعُونَةَ قُرْآنًا قَرَأْنَاهُ حَتَّى نُسِخَ بَعْدُ بَلِّغُوا قَوْمَنَا فَقَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ‏.

Narrated By Anas bin Malik : The Prophet invoked evil upon those (people) who killed his companions at Bir Mauna for 30 days (in the morning prayer). He invoked evil upon (tribes of) Ril, Lihyan and Usaiya who disobeyed Allah and His Apostle. Allah revealed a Qur'anic Verse to His Prophet regarding those who had been killed, i.e. the Muslims killed at Bir Ma'una, and we recited the Verse till later it was cancelled. (The Verse was:) 'Inform our people that we have met our Lord, and He is pleased with us, and we are pleased with Him."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبیﷺ نے تیس۳۰ دن تک ان لوگوں کےلئے جنہوں نے بئر معونہ پر آپﷺ کے اصحاب کو مار ڈالا یعنی رعل اور ذکوان اور لحیان قبیلوں کےلئے بد دعا کی اور فرمایا: عصیہ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ پر ان لوگوں کے بارے میں جو بئر معونہ پر مارے گئے قرآن کی آیتیں اتاریں لیکن بعد میں ان کا پڑھنا موقوف ہوگیا وہ آیتیں یہ ہیں ہماری قوم کو یہ پیغام دو ہم اپنے مالک سے مل چکے وہ ہم سے راضی ہوا،ہم اس سے خوش۔


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الْقُنُوتِ، فِي الصَّلاَةِ فَقَالَ نَعَمْ‏.‏ فَقُلْتُ كَانَ قَبْلَ الرُّكُوعِ أَوْ بَعْدَهُ قَالَ قَبْلَهُ‏.‏ قُلْتُ فَإِنَّ فُلاَنًا أَخْبَرَنِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَهُ، قَالَ كَذَبَ إِنَّمَا قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الرُّكُوعِ شَهْرًا، أَنَّهُ كَانَ بَعَثَ نَاسًا يُقَالُ لَهُمُ الْقُرَّاءُ، وَهُمْ سَبْعُونَ رَجُلاً إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَبَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَهْدٌ قِبَلَهُمْ، فَظَهَرَ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَهْدٌ، فَقَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الرُّكُوعِ شَهْرًا يَدْعُو عَلَيْهِمْ‏

Narrated By Asim Al-Ahwal : I asked Anas bin Malik regarding Al-Qunut during the prayer. Anas replied, "Yes (Al-Qunut was said by the Prophet in the prayer)." I said, "Is it before Bowing or after Bowing?" Anas replied, "(It was said) before (Bowing)." I said, "So-and-so informed me that you told him that it was said after Bowing." Anas replied, "He was mistaken, for Allah's Apostle said Al-Qunut after Bowing for one month. The Prophet had sent some people called Al-Qurra who were seventy in number, to some pagan people who had concluded a peace treaty with Allah's Apostle. But those who had concluded the treaty with Allah's Apostle violated the treaty (and martyred all the seventy men). So Allah's Apostle said Al-Qunut after Bowing (in the prayer) for one month, invoking evil upon them.

عاصم بن احول بن سلیمان نے بیان کیاکہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد؟ انہوں نے کہا: رکوع سے پہلے۔ میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب نے آپ ہی کا نام لے کر مجھے بتایا کہ قنوت رکوع کے بعد۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہوں نے غلط کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینے تک قنوت پڑھی۔ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو جو قاریوں کے نام سے مشہور تھی جو ستر کی تعداد میں تھے، مشرکین کے بعض قبائل کے یہاں بھیجا تھا۔ مشرکین کے ان قبائل نے نبی کریم ﷺ کو ان صحابہ کے بارے میں پہلے حفظ و امان کا یقین دلایا تھا لیکن بعد میں یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس جماعت پر غالب آ گئے (اور غداری کی اور انہیں شہید کردیا) رسول اللہ ﷺ نے اسی موقع پر رکوع کے بعد ایک مہینے تک قنوت پڑھی تھی اور اس میں ان مشرکین کےلیے بددعا کی تھی۔

Chapter No: 30

باب غَزْوَةُ الْخَنْدَقِ وَهْىَ الأَحْزَابُ

The Ghazwa of Al-Khandaq which is called Al-Ahzab Battle.

باب: جنگ خندق کا قصّہ جس کو جنگ احزاب بھی کہتے ہیں۔

قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ كَانَتْ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ‏

Musa bin Uqba said, "(This battle took place) in the month of Shawwal in the fourth year of the Islamic calendar."

موسٰی بن عقبہ نے کہا جنگ خندق شوال ؁۴ھ میں ہوئی (ابن اسحاق نے کہا ؁۵ھ میں ہوئی)۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهْوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يُجِزْهُ، وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهْوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَأَجَازَهُ‏

Narrated By Ibn Umar : That the Prophet inspected him on the day of Uhud while he was fourteen years old, and the Prophet did not allow him to take part in the battle. He was inspected again by the Prophet on the day of Al-Khandaq (i.e. battle of the Trench) while he was fifteen years old, and the Prophet allowed him to take Part in the battle.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے غزوۂ احد کے موقع پر اپنے آپ کو بھرتی ہونے کےلیے پیش کیا تھا تو آپﷺنے انہیں اجازت نہیں دی تھی ۔ اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی۔ اور غزوۂ خندق کے موقع پر جب خود کو بھرتی کےلیے پیش کیا تو آپ ﷺنے اجازت دی جبکہ ان کی عمر اس وقت پندرہ برس تھی۔


حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْخَنْدَقِ، وَهُمْ يَحْفِرُونَ، وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَادِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَهْ، فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ ‏"

Narrated By Sahl bin Sad : We were with Allah's Apostle in the Trench, and some were digging the trench while we were carrying the earth on our shoulders. Allah's Apostle said, 'O Allah! There is no life except the life of the Hereafter, so please forgive the Emigrants and the Ansar."

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺکے ساتھ خندق میں تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم خندق کھود رہے تھے اور مٹی ہم اپنے کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر نکال رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہﷺ نے دعا کی «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاغفر للمهاجرين والأنصار» اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی بس آرام کی زندگی ہے۔ پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ حُمَيْدٍ، سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْخَنْدَقِ، فَإِذَا الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ، فَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ عَبِيدٌ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ النَّصَبِ وَالْجُوعِ قَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ ‏"‏ فَقَالُوا مُجِيبِينَ لَهُ نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدَا

Narrated By Anas : Allah's Apostle went out towards the Khandaq (i.e. Trench) and saw the Emigrants and the Ansar digging the trench in the cold morning. They had no slaves to do that (work) for them. When the Prophet saw their hardship and hunger, he said, 'O Allah! The real life is the life of the Hereafter, so please forgive Ansar and the Emigrants." They said in reply to him, "We are those who have given the Pledge of allegiances to Muhammad for to observe Jihad as long as we live."

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسو ل اللہﷺ خندق کی طرف تشریف لے گئے۔ آپﷺنے دیکھا کہ مہاجرین اور انصار سردی میں صبح سویرے ہی خندق کھود رہے ہیں۔ ان کے پاس غلام نہیں تھے کہ ان کے بجائے وہ اس کام کو انجام دیتے۔ جب آپﷺ نے ان کی اس مشقت اور بھوک کو دیکھا تو دعا کی «اللهم إن العيش عيش الآخرة. فاغفر للأنصار والمهاجره» اے اللہ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے۔ پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے جواب میں کہا «نحن الذين بايعوا محمدا *** على الجهاد ما بقينا أبدا» ہم ہی ہیں جنہوں نے محمد ﷺسے جہاد کرنے کےلیے بیعت کی ہے۔ جب تک ہماری جان میں جان ہے۔


حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَعَلَ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ حَوْلَ الْمَدِينَةِ، وَيَنْقُلُونَ التُّرَابَ عَلَى مُتُونِهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا عَلَى الإِسْلاَمِ مَا بَقِينَا أَبَدَا قَالَ يَقُولُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يُجِيبُهُمُ ‏"‏ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لاَ خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُ الآخِرَهْ، فَبَارِكْ فِي الأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ ‏"‏‏.‏ قَالَ يُؤْتَوْنَ بِمِلْءِ كَفَّى مِنَ الشَّعِيرِ فَيُصْنَعُ لَهُمْ بِإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ تُوضَعُ بَيْنَ يَدَىِ الْقَوْمِ، وَالْقَوْمُ جِيَاعٌ، وَهْىَ بَشِعَةٌ فِي الْحَلْقِ وَلَهَا رِيحٌ مُنْتِنٌ‏

Narrated By Anas : Al-Muhajirun (i.e. the Emigrants) and the Ansar were digging the trench around Medina and were carrying the earth on their backs while saying, "We are those who have given the pledge of allegiance to Muhammad for Islam as long as we live." The Prophet said in reply to their saying, "O Allah! There is no goodness except the goodness of the Hereafter; so please grant Your Blessing to the Ansar and the Emigrants." The people used to bring a handful of barley, and a meal used to be prepared thereof by cooking it with a cooking material (i.e. oil, fat and butter having a change in colour and smell) and it used to be presented to the people (i.e. workers) who were hungry, and it used to stick to their throats and had a nasty smell.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: مدینہ کے گرد مہاجرین و انصار خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے اور مٹی اپنی پیٹھ پر اٹھانے لگے۔ اس وقت وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے «نحن الذين بايعوا محمدا *** على الأسلام ما بقينا أبدا» ہم نے ہی محمدﷺسے اسلام پر بیعت کی ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر نبی ﷺنے دعا کی«اللهم إنه لا خير إلا خير الآخرة. فبارك في الأنصار والمهاجره» اے اللہ! خیر تو صرف آخرت ہی کی خیر ہے۔ پس انصار اور مہاجرین کو تو برکت عطا فرما۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مٹھی جَو آتا اور ان صحابہ کےلیے ایسے روغن میں جس کا مزہ بھی بگڑ چکا ہوتا ملاکر پکا دیا جاتا۔ یہی کھانا ان صحابہ کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ صحابہ بھوکے ہوتے، یہ ان کے حلق میں چپکتا اور اس میں بدبو ہوتی۔ (گویا اس وقت ان کی خوراک کا بھی یہ حال تھا)


حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَتَيْتُ جَابِرًا ـ رضى الله عنه ـ فَقَالَ إِنَّا يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيدَةٌ، فَجَاءُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ، فَقَالَ ‏"‏ أَنَا نَازِلٌ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ، وَلَبِثْنَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ لاَ نَذُوقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ، فَعَادَ كَثِيبًا أَهْيَلَ أَوْ أَهْيَمَ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي إِلَى الْبَيْتِ‏.‏ فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِي رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم شَيْئًا، مَا كَانَ فِي ذَلِكَ صَبْرٌ، فَعِنْدَكِ شَىْءٌ قَالَتْ عِنْدِي شَعِيرٌ وَعَنَاقٌ‏.‏ فَذَبَحْتُ الْعَنَاقَ وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ، حَتَّى جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَةِ، ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَالْعَجِينُ قَدِ انْكَسَرَ، وَالْبُرْمَةُ بَيْنَ الأَثَافِيِّ قَدْ كَادَتْ أَنْ تَنْضَجَ فَقُلْتُ طُعَيِّمٌ لِي، فَقُمْ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ كَمْ هُوَ ‏"‏‏.‏ فَذَكَرْتُ لَهُ، قَالَ ‏"‏ كَثِيرٌ طَيِّبٌ ‏"‏‏.‏ قَالَ ‏"‏ قُلْ لَهَا لاَ تَنْزِعُ الْبُرْمَةَ وَلاَ الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ قُومُوا ‏"‏‏.‏ فَقَامَ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ قَالَ وَيْحَكِ جَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ وَمَنْ مَعَهُمْ‏.‏ قَالَتْ هَلْ سَأَلَكَ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ ادْخُلُوا وَلاَ تَضَاغَطُوا ‏"‏‏.‏ فَجَعَلَ يَكْسِرُ الْخُبْزَ وَيَجْعَلُ عَلَيْهِ اللَّحْمَ، وَيُخَمِّرُ الْبُرْمَةَ وَالتَّنُّورَ إِذَا أَخَذَ مِنْهُ، وَيُقَرِّبُ إِلَى أَصْحَابِهِ ثُمَّ يَنْزِعُ، فَلَمْ يَزَلْ يَكْسِرُ الْخُبْزَ وَيَغْرِفُ حَتَّى شَبِعُوا وَبَقِيَ بَقِيَّةٌ قَالَ ‏"‏ كُلِي هَذَا وَأَهْدِي، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْهُمْ مَجَاعَةٌ ‏"

Narrated By Jabir : We were digging (the trench) on the day of (Al-Khandaq (i.e. Trench)) and we came across a big solid rock. We went to the Prophet and said, "Here is a rock appearing across the trench." He said, "I am coming down." Then he got up, and a stone was tied to his belly for we had not eaten anything for three days. So the Prophet took the spade and struck the big solid rock and it became like sand. I said, "O Allah's Apostle! Allow me to go home." (When the Prophet allowed me) I said to my wife, "I saw the Prophet in a state that I cannot treat lightly. Have you got something (for him to eat?" She replied, "I have barley and a she goat." So I slaughtered the she-kid and she ground the barley; then we put the meat in the earthenware cooking pot. Then I came to the Prophet when the dough had become soft and fermented and (the meat in) the pot over the stone trivet had nearly been well-cooked, and said, "I have got a little food prepared, so get up O Allah's Apostle, you and one or two men along with you (for the food)." The Prophet asked, "How much is that food?" I told him about it. He said, "It is abundant and good. Tell your wife not to remove the earthenware pot from the fire and not to take out any bread from the oven till I reach there." Then he said (to all his companions), "Get up." So the Muhajirn (i.e. Emigrants) and the Ansar got up. When I came to my wife, I said, "Allah's Mercy be upon you! The Prophet came along with the Muhajirin and the Ansar and those who were present with them." She said, "Did the Prophet ask you (how much food you had)?" I replied, "Yes." Then the Prophet said, "Enter and do not throng." The Prophet started cutting the bread (into pieces) and put the cooked meat over it. He covered the earthenware pot and the oven whenever he took something out of them. He would give the food to his companions and take the meat out of the pot. He went on cutting the bread and scooping the meat (for his companions) till they all ate their fill, and even then, some food remained. Then the Prophet said (to my wife), "Eat and present to others as the people are struck with hunger."

ایمن حبشی سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی (جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اس لیے خندق کی کھدائی میں رکاوٹ پیدا ہوگئی) صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺسے عرض کیا کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہو گئی ہے۔ آپﷺنے فرمایا کہ میں اندر اترتا ہوں۔ چنانچہ آپﷺ کھڑے ہوئے اور اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے) آپ کا پیٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور چٹان پر اس سے مارا۔ چٹان (ایک ہی ضرب میں) بالو کے ڈھیر کی طرح بہہ گئی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجیئے۔ (گھر آ کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم ﷺ کو (فاقوں کی وجہ سے) اس حالت میں دیکھا کہ صبر نہ ہوسکا۔ کیا تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے۔ پھر گوشت کو ہم نے چولھے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آٹا گوندھا جاچکا تھا اور گوشت چولھے پر پکنے کے قریب تھا۔ نبی کریم ﷺ سے میں نے عرض کیا گھر کھانے کےلیے مختصر کھانا تیار ہے۔ یا رسول اللہ! آپ اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کو لے کر تشریف لے چلیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنا ہے؟ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بہت ہے اور نہایت عمدہ و طیب ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سے روٹی نکالیں میں ابھی آرہا ہوں۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ سب لوگ چلیں۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرین تیار ہوگئے۔ جب جابر رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے انہوں نے کہا اب کیا ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ تو تمام مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا، نبیﷺ نے آپ سے کچھ پوچھا بھی تھا؟ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اندر داخل ہوجاؤ لیکن اژدہام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپﷺ روٹی کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے۔ ہانڈی اور تنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آپ ﷺنے اسے لیا اور صحابہ کے قریب کردیا۔ پھر آپﷺ نے گوشت اور روٹی نکالی۔ اس طرح آپ ﷺ برابر روٹی چورا کرتے جاتے اور گوشت اس میں ڈالتے جاتے۔ یہاں تک کہ تمام صحابہ سیر ہوگئے اور کھانا بچ بھی گیا۔ آخر میں آپﷺ نے (جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی سے) فرمایا کہ اب یہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلا ہیں۔


حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم خَمَصًا شَدِيدًا، فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ هَلْ عِنْدَكِ شَىْءٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَمَصًا شَدِيدًا‏.‏ فَأَخْرَجَتْ إِلَىَّ جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا، وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي، وَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا، ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ لاَ تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِمَنْ مَعَهُ‏.‏ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ‏.‏ فَصَاحَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ، إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا فَحَىَّ هَلاً بِكُمْ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ، وَلاَ تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ ‏"‏‏.‏ فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي، فَقَالَتْ بِكَ وَبِكَ‏.‏ فَقُلْتُ قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ‏.‏ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا، فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلاَ تُنْزِلُوهَا‏"‏، وَهُمْ أَلْفٌ، فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرَفُوا، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ كَمَا هِيَ، وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَزُ كَمَا هُوَ‏.

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : When the Trench was dug, I saw the Prophet in the state of severe hunger. So I returned to my wife and said, "Have you got anything (to eat), for I have seen Allah's Apostle in a state of severe hunger." She brought out for me, a bag containing one Sa of barley, and we had a domestic she animal (i.e. a kid) which I slaughtered then, and my wife ground the barley and she finished at the time I finished my job (i.e. slaughtering the kid). Then I cut the meat into pieces and put it in an earthenware (cooking) pot, and returned to Allah's Apostle. My wife said, "Do not disgrace me in front of Allah's Apostle and those who are with him." So I went to him and said to him secretly, "O Allah's Apostle! I have slaughtered a she-animal (i.e. kid) of ours, and we have ground a Sa of barley which was with us. So please come, you and another person along with you." The Prophet raised his voice and said, "O people of Trench ! Jabir has prepared a meal so let us go." Allah's Apostle said to me, "Don't put down your earthenware meat pot (from the fireplace) or bake your dough till I come." So I came (to my house) and Allah's Apostle too, came, proceeding before the people. When I came to my wife, she said, "May Allah do so-and-so to you." I said, "I have told the Prophet of what you said." Then she brought out to him (i.e. the Prophet the dough, and he spat in it and invoked for Allah's Blessings in it. Then he proceeded towards our earthenware meat-pot and spat in it and invoked for Allah's Blessings in it. Then he said (to my wife). Call a lady-baker to bake along with you and keep on taking out scoops from your earthenware meat-pot, and do not put it down from its fireplace." They were one-thousand (who took their meals), and by Allah they all ate, and when they left the food and went away, our earthenware pot was still bubbling (full of meat) as if it had not decreased, and our dough was still being baked as if nothing had been taken from it.

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جارہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبیﷺ انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا: کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نبی ﷺانتہائی بھوکے ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا اور نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کردی تھی کہ نبیﷺ اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپﷺ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم نے ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کرلیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لےکر تشریف لے چلیں۔ آپ ﷺ نے بہت بلند آواز سے فرمایا کہ اے اہل خندق! جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبیﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور تب آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ ﷺبھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے نبیﷺ کے سامنے عرض کردیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گوندھا ہوا آٹا نکالا اور آپﷺنے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: کہ اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اورگوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (سیر ہوکر) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہوگئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔


حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها ‏{‏إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ‏}‏ قَالَتْ كَانَ ذَاكَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ‏

Narrated By 'Aisha : As regards the following Qur'anic Verse: "When they came on you from above and from below you (from east and west of the valley) and when the eyes grew wild and the hearts reached up to the throats..." (33.10) That happened on the day of Al-Khandaq (i.e. Trench).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا: «إذا جاؤوكم من فوقكم ومن أسفل منكم وإذ زاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر» جب مشرکین تمہارے بالائی علاقہ سے اور تمہارے نشیبی علاقہ سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب مارے ڈر کے آنکھیں چکا چوند ہوگئی تھیں اور دل حلق تک آگئے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ صورت حال غزوۂ خندق کےوقت پیش آئی تھی۔


حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَنْقُلُ التُّرَابَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى أَغْمَرَ بَطْنَهُ أَوِ اغْبَرَّ بَطْنُهُ يَقُولُ وَاللَّهِ لَوْلاَ اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا إِنَّ الأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ أَبَيْنَا أَبَيْنَا‏

Narrated By Al-Bara : The Prophet was carrying earth on the day of Al-Khandaq till his abdomen was fully covered with dust, and he was saying, "By Allah, without Allah we would not have been guided, neither would we have given in charity, nor would we have prayed. So (O Allah), please send Sakina (i.e. calmness) upon us, and make our feet firm if we meet the enemy as the enemy have rebelled against us, and if they intended affliction, (i.e. want to frighten us and fight against us then we would not flee but withstand them)." The Prophet used to raise his voice saying, "Abaina! Abaina! (i.e. would not, we would not)."

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوۂ خندق میں رسول اللہ ﷺ مٹی اٹھا اٹھا کر لارہے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کا بطن مبارک غبار سے اٹ گیا تھا۔ نبیﷺ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا۔ نہ ہم صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے پس تو ہمارے دلوں پر سکینت و طمانیت نازل فرما اور اگر ہماری کفار سے مڈبھیڑ ہوجائے تو ہمیں ثابت قدمی عنایت فرما۔ بلاشبہ ان لوگوں(مکہ والوں) نے ہم پر زیادتی کی ہے۔ جب انہوں نے فتنے کا ارادہ کیا تو ہم نےصاف انکار کردیا۔ ہم نے صاف انکار کردیا ، ہم نے صاف انکار کردیا ، یہ کہتے ہوئے آپ ﷺکی آواز بلند ہوجاتی تھی۔


حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي الْحَكَمُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رَضِيَ الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ ‏"‏‏

Narrated By Ibn Abbas : The Prophet said, "I have been made victorious by As-Saba (i.e. an easterly wind) and the Ad nation was destroyed by Ad-Dabur (i.e. a westerly wind)."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺنے فرمایا: باد صبا کے ذریعے سے میری مدد کی گئی، اور قوم عاد کو دبور ہوا سے ہلاک کیا گیا۔ (مشرق سے چلنے والی ہوا "باد صبا" کہلاتی ہے ،اور مغرب سے چلنے والی ہوا "دبور" کہلاتی ہے)


حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، يُحَدِّثُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الأَحْزَابِ، وَخَنْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَأَيْتُهُ يَنْقُلُ مِنْ تُرَابِ الْخَنْدَقِ حَتَّى وَارَى عَنِّي الْغُبَارُ جِلْدَةَ بَطْنِهِ، وَكَانَ كَثِيرَ الشَّعَرِ، فَسَمِعْتُهُ يَرْتَجِزُ بِكَلِمَاتِ ابْنِ رَوَاحَةَ، وَهْوَ يَنْقُلُ مِنَ التُّرَابِ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا إِنَّ الأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا قَالَ ثُمَّ يَمُدُّ صَوْتَهُ بِآخِرِهَا‏

Narrated By Al-Bara : When it was the day of Al-Ahzab (i.e. the clans) and Allah's Apostle dug the trench, I saw him carrying earth out of the trench till dust made the skin of his abdomen out of my sight and he was a hairy man. I heard him reciting the poetic verses composed by Ibn Rawaha while he was carrying the earth, "O Allah! Without You we would not have been guided, nor would we have given in charity, nor would we have prayed. So, (O Allah), please send Sakina (i.e. calmness) upon us and make our feet firm if we meet the enemy, as they have rebelled against us. And if they intend affliction (i.e. want to frighten us, and fight against us) then we would not (flee but withstand them)." The Prophet would then prolong his voice at the last words.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: غزوۂ احزاب کے موقع پر رسول اللہﷺ کو میں نے دیکھا کہ خندق کھودتے ہوئے اس کے اندر سے آپﷺ مٹی اٹھا اٹھا کر لارہے ہیں۔ آپﷺکے بطن مبارک کی جلد مٹی سے اٹ گئی تھی۔ آپﷺ کے سینے پر گھنے بال تھے۔ میں نے خود سنا کہ آپ ﷺ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے رجزیہ اشعار مٹی اٹھاتے ہوئے پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا، نہ ہم صدقہ کرتے، نہ نماز پڑھتے پس ہم پر تو اپنی طرف سے سکینت نازل فرما اور اگر ہمارا آمنا سامنا ہوجائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔ یہ لوگ ہمارے خلاف چڑھ آئے ہیں۔ جب یہ ہم سے کوئی فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کی نہیں بات نہیں مانتے بلکہ انکار کردیتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ ﷺ آخری کلمات کو خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔


حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ـ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ـ عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَوَّلُ يَوْمٍ شَهِدْتُهُ يَوْمُ الْخَنْدَقِ‏

Narrated By Ibn Umar : The first day (i.e. Ghazwa) I participated in, was the day of Al-Khandaq (i.e. Trench).

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سب سے پہلا غزوہ جس میں میں نے شرکت کی وہ غزوۂ خندق ہے۔


حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ، قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ، فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ‏.‏ فَقَالَتِ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ‏.‏ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ، فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ‏.‏ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَهَلاَّ أَجَبْتَهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الإِسْلاَمِ‏.‏ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ، وَتَسْفِكُ الدَّمَ، وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ‏.‏ قَالَ حَبِيبٌ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ‏.‏ قَالَ مَحْمُودٌ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَنَوْسَاتُهَا‏

Narrated By Ikrima bin Khalid : Ibn 'Umar said, "I went to Hafsa while water was dribbling from her twined braids. I said, 'The condition of the people is as you see, and no authority has been given to me.' Hafsa said, (to me), 'Go to them, and as they (i.e. the people) are waiting for you, and I am afraid your absence from them will produce division amongst them.' " So Hafsa did not leave Ibn 'Umar till we went to them. When the people differed. Muawiya addressed the people saying, "'If anybody wants to say anything in this matter of the Caliphate, he should show up and not conceal himself, for we are more rightful to be a Caliph than he and his father." On that, Habib bin Masalama said (to Ibn 'Umar), "Why don't you reply to him (i.e. Muawiya)?" 'Abdullah bin 'Umar said, "I untied my garment that was going round my back and legs while I was sitting and was about to say, 'He who fought against you and against your father for the sake of Islam, is more rightful to be a Caliph,' but I was afraid that my statement might produce differences amongst the people and cause bloodshed, and my statement might be interpreted not as I intended. (So I kept quiet) remembering what Allah has prepared in the Gardens of Paradise (for those who are patient and prefer the Hereafter to this worldly life)." Habib said, "You did what kept you safe and secure (i.e. you were wise in doing so)."

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا ، مجھے تو حکومت کا کچھ حصہ بھی نہیں ملا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مسلمانوں کے اجتماع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہارے رک جانے سے مزید اختلاف ہوگا۔آخر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گئے۔ پھر جب لوگ (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرکے) وہاں سے چلے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: خلافت کے مسئلہ پر جس نے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔ یقیناً ہم اس سے اور اس کے باپ سے بھی زیادہ خلافت کے حقدار ہیں۔ حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس وقت آپﷺنے اس بات کا جواب کیوں نہ دیا ؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے تو گرہ کھول کر بات کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ انہیں جواب دوں : خلافت کا تم سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کی سربلندی کےلیے جنگ لڑی تھی لیکن مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری اس بات کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف بڑھ جائے اور خونریزی ہوجائے اور میری طرف ایسی بات منسوب کردی جائے جو میں نے نہ کہی ہو ، نیز مجھے وہ اجر و ثواب یاد آگیا جو صبر کرنے والوں کےلیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیار کررکھا ہے ۔حبیب نے کہا: اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور فتنوں سے بچ گئے۔راوی حدیث محمود نے عبد الرزاق سے "نسواتہا " کے بجائے "نوساتہا " کے الفاظ نقل کیے ہیں۔


حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الأَحْزَابِ ‏"‏ نَغْزُوهُمْ وَلاَ يَغْزُونَنَا ‏"‏‏

Narrated By Sulaiman bin Surd : On the day of Al-Ahzab (i.e. clans) the Prophet said, (After this battle) we will go to attack them(i.e. the infidels) and they will not come to attack us."

حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا: اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے ، وہ ہم پر چڑھ کر نہیں آئیں گے۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، يَقُولُ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ صُرَدٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ حِينَ أَجْلَى الأَحْزَابُ عَنْهُ ‏"‏ الآنَ نَغْزُوهُمْ وَلاَ يَغْزُونَنَا، نَحْنُ نَسِيرُ إِلَيْهِمْ ‏"‏‏

Narrated By Sulaiman bin Surd : When the clans were driven away, I heard the Prophet saying, "From now onwards we will go to attack them (i.e. the infidels) and they will not come to attack us, but we will go to them."

حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب نبیﷺسے (جنگ خندق کے موقع پر) لشکر دور کردئے گئے تو میں نے آپﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: اب ہم ان سے جنگ کریں گے ‘ وہ ہم پر چڑھ کر نہ آ سکیں گے بلکہ ہم ہی ان پر فوج کشی کیا کریں گے۔


حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ ‏"‏ مَلأَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلاَةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ ‏"‏‏.

Narrated By 'Ali : On the day of Al-Khandaq (i.e. Trench), the Prophet said '(Let) Allah fill their (i.e. the infidels') houses and graves with fire just as they have prevented us from offering the Middle Prayer (i.e. 'Asr prayer) till the sun had set."

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺنے خندق کے دن فرمایا: اللہ تعالیٰ کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھردے انہوں نے ہمیں نماز وسطیٰ (نماز عصر) ادا کرنے سے روک دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔


حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ جَاءَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ جَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغْرُبَ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا ‏"‏ فَنَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : Umar bin Al-Khattab came on the day of Al-Khandaq after the sun had set and he was abusing the infidels of Quraish saying, "O Allah's Apostle! I was unable to offer the ('Asr) prayer till the sun was about to set." The Prophet said, "By Allah, I have not offered this (i.e. 'Asr) prayer." So we came down along with the Prophet to Buthan where he performed ablution for the prayer and then we performed the ablution for it. Then he offered the 'Asr prayer after the sun had set, and after it he offered the Maghrib prayer.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خندق کےدن غروب آفتاب کے بعد تشریف لائے تو کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تاحال عصر کی نماز نہیں پڑھی۔آپﷺنے فرمایا:اللہ کی قسم! میں نے بھی عصر نماز نہیں پڑھی۔ راوی کا کہنا ہے کہ پھر ہم وادی بطحان میں اترے، تو آپﷺنے نماز کےلیے وضو فرمایا ، اور ہم نے بھی نماز کےلیے وضو کیا۔پھر نبیﷺنے غروب آفتاب کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الأَحْزَابِ ‏"‏ مَنْ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ الزُّبَيْرُ أَنَا‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ مَنْ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ الزُّبَيْرُ أَنَا‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ مَنْ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ الزُّبَيْرُ أَنَا‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا، وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ ‏"‏‏

Narrated By Jabir : On the day of Al-Ahzab (i.e. clans), Allah's Apostle said, 'Who will bring us the news of the people (i.e. the clans of Quraish infidels)?" Az-Zubair said, "I." The Prophet again said, "Who will bring us the news of the people?" AzZubair said, "I." The Prophet again said, "Who will bring us the news of the people?" Az-Zubair said, "I." The Prophet then said, "Every prophet has his Hawari (i.e. disciple-special helper); my disciple is Az-Zubair.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر نبیﷺنے فرمایا: کفار کے لشکر کی خبریں کون لائے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں تیار ہوں۔ پھر آپﷺ نے پوچھا کہ کفار کے لشکر کی خبریں کون لائے گا؟ اس مرتبہ بھی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ پھر آپﷺنے تیسری مرتبہ پوچھا کہ کفار کے لشکر کی خبریں کون لائے گا؟ زبیر رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے حواری(خاص رفیق یا وزیر) ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہیں۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ ‏"‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ، أَعَزَّ جُنْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَغَلَبَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ، فَلاَ شَىْءَ بَعْدَهُ ‏"‏‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle used to say, "None has the right to be worshipped except Allah Alone (Who) honoured His Warriors and made His Slave victorious, and He (Alone) defeated the (infidel) clans; so there is nothing after Him.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ یہ دعا پڑھتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس نے اپنے لشکر کو غالب کیا ، اور اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اوراس اکیلے نے کافرون کے لشکر کو مغلوب کیا۔ اس کے بعد کوئی چیز اس کے مدمقابل نہیں ہوسکتی۔


حَدَّثَنِى مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، وَعَبْدَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الأَحْزَابِ فَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ ‏"‏‏.

Narrated By 'Abdullah bin Abi 'Aufa : Allah's Apostle invoked evil upon the clans saying, "Allah, the Revealer of the Holy Book (i.e. the Qur'an), the Quick Taker of the accounts! Please defeat the clans. O Allah! Defeat them and shake them."

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے کفار کے لشکروں پر ان الفاظ کے ساتھ بددعائی فرمائی: اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے! جلدی حساب لینے والے! کفار کے لشکر کو شکست دے۔ اے اللہ! انہیں شکست دے۔ یا اللہ! ان کی طاقت کو متزلزل کردے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، وَنَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنَ الْغَزْوِ، أَوِ الْحَجِّ، أَوِ الْعُمْرَةِ، يَبْدَأُ فَيُكَبِّرُ ثَلاَثَ مِرَارٍ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهْوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونُ سَاجِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ ‏"‏‏

Narrated By 'Abdullah : Whenever Allah's Apostle returned from a Ghazwa, Hajj or 'Umra, he used to start (saying), "Allahu-Akbar," thrice and then he would say, "None has the right to be worshipped except Allah alone Who has no partners. To Him belongs the Kingdom, all praises are for Him, and He is able to do all things (i.e. Omnipotent). We are returning with repentance (to Allah) worshipping, prostrating, and praising our Lord. Allah has fulfilled His Promise, made His Slave victorious, and He (Alone) defeated the clans (of infidels)."

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب کسی غزوۂ، حج یا عمرے سے واپس آتے تو سب سے پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے۔ پھر یوں فرماتے: اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، بادشاہت اسی کےلیے ہے، حمد اسی کےلیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (یا اللہ!) ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور کفار کی فوجوں کو اس نے اکیلے شکست دے دی۔

12345Last ›