Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Muslim

Book: Book of Repentance (49)    كتاب التوبة

12

Chapter No: 1

باب فِي الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا

The urge to repent and happiness thereupon

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حَدَّثَنِى سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنِى زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِى وَاللَّهِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلاَةِ وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَىَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَىَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَىَّ يَمْشِى أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرْوِلُ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "Allah, Glorified and Exalted is He, said: 'I am as My slave thinks I am, and I am with Him when he remembers Me.' By Allah, Allah rejoices more over the repentance of His slave than one of you when he finds his stray camel in the wilderness. 'If he draws near to Me a handspan, I draw near to him an forearm's length, and if he draws near to Me an forearm's length, I draw near to him a an arm's length, and if he comes to Me walking, I go to him at speed."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جہاں وہ ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اور اللہ کی قسم! اللہ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ جب تم میں سے کسی آدمی کی جنگی میں گم شدہ سواری مل جائے اور جو آدمی ایک بالشت کے برابر میرا قرب حاصل کرتا ہے میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہوں۔اور جو ایک ہاتھ کے برابر میرے قریب ہوتا ہے میں چار ہاتھ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہوں ، اور جو آدمی میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں۔


حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ الْقَعْنَبِىُّ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ - يَعْنِى ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِىَّ - عَنْ أَبِى الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِكُمْ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا ».

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah(s.a.w) said: 'Allah rejoices more over the repentance of one of you, than one of you (rejoices) over his stray camel when he finds it."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایک کے توبہ کرنے پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے کہ جتنا تم میں سے کسی آدمی کو اس کی گم شدہ سواری مل جانے پر (خوشی ہوتی ہے)۔


وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- بِمَعْنَاهُ.

A similar report (as Hadith no. 6953) was narrated from Abu Hurairah, from the Prophet(s.a.w).

یہ حدیث ایک اور سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حسب سابق مروی ہے۔


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ - وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ - قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ أَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَحَدَّثَنَا بِحَدِيثَيْنِ حَدِيثًا عَنْ نَفْسِهِ وَحَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ رَجُلٍ فِى أَرْضٍ دَوِيَّةٍ مَهْلَكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ ثُمَّ قَالَ أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِى الَّذِى كُنْتُ فِيهِ فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ. فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ وَعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَاللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَزَادِهِ ».

It was narrated that Al-Harith bin Suwaid said: "I entered upon 'Abdullah to visit him when –he was sick, and he told us two Ahadith: A Hadith from himself and a Hadith from the Messenger of Allah (s.a.w). "He said: "I heard the Messenger of Allah (s.a.w) say: 'Verity, Allah rejoices more over the repentance of His believing slave than a man in a desolate land who has his mount with him, on which is his food and drink, and he goes to sleep and awakens to find that it has disappeared. He looks for it until thirst overtakes him, then he says: 'I will go back to the place where I was, and sleep until I die.' He lays his head on his forearm, waiting for death, then he wakes up and there is his mount, with his provisions, and food and drink on it. Allah rejoices more over the repentance of His believing slave than this man rejoices over his mount and his provisions."'

حارث بن سوید کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیمار تھے ، میں ان کی عیادت کے لیے گیا ، انہوں نے مجھ کو دو حدیثیں بیان کیں ، ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہﷺکی طرف سے ، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺسے یہ سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ مومن کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی ہلاکت خیز سنسان میدان میں اپنی سواری پر جائے جس پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں ہوں ، وہ سوجائےاور جب وہ بیدار ہو تو سواری کہیں جاچکی ہو ، وہ اس سواری کی تلاش کرتا رہے یہاں تک کہ اس کو سخت پیاس لگ جائے پھر وہ کہے: میں واپس اسی جگہ جاتا ہوں جہاں پر میں پہلے تھا ، میں وہاں سوجاؤں گا یہاں تک کہ مرجاؤں گا ،وہ کلائی پر اپنا سر رکھ کر لیٹ جاتا ہے تاکہ مرجائے ، پھر وہ بیدار ہوتا ہے تو اس کے پاس اس کی سواری ہوتی ہے اور اس پر اس کی خوراک اور کھانے اور پینے کی چیزیں رکھی ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کو بندہ مومن کی توبہ کرنے پر اس آدمی کی سواری اور زاد راہ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔


وَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ قُطْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ وَقَالَ « مِنْ رَجُلٍ بِدَاوِيَّةٍ مِنَ الأَرْضِ».

It was narrated from Al-A'mash with this chain of narrators (a Hadith similar to no. 6955). And he said: "... than a man in a desolate land."

یہ حدیث ایک اور سند سے مروی ہے اور اس روایت میں ہے کہ ایک آدمی جنگل کی زمین میں ہو۔


وَحَدَّثَنِى إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ عُمَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ الْحَارِثَ بْنَ سُوَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ حَدِيثَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ ». بِمِثْلِ حَدِيثِ جَرِيرٍ.

Al-Harith bin Suwaid said: "Abdullah told me two Ahadith: One from the Messenger of Allah (s.a.w) and the other from himself." He said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Allah rejoices more over the repentance of His believing slave...'" a Hadith like that of Jarir (no. 6955).

حارث بن سوید کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھے دو حدیثیں بیان کیں ، ایک حدیث رسول اللہ ﷺکی طرف سے روایت ہے کہ اوردوسری حدیث انہوں نے اپنی طرف سے بیان کی ، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ مومن کی توبہ سے اس سے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جریر کی روایت کی طرح ہے۔


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِىُّ حَدَّثَنَا أَبِى حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ عَنْ سِمَاكٍ قَالَ خَطَبَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ فَقَالَ « لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ حَمَلَ زَادَهُ وَمَزَادَهُ عَلَى بَعِيرٍ ثُمَّ سَارَ حَتَّى كَانَ بِفَلاَةٍ مِنَ الأَرْضِ فَأَدْرَكَتْهُ الْقَائِلَةُ فَنَزَلَ فَقَالَ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ وَانْسَلَّ بَعِيرُهُ فَاسْتَيْقَظَ فَسَعَى شَرَفًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ثُمَّ سَعَى شَرَفًا ثَانِيًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ثُمَّ سَعَى شَرَفًا ثَالِثًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ حَتَّى أَتَى مَكَانَهُ الَّذِى قَالَ فِيهِ فَبَيْنَمَا هُوَ قَاعِدٌ إِذْ جَاءَهُ بَعِيرُهُ يَمْشِى حَتَّى وَضَعَ خِطَامَهُ فِى يَدِهِ فَلَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ مِنْ هَذَا حِينَ وَجَدَ بَعِيرَهُ عَلَى حَالِهِ ». قَالَ سِمَاكٌ فَزَعَمَ الشَّعْبِىُّ أَنَّ النُّعْمَانَ رَفَعَ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- وَأَمَّا أَنَا فَلَمْ أَسْمَعْهُ.

It was narrated that Simak said: "An Nu'man bin Bashir delivered a Khutbah and said: 'Verily, Allah rejoices more over the repentance of His slave than a man who loads his provisions on his camel then travels until he is in the wilderness, then the time for a nap comes, so he dismounts and takes a nap beneath a tree, but sleep overwhelms him, and his camel runs away. Then he wakes up and climbs a hill but he does not see anything. Then he climbs a second hill but he does not see anything. Then he climbs a third hill but he does not see anything, so he goes back to the place where he took his nap, and while he is sitting there, his camel comes walking and places its reins in his hand. Allah rejoices more over the repentance of His slave than this man when he finds his camel as it had left him." Simak said: "Ash-Sha'bi said that An-Nu'man attributed this Hadith to the Prophet (s.a.w), but I did not hear that."

سماک کہتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں کہا: اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنی خوراک اور مشکیزے کو اونٹ پر لادا ، پھر کسی چٹیل میدان میں سفر کے لیے روانہ ہوا ،اور قیلولہ نے اس کو گھیر لیا تو وہ ایک درخت کے نیچے اترا اور سوگیا اور اس کا اونٹ کسی طرف کو نکل گیا ، جب وہ بیدار ہوا تو ایک ٹیلہ پر چڑھ کر دیکھا ، اسے کچھ نظر نہیں آیا ، وہ دوبارہ ایک ٹیلے پر چڑھا ،اسے پھر بھی کچھ نظر نہیں آیا ، وہ تیسری بار ٹیلہ پر چڑھا ، اسے پھر بھی کچھ نظر نہیں آیا ، وہ پھر اسی جگہ لوٹ آیا ، جہاں وہ سویا تھا ، پھر جس جگہ وہ بیٹھا تھا اچانک وہاں پر وہ اونٹ چلتے چلتے آپہنچا اور اپنی مہار لاکر اس آدمی کے ہاتھ میں دے دی تو اللہ تعالیٰ کو بندے کی توبہ سے اس آدمی سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جبکہ یاس کے عالم میں اس کو اونٹ مل جاتاہے ، سماک کہتے ہیں کہ شعبی کا خیال ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر نے اس بیان کو نبی ﷺکی طرف منسوب کیا تھا۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَجَعْفَرُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ جَعْفَرٌ حَدَّثَنَا وَقَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ عَنْ إِيَادٍ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « كَيْفَ تَقُولُونَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْهُ رَاحِلَتُهُ تَجُرُّ زِمَامَهَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَيْسَ بِهَا طَعَامٌ وَلاَ شَرَابٌ وَعَلَيْهَا لَهُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ فَطَلَبَهَا حَتَّى شَقَّ عَلَيْهِ ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُهَا فَوَجَدَهَا مُتَعَلِّقَةً بِهِ ». قُلْنَا شَدِيدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَمَا وَاللَّهِ لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِهِ ». قَالَ جَعْفَرٌ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادٍ عَنْ أَبِيهِ.

It was narrated that Al-Bara' bin 'Azib said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'What do you say about the joy of a man whose mount has run away from him, dragging its reins in the waterless desert in which there is no food or drink, and his food , and drink are on it (the camel). He looks for it until he becomes exhausted, then it passes by the trunk of a tree and its reins get caught on it, and he finds it caught there?' We said: '(His joy would be) great, O Messenger of Allah.' The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'By Allah, Allah rejoices more over the repentance of His slave than this man over his mount."' Ja'far said: "Ubaidullah bin Iyad narrated from his father."

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: تم اس آدمی کی خوشی کے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے ، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں ، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ، ڈھونڈ کر تھک جائے ، پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس آدمی کو وہ اونٹنی اس تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے ، ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ! وہ شخص بہت خوش ہوگا، رسول اللہﷺنے فرمایاِ: سنو! اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ اس آدمی کی سواری کی بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے ۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ - وَهُوَ عَمُّهُ - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلاَةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَأَيِسَ مِنْهَا فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِى ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِى وَأَنَا رَبُّكَ. أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ».

Anas bin Malik narrated that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "Allah rejoices more over the repentance of His slave when he repents to Him than one of you who was on his mount in the wilderness, then he lost it, and his food and drink are on it, and he despairs of finding it. He goes to a tree and lies down in its shade, having lost hope of finding his mount, and while he is like that, there it is standing in front of him, so he takes hold of its reins and says - because of his intense joy: 'O Allah, You are my slave and I am your lord,' making this mistake because of his intense joy."'

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو ا س پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جب تم میں سے کوئی آمی صحراء میں اپنی سواری پر جائے اور سواری اس سے نکل جائے جس پر اس کے کھانے اور پینے کی چیزیں ہوں ، وہ اس سے مایوس ہوکر ایک درخت کے پاس آئے اور اس کے سائے میں لیٹ جائے ، جس وقت وہ سواری سے مایوس ہوکر لیٹا ہوا ہو ، اچانک وہ سواری اس کے پاس کھڑی ہو ، وہ اس کی مہار پکڑ لے ، پھر خوشی کی شدت سے یہ کہے : اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں ،" یعنی شدت مسرت کی وجہ سے الفاظ الٹ جائیں۔


حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ إِذَا اسْتَيْقَظَ عَلَى بَعِيرِهِ قَدْ أَضَلَّهُ بِأَرْضِ فَلاَةٍ ».

It was narrated from Anas bin Malik that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "Allah rejoices more over the repentance of His slave than one of you if he wakes up and finds his camel which he had lost in the wilderness."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ کرنے سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے ، جب تم میں سے کوئی آدمی بیدار ہوتےہی جنگل کی زمین میں اپنا اونٹ پالے ۔


وَحَدَّثَنِيهِ أَحْمَدُ الدَّارِمِىُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- بِمِثْلِهِ.

Anas narrated a similar report (as Hadith no. 6961) from the Prophet (s.a.w).

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبیﷺسے اس کی طرح روایت کی ہے۔

Chapter No: 2

باب سُقُوطِ الذُّنُوبِ بِالاِسْتِغْفَارِ تَوْبَةً

The extinguishment of sins by praying for forgiveness and repenting

توبہ استغفار کرنے سے گناہ جھڑجاتے ہیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ - قَاصِّ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ - عَنْ أَبِى صِرْمَةَ عَنْ أَبِى أَيُّوبَ أَنَّهُ قَالَ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ كُنْتُ كَتَمْتُ عَنْكُمْ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللَّهُ خَلْقًا يُذْنِبُونَ يَغْفِرُ لَهُمْ ».

It was narrated that Abu Ayyub said, when he was dying: "I have concealed from you something that I heard from the Messenger of Allah (s.a.w). I heard the Messenger of Allah (s.a.w) say: 'If you did not commit sin, Allah would create people who would commit sin, and He would forgive them."'

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت فرمایا: میں نے رسول اللہﷺسے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے چھپا رکھی تھی ، میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کردیتا۔


حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِى عِيَاضٌ - وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِىُّ - حَدَّثَنِى إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِىِّ عَنْ أَبِى صِرْمَةَ عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « لَوْ أَنَّكُمْ لَمْ تَكُنْ لَكُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا اللَّهُ لَكُمْ لَجَاءَ اللَّهُ بِقَوْمٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا لَهُمْ ».

It was narrated from Abu Ayyub Al-Ansari that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "If you did not commit any sins for which Allah would forgive you, Allah would create a people who will have sins and he would forgive them for them."

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اگر مغفرت کرنے کے لیے تمہاے گناہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو پیدا کرتا جس کے گناہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتے۔


حَدَّثَنِى مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِىِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ ».

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'By the One in Whose Hand is my soul, if you did not commit sin, Allah would dispense with you and create people who would commit sins, then ask (Allah) for forgiveness, then he would forgive them."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور تمہارے بدلے میں ایک ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتا۔

Chapter No: 3

باب فَضْلِ دَوَامِ الذِّكْرِ وَالْفِكْرِ فِي أُمُورِ الآخِرَةِ وَالْمُرَاقَبَةِ وَجَوَازِ تَرْكِ ذَلِكَ فِي بَعْضِ الأَوْقَاتِ وَالاِشْتِغَالِ بِالدُّنْيَا

The merit of perpetual remembrance and thinking about the matters of hereafter, and keeping in mind that Allah is always watching, and the permissibility of leaving it during some times while attending the affairs of this world

ذکر کے دوام اور امور آخرت میں غور و فکر کی فضیلت، اور بعض اوقات اس کو چھوڑنے ، اور دنیا کے ساتھ مشغول ہونے کا بیان

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَقَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى - أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِىِّ عَنْ أَبِى عُثْمَانَ النَّهْدِىِّ عَنْ حَنْظَلَةَ الأُسَيِّدِىِّ قَالَ - وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ - لَقِيَنِى أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ كَيْفَ أَنْتَ يَا حَنْظَلَةُ قَالَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَةُ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا تَقُولُ قَالَ قُلْتُ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَأَنَّا رَأْىَ عَيْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَافَسْنَا الأَزْوَاجَ وَالأَوْلاَدَ وَالضَّيْعَاتِ فَنَسِينَا كَثِيرًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَلْقَى مِثْلَ هَذَا. فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَمَا ذَاكَ ». قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَأَنَّا رَأْىَ عَيْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ عَافَسْنَا الأَزْوَاجَ وَالأَوْلاَدَ وَالضَّيْعَاتِ نَسِينَا كَثِيرًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِى وَفِى الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِى طُرُقِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.

It was narrated that Hanzalah Al-Usaidi - who was one of the scribes of the Messenger of Allah (s.a.w) - said: "Abu Bakr met me and said: 'How are you, O Hanzalah?' I said: 'Hanzalah has become a hypocrite.' He said: 'Subhan Allah! What are you saying?' I said: 'When we are with the Messenger of Allah (s.a.w) he reminds us of the Fire and Paradise, until it is as if we are seeing them with our own eyes, but when we depart from the Messenger of Allah (s.a.w), we attend to our wives and children and businesses, and we forget a great deal.' Abu Bakr said: 'By Allah, we experience something similar.' "Abu Bakr and I went and entered upon the Messenger of Allah (s.a.w), and I said: 'Hanzalah has become a hypocrite, O Messenger of Allah.' The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Why is that?' I said: 'O Messenger of Allah, when we are with you, you remind us of Paradise and the Fire (until) it is as if we are seeing them with our own eyes, but when we depart from you, we attend to our wives and children and businesses, and we forget a great deal.' The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'By the One in Whose Hand is my soul, if you continued as you are when you are with me, and continued to remember (Paradise and Hell), the angels would shake hands with you in your homes and on the streets. But, O Hanzalah, there is a time for this and a time for that"' (he said it) three times.

حضرت حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکے کاتبوں میں سےتھے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھے ملے اور کہا: اے حنظلہ ! تم کیسے ہو؟ میں نے کہا: حنظلہ منافق ہوگیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سبحان اللہ ! تم کیسی بات کررہے ہو؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہﷺکے پاس ہوتے ، آپﷺ ہمیں جنت اور جہنم کی نصیحت کرتے ہیں ، یہاں تک کہ ہم گویا کہ جنت اور جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، پھر جب ہم رسول اللہ ﷺکے پاس سے اٹھ کر اپنی بیویوں ، بچوں اور زمینوں کے معاملات میں مشغول ہوتے ہیں تو بہت ساری چیزیں بھول جاتے ہیں ، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس قسم کا معاملہ تو ہمیں بھی پیش آتا ہے ، پھر میں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی طرف چل پڑے یہاں تک کہ آپﷺکے پاس حاضر ہوئے ، میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! حنظلہ منافق ہوگیا ، رسول اللہﷺنے فرمایا: اس کا کیا سبب ہے ؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم آپﷺکے پاس حاضر ہوتے ہیں ، آپﷺہمیں جنت اور جہنم کی نصیحت کرتے ہیں یہاں تکہ کہ گویا کہ ہم اپنی آنکھوں سے جنت اور جہنم کو دیکھتے ہیں اور جب ہم آپ کے پاس سے اٹھ کر اپنی بیویوں ، بچوں اور زمینوں میں مشغول ہوتے ہیں تو ہم بہت ساری باتیں بھول جاتے ہیں ، رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم میرے پاس ذکر و فکر کی جس کیفیت میں ہوتے ہو اگر تمہاری وہ کیفیت ہمیشہ رہے تو تمہارے بستروں اور راستوں پر فرشتے تم سے مصافحہ کریں ، لیکن اے حنظلہ! ایہ کیفیت ایک آدھ ساعت رہتی ہے ، یہ آپ ﷺنے تین مرتبہ فرمایا۔


حَدَّثَنِى إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ سَمِعْتُ أَبِى يُحَدِّثُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِىُّ عَنْ أَبِى عُثْمَانَ النَّهْدِىِّ عَنْ حَنْظَلَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَوَعَظَنَا فَذَكَّرَ النَّارَ - قَالَ - ثُمَّ جِئْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَضَاحَكْتُ الصِّبْيَانَ وَلاَعَبْتُ الْمَرْأَةَ - قَالَ - فَخَرَجْتُ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ وَأَنَا قَدْ فَعَلْتُ مِثْلَ مَا تَذْكُرُ. فَلَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَافَقَ حَنْظَلَةُ فَقَالَ « مَهْ ». فَحَدَّثْتُهُ بِالْحَدِيثِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا قَدْ فَعَلْتُ مِثْلَ مَا فَعَلَ فَقَالَ « يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَلَوْ كَانَتْ تَكُونُ قُلُوبُكُمْ كَمَا تَكُونُ عِنْدَ الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ حَتَّى تُسَلِّمَ عَلَيْكُمْ فِى الطُّرُقِ ».

It was narrated that Hanzalah said: "We were with the Messenger of Allah (s.a.w) and he exhorted us, and reminded us of the Fire. Then I came home and laughed with my children and played with my wife. Then I went out and met Abu Bakr, and I mentioned that to him. He said: 'I have done the same as you mentioned.' We met the Messenger of Allah (s.a.w) and I said: 'O Messenger of Allah, Hanzalah has become a hypocrite.' He said: 'Don't speak like that.' So I told him what we had said, and Abu Bakr said: 'I have done the same as he has.' He (s.a.w) said: 'O Hanzalah, there is a time for this and a time for that. If your hearts were always as they are when you are remembering, the angels would shake hands with you and greet you in the streets."'

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺکے پاس تھے ، آپ ﷺنے ہمیں نصیحت کی اور جہنم کا ذکر فرمایا، انہوں نے کہا: پھر میں گھر آیا اور بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا اور بیوی کے خوش طبعی کی ، پھر جب میں باہر نکلا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ، میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا ، انہوں نے کہا: میں نے بھی اسی طرح کیا ہے جس طرح تم ذکر کررہے ہو، پھر ہم نے رسول اللہﷺسے ملاقات کی ، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! حنظلہ منافق ہوگیا ، آپﷺنے فرمایا: کیا کہتے ہو ، تو میں نے آپﷺکے سامنے پورا واقعہ بیان کیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس طرح انہوں نے بیان کیا ہے میرے ساتھ بھی اسی طرح ہوا ہے ، آپﷺنے فرمایا: اے حنظلہ یہ کیفیت کبھی کبھی ہوتی ہے جس طرح نصیحت کے وقت تمہارے دلوں کی کیفیت ہوتی ہے اگر یہ کیفیت ہمیشہ رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں اور راستوں پر تم کو سلام کریں۔


حَدَّثَنِى زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِىِّ عَنْ أَبِى عُثْمَانَ النَّهْدِىِّ عَنْ حَنْظَلَةَ التَّمِيمِىِّ الأُسَيِّدِىِّ الْكَاتِبِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَّرَنَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ. فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمَا.

It was narrated that the scribe (of the Messenger of Allah (s.a.w) Hanzalah At-Tamimi Al-Usaidi said: "We were with the Prophet (s.a.w) and we spoke of Paradise and the Fire..." and he mentioned a similar Hadith (as no. 6967).

حضرت حنظلہ تمیمی اسیدی کاتب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپﷺہمیں جنت اورجہنم کی نصیحت کرتے تھے ، پھر اس کے بعد حسب سابق مروی ہے۔

Chapter No: 4

باب فِي سَعَةِ رَحْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ

Regarding the vastness of Allah’s mercy and the fact that His mercy prevails over his wrath

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ - يَعْنِى الْحِزَامِىَّ - عَنْ أَبِى الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِى كِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِى تَغْلِبُ غَضَبِى».

It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (s.a.w) said: "When Allah created the creation, He wrote in His Book, which is with Him above the Throne: 'My mercy prevails over My wrath."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا: تو عرش کے اوپر اپنے پاس کتاب میں لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔


حَدَّثَنِى زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِى الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- « قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ سَبَقَتْ رَحْمَتِى غَضَبِى ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (s.a.w) said: "Allah, Glorified and Exalted is He, said: "My Mercy precedes My wrath."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔


حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا أَبُو ضَمْرَةَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِى كِتَابِهِ عَلَى نَفْسِهِ فَهُوَ مَوْضُوعٌ عِنْدَهُ إِنَّ رَحْمَتِى تَغْلِبُ غَضَبِى ».

It was narrated that Abu Hurairah said: The Messenger of Allah (s.a.w) said: "When Allah had finished creation, He ordained for Himself in His Book which is with Him: 'My mercy prevails over My wrath."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کرلیا تو اس نے اپنے پاس رکھی ہوئی کتاب میں یہ لکھ دیا ، اس نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔


حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِىُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَأَنْزَلَ فِى الأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ تَتَرَاحَمُ الْخَلاَئِقُ حَتَّى تَرْفَعَ الدَّابَّةُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ ».

Abu Hurairah said: "I heard the Messenger of Allah (s.a.w) say: 'Allah made mercy in one hundred parts, and he kept ninety-nine parts with Him, and He sent one part down to earth, from which all creatures show compassion to one another, and animals even lift their hooves lest they harm their young."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ایک سو حصے کیے ، ننانوے حصے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر نازل کیا ، اسی ایک حصے سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے ، یہاں تک کہ چوپایہ اپنے بچے کے اوپر سے اپنا پیر ہٹا لیتا ہے تاکہ اس کو تکلیف نہ دے۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ - يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ - عَنِ الْعَلاَءِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « خَلَقَ اللَّهُ مِائَةَ رَحْمَةٍ فَوَضَعَ وَاحِدَةً بَيْنَ خَلْقِهِ وَخَبَأَ عِنْدَهُ مِائَةً إِلاَّ وَاحِدَةً ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "Allah created one hundred (parts) of mercy, and he placed one part among His creation, and kept one hundred less one with Him."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں ، ایک رحمت اس نے اپنی مخلوق میں رکھی ، اور ننانوے رحمتیں اس نے اپنے پاس رکھیں۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ فَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ وَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى وَلَدِهَا وَأَخَّرَ اللَّهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (s.a.w) said: "Allah has one hundred (parts of) mercy, of which He sent one part down among jinn, humans, animals and insects, because of which they show compassion and kindness to one another, and a wild animal shows compassion to its young. And Allah has kept back ninety-nine parts of mercy by which He will show mercy to His slaves on the Day of Resurrection."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں ، اس نے ان میں سے ایک رحمت جن ، انس ، حیوانات اور حشرات الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں ، اور رحم کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچارکھی ہیں ، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔


حَدَّثَنِى الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِىُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِىُّ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ فَمِنْهَا رَحْمَةٌ بِهَا يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ بَيْنَهُمْ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ».

It was narrated that Salman Al-Farisi said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Allah has one hundred (parts) of mercy, because of (one part of) which creatures show mercy to one another, and ninety-nine parts are for the Day of Resurrection."

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں ، ان میں سے ایک رحمت سے مخلوق آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لیے ہیں۔


وَحَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ بِهَذَا الإِسْنَادِ.

Al-Mu'tamir narrated it from his father with this chain of narrators.

یہ حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے ۔


حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِى هِنْدٍ عَنْ أَبِى عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مِائَةَ رَحْمَةٍ كُلُّ رَحْمَةٍ طِبَاقَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ فَجَعَلَ مِنْهَا فِى الأَرْضِ رَحْمَةً فَبِهَا تَعْطِفُ الْوَالِدَةُ عَلَى وَلَدِهَا وَالْوَحْشُ وَالطَّيْرُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَكْمَلَهَا بِهَذِهِ الرَّحْمَةِ ».

It was narrated that Salman said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'On the day that Allah created the heavens and the earth, He created one hundred (parts of) mercy, each of which is as great as the distance between the heavens and the earth, and He put one part of that mercy on earth, because of which a mother shows compassion to her child and animals and birds show compassion to one another. When the Day of Resurrection comes, that mercy will complete the number (again)."'

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اس دن اس نے سو رحمتیں پیدا کیں ، ہر رحمت آسمان اور زمین کے بھراؤ کے برابر ہے ، اس نے ان میں سے ایک رحمت زمین پر نازل کی ہے ، اسی رحمت کی وجہ سے والدہ اپنی اولاد پر رحمت کرتی ہے اور درندے اور پرندے ایک دوسرے پر رحمت کرتے ہیں ، جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس رحمت کے ساتھ اپنی رحمتوں کو مکمل فرمائے گا۔


حَدَّثَنِى الْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ الْحُلْوَانِىُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِىُّ - وَاللَّفْظُ لِحَسَنٍ - حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ حَدَّثَنِى زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِسَبْىٍ فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْىِ تَبْتَغِى إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِى السَّبْىِ أَخَذَتْهُ فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَتَرَوْنَ هَذِهِ الْمَرْأَةَ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِى النَّارِ ». قُلْنَا لاَ وَاللَّهِ وَهِىَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لاَ تَطْرَحَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا ».

It was narrated that 'Umar bin Al-Khattab said: "Some prisoners were brought to the Messenger of Allah (s.a.w), and there was a woman among the prisoners who was searching for someone. When she found a small boy among the prisoners, she clasped him to her and started to breastfeed him. The Messenger of Allah (s.a.w) said to us: 'Do you think that this woman would throw her child into the fire?' We said: 'No, by Allah, she would never do that if she is able not to.' The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Allah is more merciful towards His slaves than this woman is towards her child."'

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس کچھ قیدی آئے ، ان قیدیوں میں سے ایک عورت کسی کو تلاش کررہی تھی، اچانک قیدیوں میں سے اس کو اپنا بچہ مل گیا ، اس نے اس بچہ کو اٹھاکر پیٹ سے چمٹا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ، تب رسول اللہﷺنے ہم سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ ہم نے کہا: نہیں ، اللہ کی قسم ! اگر اس سے ہوسکا تو یہ اس بچہ کو آگ میں نہیں ڈالے گی ، رسول اللہﷺنے فرمایا: یہ عورت اپنے بچہ پر جس قدر رحم کرنے والی ہے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے ۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَخْبَرَنِى الْعَلاَءُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ مَا قَنِطَ مِنْ جَنَّتِهِ أَحَدٌ ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "If the believer knew what there is with Allah of torment, no one would hope for Paradise, and if the disbeliever knew what there is with Allah of mercy, no one would despair of Paradise."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اگر مومن کو یہ علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب کتنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی جنت کی کوئی تمنا نہ کرتا ، اور اگر کافر کو یہ علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اللہ تعالیٰ کی جنت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا۔


حَدَّثَنِى مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقِ ابْنِ بِنْتِ مَهْدِىِّ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِى الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « قَالَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ حَسَنَةً قَطُّ لأَهْلِهِ إِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ ثُمَّ اذْرُوا نِصْفَهُ فِى الْبَرِّ وَنِصْفَهُ فِى الْبَحْرِ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لاَ يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ فَلَمَّا مَاتَ الرَّجُلُ فَعَلُوا مَا أَمَرَهُمْ فَأَمَرَ اللَّهُ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ وَأَمَرَ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ ثُمَّ قَالَ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا قَالَ مِنْ خَشْيَتِكَ يَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ. فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "A man who had never done any good deed told to his family that when he dies, to burn him then scatter half (of the ashes) on the land and half in the sea, for by Allah, if Allah gets him, He will punish him in a way that He has never punished anyone else. When the man died, they did what he had told them. Then Allah commanded the land to gather together what was in it, and He commanded the sea to gather together what was in it, then He said (to that man): 'Why did you do that?' He said: 'Out of fear of You, O Lord, and You know best.' And Allah forgave him."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ایک آدمی نے کوئی نیکی نہیں کی تھی ، جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا: اس کو جلادینا ، پھر اس کے نصف کوخشکی میں اڑا دینا ، اور نصف کو سمندر میں بہادینا ، کیونکہ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ نے اس پر گرفت کی تو اس کو اتنا سخت عذاب دے گا کہ تمام جہانوں میں کوئی اس کو اتنا سخت عذاب نہیں دے سکتا ، جب وہ مرگیا تو لوگوں نے اس کی وصیت کے مطابق کردیا ، اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے اس کے ذرات جمع کردیے ، پھر فرمایا: تم نے اس طرح کرنے کا کیوں کہا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! تیرے ڈر کی وجہ سے اور تو زیادہ جانتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ عَبْدٌ أَخْبَرَنَا وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ - وَاللَّفْظُ لَهُ - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ قَالَ لِىَ الزُّهْرِىُّ أَلاَ أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثَيْنِ عَجِيبَيْنِ قَالَ الزُّهْرِىُّ أَخْبَرَنِى حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْصَى بَنِيهِ فَقَالَ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِى ثُمَّ اسْحَقُونِى ثُمَّ اذْرُونِى فِى الرِّيحِ فِى الْبَحْرِ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَىَّ رَبِّى لَيُعَذِّبُنِى عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ بِهِ أَحَدًا. قَالَ فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ فَقَالَ لِلأَرْضِ أَدِّى مَا أَخَذْتِ. فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ فَقَالَ لَهُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ فَقَالَ خَشْيَتُكَ يَا رَبِّ - أَوْ قَالَ - مَخَافَتُكَ. فَغَفَرَ لَهُ بِذَلِكَ».

It was narrated from Az-Zuhri, who said: Humaid bin 'Abdur-Rahman informed me from Abu Hurairah that the Prophet (s.a.w) said: "A man transgressed against his soul. When he was dying he told his sons: 'When I die, burn me then crush (my bones), then scatter them in the wind and in the sea, for by Allah, if Allah gets me, He will punish me as He has never punished anyone.' They did that as they were told. Then Allah said to the land: 'Return what you have taken,' and he was standing there. Then He said to him: 'What made you do what you did?' He said: 'Fear of You, O Lord.' And Allah forgave him because of that.'"

معمر کہتے ہیں کہ مجھ سے زہری نے کہا: میں تم کو دو عجیب حدیثیں نہ سناؤں؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: ایک آدمی نے اپنے نفس پر زیادتی کی ، جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی : جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلادینا، پھر مجھے راکھ کرکے ہوا اور سمندر میں منتشر کردینا ، کیونکہ اللہ کی قسم! اگر میرے رب نے گرفت کی تو وہ مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کوئی کسی کو اتنا عذاب نہیں دے سکتا ، آپﷺنے فرمایا:اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا ، اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا ، تو نے جو کچھ لیا ہے اس کو واپس کر ، وہ آدمی کھڑا ہوگیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھ کو اس وصیت پر کس چیز نے ابھارا تھا ، اس نے کہا:اے رب! تیرے ڈر نے یا کہا: تیرے خوف نے ، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا ۔


قَالَ الزُّهْرِىُّ وَحَدَّثَنِى حُمَيْدٌ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِى هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلاَ هِىَ أَطْعَمَتْهَا وَلاَ هِىَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ هَزْلاً ». قَالَ الزُّهْرِىُّ ذَلِكَ لِئَلاَّ يَتَّكِلَ رَجُلٌ وَلاَ يَيْأَسَ رَجُلٌ.

Az-Zuhri said: "Humaid narrated to me from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (s.a.w) said: 'A woman entered Hell because of a cat which she had; she had tied it up and did not feed it nor let it loose to eat of the vermin of the earth, until it died of starvation.'"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: ایک عورت بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوگئی ، اس نے اس بلی کو باندھ کر رکھا ، اس کو نہ کھلایا اور نہ پلایا ، اور نہ اس کو آزاد کیا تاکہ وہ حشرات الارض کو کھالیتی ، یہاں تک کہ وہ بلی کمزوری سے مرگئی ، زہری نے کہا: ان حدیثوں کا منشاء یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت پر کلیہ اعتماد نہ کرے ، اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو۔


حَدَّثَنِى أَبُو الرَّبِيعِ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنِى الزُّبَيْدِىُّ قَالَ الزُّهْرِىُّ حَدَّثَنِى حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « أَسْرَفَ عَبْدٌ عَلَى نَفْسِهِ ». بِنَحْوِ حَدِيثِ مَعْمَرٍ إِلَى قَوْلِهِ « فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ ». وَلَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ الْمَرْأَةِ فِى قِصَّةِ الْهِرَّةِ وَفِى حَدِيثِ الزُّبَيْدِىِّ قَالَ « فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِكُلِّ شَىْءٍ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا أَدِّ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ ».

It was narrated that Abu Hurairah said: "I heard the Messenger of Allah (s.a.w) say: 'A man transgressed against his soul...'" a Hadith like that of Ma'mar (no. 6981), up to the words: "And Allah forgave him." He did not mention the Hadith about the woman and the cat. In the Hadith of Az-Zubaidi it says: "Allah, Glorified and Exalted is He, said to everything that had taken any part of him: 'Give back that which you have taken of him."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک بندے نے اپنے نفس پر زیادتی کی ، جیسا کہ معمر کی روایت میں ہے ،اور اس قول تک" تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا" ، اور بلی کے واقعہ میں عورت کا ذکر نہیں ہے اور زبیدی کی روایت میں ہے اللہ عزوجل نے ہر اس چیز سے فرمایا: جس نے اس کی راکھ کا کچھ حصہ لیا تھا ، جو تم نے لیا ہے وہ واپس کرو۔


حَدَّثَنِى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِىُّ حَدَّثَنَا أَبِى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- « أَنَّ رَجُلاً فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَاشَهُ اللَّهُ مَالاً وَوَلَدًا فَقَالَ لِوَلَدِهِ لَتَفْعَلُنَّ مَا آمُرُكُمْ بِهِ أَوْ لأُوَلِّيَنَّ مِيرَاثِى غَيْرَكُمْ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِى - وَأَكْثَرُ عِلْمِى أَنَّهُ قَالَ - ثُمَّ اسْحَقُونِى وَاذْرُونِى فِى الرِّيحِ فَإِنِّى لَمْ أَبْتَهِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا وَإِنَّ اللَّهَ يَقْدِرُ عَلَىَّ أَنْ يُعَذِّبَنِى - قَالَ - فَأَخَذَ مِنْهُمْ مِيثَاقًا فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ وَرَبِّى فَقَالَ اللَّهُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ فَقَالَ مَخَافَتُكَ. قَالَ فَمَا تَلاَفَاهُ غَيْرُهَا ».

Abu Sa'eed Al-Khudri narrated from the Prophet (s.a.w): "Allah bestowed wealth and children upon a man among those who came before you. He said to his children: 'Do what I command you, or I will make others my heirs. When I die, burn me"' - and as far as I know, he said - "and crush (my bones), then scatter me in the wind, for I have never done any good that would please Allah, and if Allah gets me, He will punish me.' He took a pledge from them, and they did that for him. By my Lord, Allah said: 'What made you do that?' He said: 'Fear of You.' And that is all that befell him."

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں ایک آدمی تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد سے نوازا تھا ، اس نے اپنی اولاد سے کہا: تم وہ ضرور کرنا جس کا میں تم کو حکم دوں ، ورنہ میں تمہارے علاوہ کسی اور کو اپنے مال کا وارث بنادوں گا ، جب میں مرجاؤں گا تو تم مجھے جلادینا ۔ اور مجھے زیادہ یاد نہیں ہے کہ آپﷺنے فرمایا تھا: پھر مجھے راکھ کرکے ہوا میں اڑادینا ، کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی نیکی نہیں کی اور بے شک اللہ تعالیٰ مجھے عذاب دینے پر قادر ہے پھر اس نے اپنی اولاد سے پکا وعدہ لیا ، سو اس کی اولاد نے ایسا ہی کیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا ہے؟ اس نے کہا: تیرے خوف نے ، آپﷺنے فرمایا: پھر اس آدمی کو اور کوئی عذاب نہیں ہوا۔


وَحَدَّثَنَاهُ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِىُّ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ قَالَ لِى أَبِى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ كِلاَهُمَا عَنْ قَتَادَةَ ذَكَرُوا جَمِيعًا بِإِسْنَادِ شُعْبَةَ نَحْوَ حَدِيثِهِ وَفِى حَدِيثِ شَيْبَانَ وَأَبِى عَوَانَةَ « أَنَّ رَجُلاً مِنَ النَّاسِ رَغَسَهُ اللَّهُ مَالاً وَوَلَدًا ». وَفِى حَدِيثِ التَّيْمِىِّ « فَإِنَّهُ لَمْ يَبْتَئِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا ». قَالَ فَسَّرَهَا قَتَادَةُ لَمْ يَدَّخِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا. وَفِى حَدِيثِ شَيْبَانَ « فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا ابْتَأَرَ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا ». وَفِى حَدِيثِ أَبِى عَوَانَةَ « مَا امْتَأَرَ ». بِالْمِيمِ.

A similar Hadith (as no. 6984) was narrated from Qatadah with the chain of Shu'bah.

یہ حدیث تین سندوں سے مروی ہے ، ابو عوانہ کی روایت میں ہے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد عطا کی تھی اور تیمی کی روایت میں ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی نیکی نہیں کی ، اس کی قتادہ نے یہ تفسیر کی : اس نے اللہ کے نزدیک کوئی خیر نہیں کی اور شیبان کی روایت میں ہے : کیونکہ اس نے اللہ کے نزدیک کوئی خیر نہیں کیا اور ابو عوانہ کی روایت میں ہے : اس نے کوئی نیکی نہیں کی ۔

Chapter No: 5

باب قَبُولِ التَّوْبَةِ مِنَ الذُّنُوبِ وَإِنْ تَكَرَّرَتِ الذُّنُوبُ وَالتَّوْبَةُ

Concerningt he acceptance of repentance even if the sins and repentance are repeated again and again

گناہوں کی توبہ کا قبول ہونا خواہ گناہ اور توبہ بار بار ہوں

حَدَّثَنِى عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِى عَمْرَةَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فِيمَا يَحْكِى عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ « أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى ذَنْبِى. فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَذْنَبَ عَبْدِى ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ. ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَىْ رَبِّ اغْفِرْ لِى ذَنْبِى. فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَبْدِى أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ. ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَىْ رَبِّ اغْفِرْ لِى ذَنْبِى. فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَذْنَبَ عَبْدِى ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ ». قَالَ عَبْدُ الأَعْلَى لاَ أَدْرِى أَقَالَ فِى الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ « اعْمَلْ مَا شِئْتَ ».

It was narrated from Abu Hurairah that in a Hadith Qudsi the Prophet (s.a.w) said, quoting the Lord, the Sublime and Majestic: "A man committed a sin and said: 'O Lord, forgive me.' Allah, Blessed and Exalted is He, said: 'My slave has committed a sin, but he knew that he has a Lord Who forgives sin, and calls people to account for sin.' Then he sinned again and said: 'O Lord, forgive me.' Allah, Blessed and Exalted is He, said: 'My slave has committed a sin, but he knew that he has a Lord Who forgives sin, and calls people to account for sin.' Then he sinned again and said: 'O Lord, forgive me.' Allah, Blessed and Exalted is He, said: 'My slave has committed a sin, but he knew that he has a Lord Who forgives sin, and calls people to account for sin. Do what you wish, for I have forgiven you.'" 'Abdul-A'la said: "I do not know whether he said after the third or the fourth time: 'Do what you wish.'"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے اپنے رب عزوجل سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: ایک بندے نے گناہ کیا اور کہا: اے اللہ !میرے گناہ کو بخش دے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے، اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے ، پھر دوبارہ وہ بندہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرا گناہ معاف کردے ، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے ، وہ بندہ پھر گناہ کرتا ہے اور کہتاہے : اے میرے رب! میرےگناہ کو معاف کردے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے ، تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے ، عبد الاعلیٰ نے کہا: مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا تھا : جو چاہو کرو۔


قَالَ أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنِى مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجُويَهْ الْقُرَشِىُّ الْقُشَيْرِىُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ النَّرْسِىُّ بِهَذَا الإِسْنَادِ.

'Abdul-A'la bin Hammad An-Narsi narrated with this chain of narrators (a Hadith similar to no. 6986).

یہ حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے۔


حَدَّثَنِى عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِى أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ قَالَ كَانَ بِالْمَدِينَةِ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى عَمْرَةَ - قَالَ - فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « إِنَّ عَبْدًا أَذْنَبَ ذَنْبًا». بِمَعْنَى حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. وَذَكَرَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ « أَذْنَبَ ذَنْبًا ». وَفِى الثَّالِثَةِ « قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِى فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ ».

Ishaq bin 'Abdullah bin Abi Talhah said: "In Al-Madinah there was a storyteller called 'Abdur-Rahman bin Abi 'Amrah. I heard him say: 'I heard Abu Hurairah say: "A man committed a sin...'' a Hadith like that of Hammad bin Salamah (no. 6986), and he mentioned three times that he committed a sin, and after the third time (he said): "I have forgiven My slave; let him do what he likes."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ایک بندے نے گناہ کیا ، اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث کی طرح ہے ، اس میں تین مرتبہ ذکر ہے ، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ، وہ جو چاہے سو کرے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِى مُوسَى عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِىءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِىءُ اللَّيْلِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا ».

It was narrated from Abu Musa that the Prophet (s.a.w) said: "Allah holds out His Hand at night to accept the repentance of those who have sinned during the day, and He holds out His Hand by day to accept the repentance of those who have sinned at night – until the sun rises from its place of setting."

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل رات بھر ہاتھ پھیلائے رکھتاہے کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے ، اور دن بھر ہاتھ پھیلائے رکھتا ہے کہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے (پھر توبہ قبول نہیں ہوگی)


وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.

Shu'bah narrated a similar report with this chain of narrators.

یہ حدیث ایک اور سند سے حسب سابق مروی ہے۔

Chapter No: 6

باب غَيْرَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ

Concerning Allah’s sense of honor and the forbiddance of immoral acts

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بے حیائی کے کاموں کی ممانعت

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ. ».

It was narrated that 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'There is no one to whom praise is more dear than Allah, Glorified and Exalted is He, and because of that He praised Himself. And there is no one whose Ghirah (protective jealousy) is greater than Allah's, and because of that He forbade immoral actions, both those that are committed openly and those that are committed in secret."'

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو اپنی تعریف پسند نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی آدمی غیور نہیں ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی تمام بے حیائی کو حرام کردیا ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ - وَاللَّفْظُ لَهُ - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ ».

It was narrated that 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'There is no one whose protective jealousy is greater than Allah's, and because of that He forbade immoral actions, both those that are committed openly and those that are committed in secret. And there is no one to whom praise is more dear than Allah, Glorified and Exalted is He.'"

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ عزوجل سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی تمام بے حیائی کو حرام کردیا ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی آدمی تعریف کوپسند کرنے والا ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قُلْتُ لَهُ آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ وَرَفَعَهُ أَنَّهُ قَالَ « لاَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ ».

It was narrated from 'Amr bin Murrah who said: "I heard Abu Wa'il say: 'I heard 'Abdullah bin Mas'ud say:'"- He said: "I said: 'Did you hear it from 'Abdullah?' He said: 'Yes, and he attributed it to the Prophet (s.a.w)' - 'There is no one whose protective jealousy is greater than Allah's, and because of that He forbade immoral actions, both those that are committed openly and those that are committed in secret. And there is no one to whom praise is more dear than Allah, Glorified and Exalted is He, and because of that He praised Himself."'

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ اللہ عزوجل سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام ظاہری اور باطنی بے حیائی کوحرام کردیا ہے ، اور نہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف فرمائی ہے۔


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ الآخَرَانِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ أَنْزَلَ الْكِتَابَ وَأَرْسَلَ الرُّسُلَ ».

It was narrated that 'Abdullah bin Mas'ud said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'There is no one to whom praise is more dear than Allah, Glorified and Exalted is He, and because of that He praised Himself. And there is no one whose protective jealousy is greater than Allah's, and because of that He forbade immoral actions. And there is no one to whom apologies (repentance) are dearer than Allah, and because of that He sent down the Book and He sent the Messengers."

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ كسی كو اپنی تعریف پسند نہیں ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ كوئی آدمی غیور نہیں ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بے حیائی كے كاموں كو حرام كردیا ہے، اور اللہ عزوجل سے زیادہ كسی كو عذر قبول كرنا پسند نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے كتاب كواتارا ، اور رسولوں كو بھیجا ہے۔


حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِى عُثْمَانَ قَالَ قَالَ يَحْيَى وَحَدَّثَنِى أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ اللَّهَ يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ يَأْتِىَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَيْهِ ».

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Allah has a sense of protective jealousy and the believer has a sense of protective jealousy, too, and the protective jealousy of Allah is provoked when the believer does something that is forbidden to him."'

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بھی غیرت كرتا ہے اور مومن بھی غیرت كرتا ہے، اللہ تعالیٰ كو اس پر غیرت آتی ہے كہ مومن وہ كام كرے جن كو اللہ تعالیٰ نے حرام كردیا ہے۔


قَالَ يَحْيَى وَحَدَّثَنِى أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِى بَكْرٍ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَيْسَ شَىْءٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ».

Asma' bint Abi Bakr narrated that she heard the Messenger of Allah (s.a.w) say: "Nothing has a greater sense of protective jealousy than Allah, Glorified and Exalted is He."

ایك اور سند سے حضرت اسماء بنت ابی بكر رضی اللہ عنہا بیان كرتی ہے كہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل سے زیادہ كوئی غیور نہیں ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ وَحَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِى كَثِيرٍ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم-. بِمِثْلِ رِوَايَةِ حَجَّاجٍ حَدِيثَ أَبِى هُرَيْرَةَ خَاصَّةً وَلَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ أَسْمَاءَ.

A report like that of Hajjaj (no. 6995) was narrated from Abu Hurairah from the Prophet (s.a.w).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبیﷺسے اس كی طرح روایت كی ہے۔


وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِى بَكْرٍ الْمُقَدَّمِىُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ هِشَامٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِى كَثِيرٍ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « لاَ شَىْءَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ».

It was narrated from Asma' that the Prophet (s.a.w) said: "Nothing has a greater sense of protective jealousy than Allah, Glorified and Exalted is He."

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے كہ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل سے زیادہ كوئی غیور نہیں ہے۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ - يَعْنِى ابْنَ مُحَمَّدٍ - عَنِ الْعَلاَءِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « الْمُؤْمِنُ يَغَارُ وَاللَّهُ أَشَدُّ غَيْرًا ».

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (s.a.w) said: "The believer feels protective jealousy towards another believer, and Allah has a greater sense of protective jealousy."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن غیرت كرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ غیرت كرتا ہے۔


وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ الْعَلاَءَ بِهَذَا الإِسْنَادِ.

Shu'bah said: "I heard Al-'Ala'..." (a Hadith similar to no. 6999) with this chain of narrators.

یہ حدیث ایك اور سند سے بھی مروی ہے۔

Chapter No: 7

باب قَوْلِهِ تَعَالَى:{إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ}

Regarding words of Allah, The Most High: “indeed the good deeds take away the bad deeds”

نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِىُّ كِلاَهُمَا عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ - وَاللَّفْظُ لأَبِى كَامِلٍ - حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا التَّيْمِىُّ عَنْ أَبِى عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلاً أَصَابَ مِنِ امْرَأَةٍ قُبْلَةً فَأَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ - قَالَ - فَنَزَلَتْ (أَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ) قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ أَلِىَ هَذِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ « لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِى ».

It was narrated from 'Abdullah bin Mas'ud that a man kissed a woman, then he came to the Prophet (s.a.w) and told him about that. Then it was revealed: "And perform As'-Salat, at the two ends of the day and in some hours of the night. Verily, the good deeds remove the evil deeds (i.e. small sins). That is a reminder (an advice) for the mindful (those who accept advice)." The man said: "Is that just for me, O Messenger of Allah?" He said: "It is for anyone who does that among my Ummah."

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ایك آدمی نے ایك عورت كا بوسہ لیا ، وہ نبیﷺكی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس واقعہ كا ذكر كیا ، تب یہ آیت نازل ہوئی : "دن كے دونوں حصوں اور رات كے كچھ حصوں میں نماز قائم ركھو ، بے شك نیكیاں برائیوں كو دور كردیتی ہیں ، یہ ان لوگوں كے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول كرنے والے ہیں ، ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول ﷺ!كیا یہ بشارت صرف اس آدمی كے لیے ہے؟ آپﷺنے فرمایا: میری امت میں سے جو بھی اس پر عمل كرے سب كے لیے ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ أَنَّهُ أَصَابَ مِنِ امْرَأَةٍ إِمَّا قُبْلَةً أَوْ مَسًّا بِيَدٍ أَوْ شَيْئًا كَأَنَّهُ يَسْأَلُ عَنْ كَفَّارَتِهَا - قَالَ - فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَزِيدَ.

It was narrated from Ibn Mas'ud that a man came to the Prophet (s.a.w) and said that he had done something with a woman, either kissing or touching her hand or something, as if he was asking about the expiation for that. Then Allah revealed (the words) ...and he (the sub narrator) mentioned a Hadith like that of Yazid (no. 7001).

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ نبی ﷺكی خدمت میں ایك آدمی آیا اور اس نے كہا: كہ اس نے ایك عورت كا بوسہ لیا ہے یا اس كو ہاتھ سے چھیڑا ہے ، یا كچھ اور كیا ہے ، گویا كہ وہ اس كے كفارے كےبارے میں سوال كررہا تھا، تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل كی ہے اس كے بعد مذكورہ بالا حدیث كی طرح ہے۔


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِىِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ قَالَ أَصَابَ رَجُلٌ مِنِ امْرَأَةٍ شَيْئًا دُونَ الْفَاحِشَةِ فَأَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَعَظَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَتَى أَبَا بَكْرٍ فَعَظَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَزِيدَ وَالْمُعْتَمِرِ.

It was narrated from Sulaiman At-Taimi with this chain of narrators. He said: "A man did something with a woman that was less than intercourse. He went to 'Umar bin Al-Khattab, who rebuked him strongly, then he went to Abu Bakr, who rebuked him strongly, then he went to the Prophet (s.a.w)..." and he mentioned a Hadith like that of Yazid and Al-Mu'tamir. (no. 7001, 7002)

اسی سند سے روایت ہے كہ ایك آدمی نے ایك عورت كے ساتھ زنا كیے بغیر كوئی كاروائی كی ، وہ حضر ات عمر بن الخطاب ﷺكے پاس گیا ، انہوں نے اس كو بہت بڑا گناہ قرار دیا ، پھر وہ حضرت ابو بكر رضی اللہ عنہ كے پاس گیا ، انہوں نے بھی اس كوبہت سخت گناہ قرار دیا ہے ، پھر وہ نبی ﷺكی خدمت میں حاضر ہوا ، اس كے بعد مذكورہ بالا حدیث كی طرح ہے۔


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى - قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا وَقَالَ الآخَرَانِ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى عَالَجْتُ امْرَأَةً فِى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَإِنِّى أَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ أَنْ أَمَسَّهَا فَأَنَا هَذَا فَاقْضِ فِىَّ مَا شِئْتَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ لَقَدْ سَتَرَكَ اللَّهُ لَوْ سَتَرْتَ نَفْسَكَ - قَالَ - فَلَمْ يَرُدَّ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- شَيْئًا فَقَامَ الرَّجُلُ فَانْطَلَقَ فَأَتْبَعَهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- رَجُلاً دَعَاهُ وَتَلاَ عَلَيْهِ هَذِهِ الآيَةَ (أَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ يَا نَبِىَّ اللَّهِ هَذَا لَهُ خَاصَّةً قَالَ « بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً ».

It was narrated that 'Abdullah said: "A man came to the Prophet (s.a.w) and said: 'O Messenger of Allah, I was intimate with a woman on the outskirts of Al-Madinah, and I did something with her that was less than intercourse. Here I am, judge me as you wish.' 'Umar said to him: 'Allah had concealed you, why didn't you conceal yourself?' But the Prophet (s.a.w) did not answer. The man got up and left, then the Prophet (s.a.w) sent a man to call him back, and he recited this Verse to him: "And perform As-Salat, at the two ends of the day and in some hours of the night. Verily, the good deeds remove the evil deeds (i.e. small sins). That is a reminder (an advice) for the mindful (those who accept advice)". A man among the people said: 'O Prophet of Allah, is it only for him?' He said: 'No, it is for all the people."'

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ایك آدمی نبیﷺكے پاس آیا اور اس نے كہا: اےاللہ كے رسولﷺ!میں نے مدینہ كے آخری كنارے میں ایك عورت كو پكڑلیا اور میں نے دخول كے علاوہ اس سے باقی كاروائی كرلی، اب میں آپﷺكی خدمت میں حاضر ہوں ، آپﷺمیرے بارے جو چاہیں گے فیصلہ فرمائیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے كہا: اللہ تعالیٰ نے تمہارا پردہ ركھا تھا ،كاش! تم بھی اپنا پردہ ركھتے،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبیﷺنے اس كو كوئی جواب نہیں دیا ، وہ آدمی اٹھ كر چلا گیا ، نبیﷺنے ایك اور آدمی بھیج كر اس كو بلوایا اور اس كے سامنے قرآن مجید كی یہ آیت تلاوت كی : " دن كے دونوں حصوں اور رات كے كچھ حصوں میں نماز قائم ركھو، بے شك نیكیاں برائیوں كو دور كردیتی ہیں ، یہ ان لوگوں كے لوگوں كے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول كرنے والے ہیں "۔ ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسولﷺ! كیایہ بشات اسی كے ساتھ خاص ہے ؟ آپﷺنے فرمایا: نہیں ، سب لوگوں كے لیے ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِجْلِىُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ عَنْ خَالِهِ الأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِى الأَحْوَصِ وَقَالَ فِى حَدِيثِهِ فَقَالَ مُعَاذٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا لِهَذَا خَاصَّةً أَوْ لَنَا عَامَّةً قَالَ « بَلْ لَكُمْ عَامَّةً ».

A Hadith like that of Abu Al-Ahwas was narrated from 'Abdullah (no. 7004) from the Prophet, and he said in his Hadith: "Mu'adh said: 'O Messenger of Allah, is it only for him or for all of us?' He said: 'No, it is for all of you."'

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبیﷺسے اس روایت كو ذكر كیا ، اس حدیث میں ہے كہ معاذ رضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے رسولﷺ!كیا یہ اسی كے لیے خاص ہے یا ہم سب كے لیے عام ہے ؟ آپﷺنے فرمایا: بلكہ تم سب كےلیے عام ہے۔


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ الْحُلْوَانِىُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَىَّ - قَالَ - وَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْ فِىَّ كِتَابَ اللَّهِ. قَالَ« هَلْ حَضَرْتَ الصَّلاَةَ مَعَنَا ». قَالَ نَعَمْ. قَالَ « قَدْ غُفِرَ لَكَ ».

It was narrated that Anas said: "A man came to the Prophet (s.a.w) and said: 'O Messenger of Allah, I have committed a sin that may dictate a punishment, so carry it out on me.'" He said: "The time for prayer came, so he prayed with the Messenger of Allah (s.a.w) When the prayer was over he said: 'O Messenger of Allah, I have committed a sin that may dictate a punishment, so punish me according to the Book of Allah.' He (s.a.w) said: 'Did you attend the prayer with us?' He said: 'Yes.' He said: 'You have been forgiven.'"

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ نبی ﷺكے پاس ایك آدمی آیا اور اس نے كہا:اے اللہ كے رسولﷺ! میں حد كو پہنچ چكا ہوں مجھ پر حد جاری كردیجئے ، اتنے میں نماز كا وقت ہوگیا ، تو اس نے رسول اللہﷺكے ساتھ نماز پڑھی ، جب اس نے نماز پڑھ لی تو اس نے كہا: اے اللہ كے رسول ﷺ! میں حد كو پہنچ چكا ہوں آپ اللہ كی كتاب كے مطابق حد قائم كیجئے ، آپﷺنے فرمایا: كیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے ؟ اس نےكہا: جی ہاں ! آپﷺنے فرمایا: تمہاری مغفرت كردی گئی۔


حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِىٍّ الْجَهْضَمِىُّ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ - وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ - قَالاَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا شَدَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَةَ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى الْمَسْجِدِ وَنَحْنُ قُعُودٌ مَعَهُ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَىَّ. فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ثُمَّ أَعَادَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَىَّ. فَسَكَتَ عَنْهُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ نَبِىُّ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو أُمَامَةَ فَاتَّبَعَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ انْصَرَفَ وَاتَّبَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنْظُرُ مَا يَرُدُّ عَلَى الرَّجُلِ فَلَحِقَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَىَّ - قَالَ أَبُو أُمَامَةَ - فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَرَأَيْتَ حِينَ خَرَجْتَ مِنْ بَيْتِكَ أَلَيْسَ قَدْ تَوَضَّأْتَ فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوءَ ». قَالَ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « ثُمَّ شَهِدْتَ الصَّلاَةَ مَعَنَا ». فَقَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ حَدَّكَ - أَوْ قَالَ - ذَنْبَكَ ».

Abu Umamah said: "While the Messenger of Allah (s.a.w) was in the Masjid and we were sitting with him, a man came and said: 'O Messenger of Allah, I have committed a sin that may dictate a punishment, so carry it out on me.' The Messenger of Allah (s.a.w) remained silent and he said again: 'O Messenger of Allah, I have committed a sin that may dictate a punishment, so . carry it out on me.' (The Messenger of Allah (s.a.w) remained silent and he said it a third time, and the Iqamah was called for prayer. When the Prophet of Allah (s.a.w) left, the man followed him, and I (Abu Umamah) also followed the Messenger of Allah (s.a.w) to see how he would answer the man. "The man caught up with the Messenger of Allah (s.a.w) and said: 'O Messenger of Allah, I have committed a sin that may dictate a punishment, so carry it out on me.'" Abu Umamah said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said to him: 'When you came out of your house, did you perform Wudu' and do it well?' He said: 'Yes, O Messenger of Allah.' He said: 'Then did you attend the prayer with us?' He said: 'Yes, O Messenger of Allah.' The Messenger of Allah (s.a.w) said to him: 'Then Allah has forgiven your transgression' - or 'your sin.'"

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ جس وقت رسول اللﷺمسجد میں تشریف فر ما تھے اور ہم آپﷺكے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانك ایك آدمی آیا اور اس نے كہا: اے اللہ كے رسولﷺ!میں نے ایك حد والا كام كیا ہے آپ مجھ پر حد قائم كیجئے ، رسول اللہﷺخاموش رہے ، اس نے دوبارہ كہا:اے اللہ كے رسول ﷺ!میں نے ایك حد والا كام كیا ہے ، آپﷺ مجھ پر حد قائم كیجئے نبیﷺخاموش رہے اور جماعت كھڑی ہوگئی ، جب نبیﷺنماز سے فارغ ہوئے ، ابو امامہ كہتے ہیں كہ جب رسول اللہﷺفارغ ہوئے تو وہ آدمی آپﷺكے پیچھے گیا اور میں بھی رسول اللہﷺكے پیچھے گیا كہ دیكھوں آپﷺاس آدمی كو كیا جواب دیتے ہیں ، وہ آدمی رسول اللہﷺسے ملا اور كہا: اے اللہ كے رسول ﷺ!میں نے ایك حد والا كام كیا ہے ، آب مجھ پر حد قائم كریں ، حضرت ابو امامہ كہتے ہیں كہ رسول اللہﷺنے اس سے فرمایا: یہ بتاؤ كہ جب تم گھر سے چلے تھے كیاتم نے اچھی طرح وضو نہیں كیا تھا ؟ اس نے كہا: كیوں نہیں اے اللہ كےرسولﷺ! آپﷺنے فرمایا: پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ اس نے كہا: ہاں ! اے اللہ كے رسولﷺ!رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری حد كو یا فرمایا: تمہارے گناہوں كو اس نماز سے معاف كردیا۔

Chapter No: 8

بابُ قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ

Concerning the acceptance of repentance of a murderer even if he has killed numerous people

قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ - وَاللَّفْظُ لاِبْنِ الْمُثَنَّى - قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِى أَبِى عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِى الصِّدِّيقِ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ أَنَّ نَبِىَّ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لَهُ مِنَ تَوْبَةٍ فَقَالَ لاَ. فَقَتَلَهُ فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ نَعَمْ وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ وَلاَ تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ. فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ فَقَالَتْ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلاً بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ. وَقَالَتْ مَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ. فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِى صُورَةِ آدَمِىٍّ فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ فَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَ الأَرْضَيْنِ فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ. فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الأَرْضِ الَّتِى أَرَادَ فَقَبَضَتْهُ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ ». قَالَ قَتَادَةُ فَقَالَ الْحَسَنُ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ.

It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri that the Prophet of Allah (s.a.w) said: "Among those who came before you there was a man who killed ninety-nine people, then he asked who the most knowledgeable man on earth was, and he was directed to a monk. He went to him and told him that he had killed ninety-nine people; could he repent? The monk said no, so he killed him, thus completing one hundred. Then he asked who the most knowledgeable man on earth was, and he was directed to a man of knowledge, and said that he had killed one hundred people; could he repent? He said: 'Yes, who could stand between him and repentance? Go to such and such a land, for therein there are people who worship Allah, so go and worship Allah with them, and do not go back to your own land for it is a bad land.' So he set out, then when he was halfway there, death came upon him. The Angels of mercy and the Angels of torment disputed over him. The Angels of mercy said: 'He came repenting and turning whole-heatedly towards Allah.' The Angels of torment said: 'He never did anything good.' Then an angel in the form of a man came to them and they appointed him (to decide) between them. He said: 'Measure the distance between the two lands, and whichever is closer, that is where he belongs.' So they measured it and they found that he was closer to the land that he was heading for, so the Angels of mercy took him.'' Qatadah said: "Al-Hasan said: 'We were told that when death came to him, he leaned forward (towards the land he was heading for).'"

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ نبی ﷺنے فرمایا: تم سےپہلی امتوں میں سے ایك آدی نے ننانوے قتل كیے ، پھر اس نے زمین والوں سے پوچھا كہ سب سے بڑا عالم كون ہے ؟ اسے ایك راہب كا پتا بتایا گیا ، وہ آدمی اس راہب كے پاس گیا اور یہ كہاكہ اس نے ننانوے قتل كیے ہیں ، كیا اس كی توبہ ہوسكتی ہے ؟ اس نے كہا: نہیں اس آدمی نے اس راہب كوبھی قتل كركے پورے سو قتل كردیے ، پھر اس نے سوال كیا كہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم كون ہے ؟ تو اس كو ایك عالم كا پتا دیا گیا ، اس آدمی نے كہا: اس نے سو قتل كیے ہیں كیا اس كی توبہ ہوسكتی ہے ؟ عالم نے كہا: ہاں ! توبہ كی قبولیت میں كیا روكاوٹ ہے، جاؤ فلاں فلاں جگہ پر جاؤ ، وہاں كچھ لوگ اللہ تعالیٰ كی عبادت كرہے ہیں تم ان كے ساتھ اللہ تعالیٰ كی عبادت كرو اور اپنی زمین كی طرف واپس نہ جاؤكیونكہ وہ بری جگہ ہے وہ آدمی روانہ ہوا ، جب وہ نصف راستے پر پہنچا تو اس كو موت آگئی اور اس كے بارے میں رحمت اور عذاب كے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا ، رحمت كےفرشتوں نے كہا: یہ آدمی توبہ كرتا ہوا اور دل سے اللہ تعالیٰ كی طرف متوجہ ہوتاہوا آیا تھا اور عذاب كے فرشتوں نے كہا: اس نے بالكل كوئی نیك عمل نہیں كیا ، پھر ان كے پاس آدمی كی صورت میں ایك فرشتہ آیا ، انہوں نے اس كو اپنے درمیان حكم بنالیا ، اس نے كہا: دونوں زمینوں كی پیمائش كرو، وہ جس زمین كے زیادہ قریب ہے اسی كے مطابق حكم ہوگا ، جب انہوں نے پیمائش كی تو وہ اس زمین كے زیادہ قریب تھا جہاں اس نے جانے كا ارادہ كیا تھا ، پھر رحمت كے فرشتوں نے اس پر قبضہ كرلیا ، حسن نے بیان كیا ہے كہ جب اس پر موت آئی تو اس نے اپنا سینہ پہلی جگہ سے دور كرلیا تھا۔


حَدَّثَنِى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِىُّ حَدَّثَنَا أَبِى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الصِّدِّيقِ النَّاجِىَّ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- « أَنَّ رَجُلاً قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَجَعَلَ يَسْأَلُ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَيْسَتْ لَكَ تَوْبَةٌ. فَقَتَلَ الرَّاهِبَ ثُمَّ جَعَلَ يَسْأَلُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَى قَرْيَةٍ فِيهَا قَوْمٌ صَالِحُونَ فَلَمَّا كَانَ فِى بَعْضِ الطَّرِيقِ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَنَأَى بِصَدْرِهِ ثُمَّ مَاتَ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ فَكَانَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ مِنْهَا بِشِبْرٍ فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا ».

It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri from the Prophet (s.a.w): "A man killed ninety-nine people, then he started asking whether he could repent. He came to a monk and asked him, and he said: 'You cannot repent,' so he killed the monk. Then he started asking, then he left that town for another town where there were righteous people. When he was part-way there, death overtook him, and he died when he was leaning forward. The Angels of mercy and the Angels of torment disputed over him, but he was closer to the righteous town by a handspan, so he was counted as one of its people."

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ نبی ﷺنے فرمایا: ایك آدمی نے ننانوے آدمیوں كو قتل كیا ، پھر وہ یہ پوچھتا پھرتا تھاكہ كیا اس كی توبہ ہوسكتی ہے؟ اس نے راہب كے پاس جاكر یہ سوال كیا : كیا اس كی توبہ ہے ؟ راہب نے كہا: تمہاری توبہ نہیں ہوسكتی ہے ، اس نے راہب كو بھی قتل كردیا ہے ، اس نے پھر سوال كرنا شروع كیا اور وہ اس بستی سے نكل كر دوسری بستی كی طرف جانے لگا ، جس میں كچھ نیك لوگ رہتے تھے ، جب اس نے راستہ كا كچھ حصہ طے كرلیا تو اس كو موت آلیا ، اس نے اپنا سینہ كچھ دور كردیا ، پھر مرگیا ، پھر رحمت كے فرشتوں اور عذاب كے فرشتوں میں بحث ہوئی ، وہ ایك بالشت كے برابر نیك آدمیوں كی بستی كے قریب تھا ، سو اس كو اس بستی والوں كے ساتھ كردیا گیا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى عَدِىٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ مُعَاذٍ وَزَادَ فِيهِ « فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِى وَإِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِى ».

A Hadith like that of Mu'adh bin Mu'adh (no. 7009) was narrated from Qatadah with this chain of narrators, and he added: "Allah ordered to (one land) to move away, and to (the other land) to come closer.''

یہ حدیث ایك اور سند سے مروی ہے اس میں ہے كہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین سے كہا: تو دور ہوجا اور اس زمین سے كہا: توسمٹ جا۔


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَبِى بُرْدَةَ عَنْ أَبِى مُوسَى قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دَفَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى كُلِّ مُسْلِمٍ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا فَيَقُولُ هَذَا فَكَاكُكَ مِنَ النَّارِ ».

It was narrated that Abu Musa said: "The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'When the Day of Resurrection comes, Allah, Glorified and Exalted is He, will give every Muslim a Jew or a Christian, and He will say: "This is your ransom from the Fire."

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے كہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جب قیامت كا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان كو ایك یہودی یا ایك نصرانی دے گا اور فرمائے گا : یہ جہنم سےتمہارا چھٹكارا ہے۔


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ أَنَّ عَوْنًا وَسَعِيدَ بْنَ أَبِى بُرْدَةَ حَدَّثَاهُ أَنَّهُمَا شَهِدَا أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ يَمُوتُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلاَّ أَدْخَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ النَّارَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا ». قَالَ فَاسْتَحْلَفَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بِاللَّهِ الَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ فَحَلَفَ لَهُ - قَالَ - فَلَمْ يُحَدِّثْنِى سَعِيدٌ أَنَّهُ اسْتَحْلَفَهُ وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَى عَوْنٍ قَوْلَهُ.

'Awn and Sa'eed bin Abi J3urdah narrated that they witnessed Abu Burdah narrating to 'Umar bin 'Abdul' Aziz from his father that the Prophet (s.a.w) said: "No Muslim man dies but Allah causes a Jew or a Christian to enter the Fire in his stead." 'Umar bin 'Abdul' Aziz asked him to swear by Allah, besides Whom none has the right to be worshiped, three times, that his father narrated that to him from the Prophet (s.a.w), and he swore to him. Sa'eed did not tell me that he asked him to swear, but he did not object to what 'Awn said.

حضرت ابو بردہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ كو ایك حدیث بیان كررہے تھے جووہ اپنے والد سے روایت كرتے ہیں كہ نبی ﷺنے فرمایا: جومسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس كے بدلہ میں ایك یہودی یا ایك نصرانی كو جہنم میں داخل كرتا ہے ، عمر بن عبد العزیز نے حضرت ابو بردہ كو تین مرتبہ اس ذات كی قسم دی جس كے سواكوئی معبود نہیں ، كہ واقعی ان كے والد نے رسول اللہﷺسے یہ حدیث سنی ہے ، انہوں نے قسم كھائی ، قتادہ كہتے ہیں كہ سعید نے مجھ سے قسم لینے كا ذكر نہیں كیا ، اور نہ انہوں نے اس پر كوئی اعتراض كیا۔


حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى جَمِيعًا عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ عَفَّانَ وَقَالَ عَوْنُ بْنُ عُتْبَةَ.

Qatadah narrated a Hadith like that of 'Affan (no.7012), with this chain of narrators, and he said: "Awn bin 'Utbah."

یہ حدیث ایك اور سند سے حسب سابق مروی ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَبَلَةَ بْنِ أَبِى رَوَّادٍ حَدَّثَنَا حَرَمِىُّ بْنُ عُمَارَةَ حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِىُّ عَنْ غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِى بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يَجِىءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِذُنُوبٍ أَمْثَالِ الْجِبَالِ فَيَغْفِرُهَا اللَّهُ لَهُمْ وَيَضَعُهَا عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى ». فِيمَا أَحْسِبُ أَنَا. قَالَ أَبُو رَوْحٍ لاَ أَدْرِى مِمَّنِ الشَّكُّ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ فَحَدَّثْتُ بِهِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالَ أَبُوكَ حَدَّثَكَ هَذَا عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قُلْتُ نَعَمْ.

It was narrated from Abu Burdah from his father that the Prophet (s.a.w) said: "On the Day of Resurrection some Muslim people will come with sins like mountains, but Allah will forgive them and will place them (the sins) on the Jews and the Christians" as far as I reckon. Abu Rawh said: "I do not know who is the one who was uncertain." Abu Burdah said: "I narrated that to 'Umar bin 'Abdul-'Aziz and he said: 'Did your father narrate that to you from the Messenger of Allah (s.a.w) ?' I said: 'Yes.'"

حضرت ابو بردہ اپنے والد سے روایت كرتے ہیں ہیں كہ نبی ﷺنے فرمایا: قیامت كے دن كچھ مسلمان پہاڑ جتنے گناہ لے كر آئیں گے ، اللہ تعالیٰ ان كےوہ گناہ بخش دے گا اور گناہ یہود و نصاریٰ پر ڈال دے گا، جہاں تك میرا خیال ہے كہ ابو روح نے كہا: مجھے معلوم نہیں كہ یہ شك كس كو تھا ؟ حضرت ابو بردہ نے كہا: میں نے یہ حدیث عمر بن عبد العزیز كوبیان كی، انہوں نے كہا: تمہارے والد نے یہ حدیث نبی ﷺسے روایت كی تھی ؟ میں نے كہا: ہاں۔


حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِىِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لاِبْنِ عُمَرَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ فِى النَّجْوَى قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ « يُدْنَى الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ فَيَقُولُ هَلْ تَعْرِفُ فَيَقُولُ أَىْ رَبِّ أَعْرِفُ . قَالَ فَإِنِّى قَدْ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِى الدُّنْيَا وَإِنِّى أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ. فَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ فَيُنَادَى بِهِمْ عَلَى رُءُوسِ الْخَلاَئِقِ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ ».

It was narrated that Safwan bin Muhriz said: "A man said to Ibn 'Umar: 'What did you hear the Messenger of Allah (s.a.w) say about Najwa (private conversation)?' He said: 'I heard him say: "On the Day of Resurrection the believer will be brought close to his Lord (the Mighty and Sublime), until He places His concealment over him, then He will make him confess his sins, and He will say: 'Do you admit it?' He will say: 'Yes, O Lord, I admit it.' He will say: 'I concealed them for you in the world and I forgive you for them today.' Then he will be given the record of his good deeds. As for the disbelievers and the hypocrites, it will be called out before all of creation: These are the ones who disbelieved in Allah."'

حضرت صفوان بن محرز بیان كرتے ہیں كہ ایك آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے نبی ﷺسے سرگوشی كے بارے میں كس طرح سنا تھا ،انہوں نے كہا: میں نے آپﷺكو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے كہ قیامت كے دن ایك مومن اپنے رب عزوجل كے قریب ہوگا یہاں تك كہ اللہ تعالیٰ اس كو اپنی رحمت كے پر میں چھپالے گا ، پھر اس سے اس كے گناہوں كا اقرار كرائے گا ، كیا تو پہچانتاہے ؟ وہ كہے گا : ہاں میرے رب میں پہچانتا ہوں ، اللہ فرمائے گا : میں نے دنیا میں تیرے گناہ كو چھپایا تھا اور میں آج تیرے گناہ كو معاف كردیتا ہوں ، پھر اس كو اس كی نیكیوں كا اعمال نامہ دے دیا جائے گا اور كفار اور منافقوں كو لوگوں كے سامنے بلایا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ كی تكذیب كی تھی۔

Chapter No: 9

باب حَدِيثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَيْهِ

Concerning the repentance of Ka’b bin Malik and his two companions

حضرت کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کی توبہ کا بیان

حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ مَوْلَى بَنِى أُمَيَّةَ أَخْبَرَنِى ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ ثُمَّ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- غَزْوَةَ تَبُوكَ وَهُوَ يُرِيدُ الرُّومَ وَنَصَارَى الْعَرَبِ بِالشَّامِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ كَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِىَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى غَزْوَةِ تَبُوكَ قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ إِلاَّ فِى غَزْوَةِ تَبُوكَ غَيْرَ أَنِّى قَدْ تَخَلَّفْتُ فِى غَزْوَةِ بَدْرٍ وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهُ إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَالْمُسْلِمُونَ يُرِيدُونَ عِيرَ قُرَيْشٍ حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهُمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلاَمِ وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِى بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِى النَّاسِ مِنْهَا وَكَانَ مِنْ خَبَرِى حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى غَزْوَةِ تَبُوكَ أَنِّى لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلاَ أَيْسَرَ مِنِّى حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِى تِلْكَ الْغَزْوَةِ وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَهَا رَاحِلَتَيْنِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِى تِلْكَ الْغَزْوَةِ فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى حَرٍّ شَدِيدٍ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا كَثِيرًا فَجَلاَ لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِمُ الَّذِى يُرِيدُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَثِيرٌ وَلاَ يَجْمَعُهُمْ كِتَابُ حَافِظٍ - يُرِيدُ بِذَلِكَ الدِّيوَانَ - قَالَ كَعْبٌ فَقَلَّ رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ يَظُنُّ أَنَّ ذَلِكَ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْىٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلاَلُ فَأَنَا إِلَيْهَا أَصْعَرُ فَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَىْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا. وَأَقُولُ فِى نَفْسِى أَنَا قَادِرٌ عَلَى ذَلِكَ إِذَا أَرَدْتُ. فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِى حَتَّى اسْتَمَرَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- غَادِيًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِى شَيْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِى حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ فَيَا لَيْتَنِى فَعَلْتُ ثُمَّ لَمْ يُقَدَّرْ ذَلِكَ لِى فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِى النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَحْزُنُنِى أَنِّى لاَ أَرَى لِى أُسْوَةً إِلاَّ رَجُلاً مَغْمُوصًا عَلَيْهِ فِى النِّفَاقِ أَوْ رَجُلاً مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ وَلَمْ يَذْكُرْنِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى بَلَغَ تَبُوكًا فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِى الْقَوْمِ بِتَبُوكَ « مَا فَعَلَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ ». قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِى سَلِمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَالنَّظَرُ فِى عِطْفَيْهِ. فَقَالَ لَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِئْسَ مَا قُلْتَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا. فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ رَأَى رَجُلاً مُبَيِّضًا يَزُولُ بِهِ السَّرَابُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « كُنْ أَبَا خَيْثَمَةَ ». فَإِذَا هُو أَبُو خَيْثَمَةَ الأَنْصَارِىُّ وَهُوَ الَّذِى تَصَدَّقَ بِصَاعِ التَّمْرِ حِينَ لَمَزَهُ الْمُنَافِقُونَ. فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا بَلَغَنِى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَدْ تَوَجَّهَ قَافِلاً مِنْ تَبُوكَ حَضَرَنِى بَثِّى فَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ بِمَ أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَأَسْتَعِينُ عَلَى ذَلِكَ كُلَّ ذِى رَأْىٍ مِنْ أَهْلِى فَلَمَّا قِيلَ لِى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّى الْبَاطِلُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنِّى لَنْ أَنْجُوَ مِنْهُ بِشَىْءٍ أَبَدًا فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَادِمًا وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلاً فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلاَنِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ حَتَّى جِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ « تَعَالَ ». فَجِئْتُ أَمْشِى حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِى « مَا خَلَّفَكَ ». أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ ». قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّى سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلاً وَلَكِنِّى وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّى لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَىَّ وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَىَّ فِيهِ إِنِّى لأَرْجُو فِيهِ عُقْبَى اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَانَ لِى عُذْرٌ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلاَ أَيْسَرَ مِنِّى حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتَّى يَقْضِىَ اللَّهُ فِيكَ ». فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِى سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِى فَقَالُوا لِى وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا لَقَدْ عَجَزْتَ فِى أَنْ لاَ تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِمَا اعْتَذَرَ بِهِ إِلَيْهِ الْمُخَلَّفُونَ فَقَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لَكَ. قَالَ فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونَنِى حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأُكَذِّبَ نَفْسِى - قَالَ - ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ هَلْ لَقِىَ هَذَا مَعِى مِنْ أَحَدٍ قَالُوا نَعَمْ لَقِيَهُ مَعَكَ رَجُلاَنِ قَالاَ مِثْلَ مَا قُلْتَ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ - قَالَ - قُلْتُ مَنْ هُمَا قَالُوا مُرَارَةُ بْنُ رَبِيعَةَ الْعَامِرِىُّ وَهِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِىُّ - قَالَ - فَذَكَرُوا لِى رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شِهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ - قَالَ - فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِى. قَالَ وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلاَمِنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ - قَالَ - فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ - وَقَالَ - تَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ لِى فِى نَفْسِىَ الأَرْضُ فَمَا هِىَ بِالأَرْضِ الَّتِى أَعْرِفُ فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً فَأَمَّا صَاحِبَاىَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِى بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلاَةَ وَأَطُوفُ فِى الأَسْوَاقِ وَلاَ يُكَلِّمُنِى أَحَدٌ وَآتِى رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِى مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَأَقُولُ فِى نَفْسِى هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلاَمِ أَمْ لاَ ثُمَّ أُصَلِّى قَرِيبًا مِنْهُ وَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلاَتِى نَظَرَ إِلَىَّ وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّى حَتَّى إِذَا طَالَ ذَلِكَ عَلَىَّ مِنْ جَفْوَةِ الْمُسْلِمِينَ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِى قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّى وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَىَّ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَىَّ السَّلاَمَ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا قَتَادَةَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَنَّ أَنِّى أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قَالَ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. فَفَاضَتْ عَيْنَاىَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِى فِى سُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِىٌّ مِنْ نَبَطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ يَقُولُ مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ - قَالَ - فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ إِلَىَّ حَتَّى جَاءَنِى فَدَفَعَ إِلَىَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ وَكُنْتُ كَاتِبًا فَقَرَأْتُهُ فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلاَ مَضْيَعَةٍ فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ. قَالَ فَقُلْتُ حِينَ قَرَأْتُهَا وَهَذِهِ أَيْضًا مِنَ الْبَلاَءِ. فَتَيَامَمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهَا بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ وَاسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَأْتِينِى فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ. قَالَ فَقُلْتُ أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ قَالَ لاَ بَلِ اعْتَزِلْهَا فَلاَ تَقْرَبَنَّهَا - قَالَ - فَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَىَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ - قَالَ - فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِى الْحَقِى بِأَهْلِكِ فَكُونِى عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِىَ اللَّهُ فِى هَذَا الأَمْرِ - قَالَ - فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ قَالَ « لاَ وَلَكِنْ لاَ يَقْرَبَنَّكِ ». فَقَالَتْ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَىْءٍ وَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِى مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا. قَالَ فَقَالَ لِى بَعْضُ أَهْلِى لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى امْرَأَتِكَ فَقَدْ أَذِنَ لاِمْرَأَةِ هِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ - قَالَ - فَقُلْتُ لاَ أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَمَا يُدْرِينِى مَاذَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ - قَالَ - فَلَبِثْتُ بِذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ فَكَمُلَ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نُهِىَ عَنْ كَلاَمِنَا - قَالَ - ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلاَةَ الْفَجْرِ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِى ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَّا قَدْ ضَاقَتْ عَلَىَّ نَفْسِى وَضَاقَتْ عَلَىَّ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَى عَلَى سَلْعٍ يَقُولُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ - قَالَ - فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ. - قَالَ - فَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- النَّاسَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلاَةَ الْفَجْرِ فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا فَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَىَّ مُبَشِّرُونَ وَرَكَضَ رَجُلٌ إِلَىَّ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ قِبَلِى وَأَوْفَى الْجَبَلَ فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ فَلَمَّا جَاءَنِى الَّذِى سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِى فَنَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَىَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ بِبِشَارَتِهِ وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ. فَلَبِسْتُهُمَا فَانْطَلَقْتُ أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَتَلَقَّانِى النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنِّئُونِى بِالتَّوْبَةِ وَيَقُولُونَ لِتَهْنِئْكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ. حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- جَالِسٌ فِى الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ النَّاسُ فَقَامَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِى وَهَنَّأَنِى وَاللَّهِ مَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ. قَالَ فَكَانَ كَعْبٌ لاَ يَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ. قَالَ كَعْبٌ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ وَيَقُولُ « أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ ». قَالَ فَقُلْتُ أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَقَالَ « لاَ بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ». وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ - قَالَ - وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ - قَالَ - فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِى أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِى صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ -صلى الله عليه وسلم-. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ». قَالَ فَقُلْتُ فَإِنِّى أُمْسِكُ سَهْمِىَ الَّذِى بِخَيْبَرَ - قَالَ - وَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَنْجَانِى بِالصِّدْقِ وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِى أَنْ لاَ أُحَدِّثَ إِلاَّ صِدْقًا مَا بَقِيتُ - قَالَ - فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلاَهُ اللَّهُ فِى صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِلَى يَوْمِى هَذَا أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلاَنِى اللَّهُ بِهِ وَاللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذْبَةً مُنْذُ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِلَى يَوْمِى هَذَا وَإِنِّى لأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِىَ اللَّهُ فِيمَا بَقِىَ. قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ (لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِى سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ) حَتَّى بَلَغَ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ) قَالَ كَعْبٌ وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ إِذْ هَدَانِى اللَّهُ لِلإِسْلاَمِ أَعْظَمَ فِى نَفْسِى مِنْ صِدْقِى رَسُولَ اللَّهُ -صلى الله عليه وسلم- أَنْ لاَ أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْىَ شَرَّ مَا قَالَ لأَحَدٍ وَقَالَ اللَّهُ ( سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ) قَالَ كَعْبٌ كُنَّا خُلِّفْنَا أَيُّهَا الثَّلاَثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ حَلَفُوا لَهُ فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّهُ فِيهِ فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ (وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا) وَلَيْسَ الَّذِى ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا تَخَلُّفَنَا عَنِ الْغَزْوِ وَإِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ.

It was narrated that Ibn Shihab said: "Then the Messenger of Allah (s.a.w) went out on the campaign of Tabuk, heading towards the Byzantines and the Arab-Christians of Ash-Sham." Ibn Shihab said: "And 'Abdur-Rahman bin 'Abdullah bin Ka'b bin Malik narrated, that 'Abdullah bin Ka'b - who was the one among his children who became Ka'b's guide when he became blind - said: 'I heard Ka'b bin Malik narrate the story of him staying behind when the Messenger of Allah (s.a.w) went out on the campaign to Tabuk. Ka'b bin Malik said: "I did not stay behind from any campaign that the Messenger of Allah (s.a.w) went out on, except the campaign of Tabuk. I also stayed behind from the campaign of Badr, but the Messenger of Allah did not admonish anyone who stayed behind from it. Rather the Messenger of Allah (s.a.w) and the Muslims went out seeking the caravan of the Quraish, but Allah brought them and their enemy face-to-face without there being any intention of fighting. I was present with the Messenger of Allah (s.a.w) on the night of Al'-Aqabah, when we swore our allegiance to Islam. That was not dearer to me than being present at Badr, although (the battle of) Badr was more famous among the people. When I stayed behind from going on the campaign to Tabuk with the Messenger of Allah (s.a.w), I was never stronger or better off than when I stayed behind from that campaign. By Allah, I had never had two mounts at the same time I had two mounts at the time of that campaign. The Messenger of Allah (s.a.w) waged this campaign at a time of intense heat, and was undertaking a long journey in a waterless land, and aiming to confront an enemy greater in numbers. He made the situation clear to the Muslims so that they could fully prepare themselves for their campaign. He told them the direction in which he wanted to go. The Muslims who were with the Messenger of Allah (s.a.w) were many, and there was no proper written record of them." Ka'b said: "Few men wanted to stay behind, and they thought that they could easily conceal themselves, so long as no Revelation came down from Allah, Glorified and Exalted is He, concerning them. The Messenger of Allah (s.a.w) went out on that campaign when the fruits were ripe and the shade was very attractive, and I had a fondness for those fruits. The Messenger of Allah (s.a.w) made preparations, as did the Muslims with him. I would set out in the morning to make my preparations along with them, then I would come back and did not do anything. I said to myself: 'I can do that when I want to.' I kept on delaying that until the people were about to depart. The Messenger of Allah (s.a.w) set out one morning and the Muslims set out with him, but I had not made any preparations. Then I went out and came back, and I did not do anything. I continued to do that until they had covered some distance, and I thought of riding and catching up with them. Would that I had done that, but that was not decreed for me. "When I went out among the people, after the departure of the Messenger of Allah (s.a.w), I would feel shocked and upset to see that there was no one else of my caliber, except a man who was accused of being a hypocrite or a man who had been excused because of physical weakness. The Messenger of Allah (s.a.w) did not remember me until he reached Tabuk, then he said, while he was sitting among the people in Tabuk: 'What happened to Ka'b bin Malik?' A man from Banu Salamah said: 'O Messenger of Allah, his cloak and self admiration have detained him.' Mu'adh bin Jabal said to him: 'What a bad thing you have said! By Allah, O Messenger of Allah, we know nothing but good about him.' The Messenger of Allah (s.a.w) remained silent and while he was like that, he saw a man dressed in white, shimmering like a mirage. The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Be Abu Khaithamah' and it was Abu Khaithamah Al-Ansari, who was the one who gave a Sa' in charity and was mocked by the hypocrites.'' Ka'b bin Malik said: "When I heard that the Messenger of Allah (s.a.w) was on his way back from Tabuk, I became very worried and I began to think of telling a lie, but then I said: 'How will I save myself from His wrath tomorrow?' I sought the advice of every wise man among my people. When I was told that the arrival of the Messenger of Allah (s.a.w) was imminent, all false ideas left me, and I knew that nothing could save me from his wrath, so I decided to tell him the truth. The Messenger of Allah (s.a.w) arrived in the morning, and whenever he returned from a journey, he would start by going to the Masjid and praying two Rak'ah there, then he would sit to talk to the people. When he had done that, those who had stayed behind came to him and started offering their excuses and swearing oaths to him. "There were eighty-odd men, and the Messenger of Allah (s.a.w) accepted their excuses as they appeared to be, and he accepted their oaths of allegiance and prayed for forgiveness for them, and he left their inward intentions to Allah. Then I came, and when I greeted him with Salam, he smiled in the manner of one who is angry. Then he said: 'Come here.' So I came and sat before him, and he said to me: 'What kept you behind? Did you not buy amount?' I said: 'O Messenger of Allah, by Allah, if I sat before anyone in this world other than you, I would have saved myself from his anger with an excuse, for I have been given the ability to argue, but by Allah, I know that if I were to tell you a lie today that you accepted, soon Allah would make you angry with me, but if I tell you the truth today, you will be annoyed with me, yet I hope that Allah will cause it to end well. By Allah, I had no excuse. By Allah, I was never stronger or more well-off than when I stayed behind and did not accompany you.' The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'As for this one, he has spoken the truth. Get up and leave until Allah decides concerning you.' "So I left, and some men of Banu Salamah came rushing after me and said to me: 'By Allah, we never knew you to commit any sin before this, but you were unable to offer any excuse to the Messenger of Allah (s.a.w) as the others who stayed behind did. It would have been sufficient for your sin if the Messenger of Allah (s.a.w) had prayed for forgiveness for you.' "By Allah, they kept rebuking me until I wanted to go back to the Messenger of Allah (s.a.w) and contradict myself. Then I said to them: 'Is there anyone else in the same position as me?' They said: 'Yes, there are two men in the same position as you; they said something like what you said, and they were told something like what you were told.' I said: 'Who are they?' They said: 'Murarah bin Rabi'ah Al'-Amiri and Hilal bin Umayyah Al-Waqifi.' They mentioned to me two righteous men who had been present at (the battle of) Badr, and there was an example for me in them. So I went away when they mentioned them to me. "The Messenger of Allah (s.a.w) forbade the Muslims to speak to the three of us among those who had stayed behind. So the people shunned us, or their attitude towards us changed, until it seemed to me that the land itself had turned hostile towards me, and it was no longer the land that I knew. We stayed like that for fifty nights. As for my two companions, they stayed in their houses weeping, but I was the youngest and strongest of them. I would go out and attend the prayer, and go around in the marketplaces, and no one would speak to me. I would go to the Messenger of Allah (s.a.w) and greet him with Salam, when he was sitting with the people after prayer, and I would say to myself: 'Did his lips move in response or not?' Then I would pray standing close to him, stealing glances at him. When I focused on my prayer, he would look at me, then when I looked at him he would turn away. Then when this harsh treatment of the Muslims had gone on for too long, I went and climbed the wall of the garden of Abu Qatadah, who was my paternal cousin and the dearest of people to me, and I greeted him with Salam but by Allah, he did not return the greeting. I said to him: 'O Abu Qatadah, I adjure you by Allah, do you know that I love Allah and His Messenger?' He remained silent, so I adjured him again, and he remained silent. Then I adjured him again and he said: 'Allah and His Messenger know best.' My eyes filled with tears, and I turned away and climbed back over the wall. "While I was walking in the marketplace of Al-Madinah, I saw a farmer from Ash-Sham, one of those who had brought foodstuff to sell in Al-Madinah. He was saying: 'Who will show me where Ka'b bin Malik is?' The people started to point me out to him, and he came to me and gave me a letter from the king of Ghassan. I was literate, so I read it and it said: "'We have heard that your companion is treating you cruelly, and you do not have to stay in a place where you are humiliated and have no rights. Come to us and we will support you.' When I read it, I said: 'This is also part of the test,' and went to the oven and threw it in. Then when forty of the fifty days had passed, and no Revelation had come, the envoy of the Messenger of Allah (s.a.w) came to me and said: 'The Messenger of Allah (s.a.w) has ordered you to keep away from your wife.' I said: 'Should I divorce her, or what should I do?' He said: 'No, just keep away from her, and do not come near her.' And he sent word to my two companions with similar orders. I said to my wife: 'Go to your family and stay with them until Allah decides concerning this matter.' The wife of Hilal bin Umayyah came to the Messenger of Allah (s.a.w) and said to him: 'O Messenger of Allah, Hilal bin Umayyah is an old man who has no servant and no one to take care of him. Do you object if I serve him?' He said: 'No, but he should not come near you.' She said: 'By Allah, he has no such desire; he has not stopped weeping from the moment this happened until today.' "Some of my family said to me: 'Why don't you ask the Messenger of Allah (s.a.w) for permission concerning your wife, for he has given the wife of Hilal bin Umayyah permission to serve him.' I said: 'I will not ask the Messenger of Allah (s.a.w) for permission concerning her, for how can I know what the Messenger of Allah (s.a.w) will say if I ask him for permission concerning her, when I am a young man?' I stayed like that for ten days, which completed fifty days from the time when it had become forbidden to speak to us. Then I prayed Fajr on the morning of the fiftieth day, on the roof of one of our houses. While I was sitting in the manner that Allah, Glorified and Exalted is He, described us, my own self was straitened for me and the earth, vast as it is, was straitened for me, I heard the voice of someone shouting from the top of Mount Sal', saying at the top of his voice: 'O Ka'b bin Malik, be of good cheer!' I fell down in prostration, for I knew that a way out had come. "The Messenger of Allah (s.a.w) had announced to the people that Allah had accepted our repentance when he prayed Fajr, and the people started to give us the glad tidings. They went to my two companions to tell them the glad tidings, and one man came to me galloping on his horse, and a man from Aslam came rushing to me, and he stood on top of the mountain and shouted. The man's voice was swifter than the horse. When the one whose voice I had heard giving me the glad tidings came to me, I took off my cloak and gave it to him in return for his good news. By Allah, I did not have any other garment at that time, and I had to borrow two garments and put them on. I set out to go to the Messenger of Allah (s.a.w), and I was met by the people, group after group, congratulating me for my repentance and saying: 'Congratulations for Allah's acceptance of your repentance.' Then I entered the Masjid and saw the Messenger of Allah (s.a.w) sitting there with the people around him. Talhah bin 'Ubaidullah got up and ran towards me to shake my hand and congratulate me, but by Allah, no man among the Muhajirin got up except him." (The sub narrator said:) Ka'b never forgot that (gesture) of Talhah's. Ka'b said: "When I greeted the Messenger of Allah (s.a.w) with Salam, he said, with his face shining with joy: 'Be of good cheer, for this is the best day you have ever had since the day your mother gave birth to you.' I said: 'Is it from you, O Messenger of Allah, or from Allah?' He said: 'No, it is from Allah.' When the Messenger of Allah (s.a.w)was happy, his face would shine, as if it were a piece of the moon, and we would recognize that. "When I sat before him, I said: 'O Messenger of Allah, as part of my repentance, I will give up my wealth as charity to Allah and His Messenger (s.a.w).' The Messenger of Allah (s.a.w) said: 'Keep some of (the booty of) your wealth; that is better for you.' I said: 'I will keep my share of Khaibar.' Then I said: 'O Messenger of Allah, Allah saved me because I spoke the truth. As part of my repentance I shall speak nothing but the truth so long as I live.' By Allah, I do not know of anyone among the Muslims whom Allah put to a more severe test because of telling the truth, from the time I said that to the Messenger of Allah (s.a.w) until today. By Allah, I have not told a lie from the time I said that to the Messenger of Allah (s.a.w) until today, and I hope that Allah will protect me for the rest of my life." "And Allah revealed the words: 'Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirun and the Ansar who followed him (Muhammad (s.a.w)) in the time of distress (Tabuk expedition)'... Until he reached: 'Certainly, He is unto them full of kindness, Most Merciful. And (He did forgive also) the three who did not join (the Tabuk expedition) till, for them the earth, vast as it is, was straitened and their own selves were straitened to them, and they perceived that there is no fleeing from Allah, and no refuge but with Him. Then, He forgave them (accepted their repentance), that they might beg for His Pardon (repent to Him). Verily, Allah is the One Who forgives and accepts repentance, Most Merciful." [until he reached]: "O you who believe! Be afraid of Allah, and be with those who are true (in words and deeds)" Ka'b said; "By Allah, Allah did not bestow any blessing upon me, after He guided me to Islam, that was greater in my view than the fact that I told the truth to the Messenger of Allah (s.a.w), and I did not lie and end up doomed as happened to those who lied, when there came Revelation in which Allah addressed those who had lied, and spoke the harshest words ever spoken to anyone. Allah said: "They will swear by Allah to you (Muslims) when you return to them, that you may turn away from them. So turn away from them. Surely, they are Rijsun [i.e. Najasun (impure) because of their evil deeds], and Hell is their dwelling place - a recompense for that which they used to earn. They (the hypocrites) swear to you (Muslims) that you may be pleased with them, but if you are pleased with them, certainly Allah is not pleased with the people who are Al-Fasiqun." Ka'b said: "Our case was deferred, the three of us, unlike the case of those whose apology the Messenger of Allah (s.a.w) accepted when they swore to him, and he accepted their oath of allegiance and prayed for forgiveness for them. The Messenger of Allah (s.a.w) deferred our case until Allah decided concerning it. Hence Allah said: "And (He did forgive also) the three who..." What Allah says here does not refer to our staying behind from the campaign, rather it refers to His delaying the decision concerning us, unlike those who swore an oath (to the Prophet (s.a.w)) and apologized to him, from whom he accepted that."

ابن شہاب بیان كرتے ہیں كہ رسول اللہﷺغزوہ تبوك میں گئے اور آپﷺكا ارادہ روم اور شام كے نصاریٰ عرب كے خلاف جہاد كرنے كا تھا ، ابن شہاب نے بیان كیا كہ مجھے عبد اللہ بن كعب بن مالك نے حضرت كعب بن مالك كے رسول اللہﷺسے غزوۂ تبوك میں پیچھے رہ جانے كا واقعہ بیان كیا ، حضرت كعب بن مالك نے كہا: میں غزوۂ تبوك كے علاوہ كبھی كسی غزوہ میں رسول اللہﷺسے پیچھے نہیں رہا،البتہ میں غزوۂ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا اور غزوۂ بدر میں پیچھے رہ جانے والوں میں سے كسی پر بھی آپﷺنے عتاب نہیں كیا تھا ، رسول اللہﷺاور مسلمان ، قریش كے قافہ كو لوٹنے كے ارادے سے روانہ ہوئے تھے ، یہاں تكہ اللہ تعالیٰ نے ان كے اور ان كے دشمنوں كے درمیان اچانك مقابلہ كرادیا اور جب ہم نے اسلام كا عہد كیا تھا ، اس وقت رسول اللہﷺكے پاس عقبہ كی شب میں بھی حاضر ہوا تھا ، ہر چند كہ مسلمانوں میں شركاء بدر كی وقعت بہت زیادہ ہے لیكن میں شب عقبہ كی حاضری كے بدلہ میں اور كوئی فضیلت پسند نہیں كرتا ، میرا واقعہ یہ ہے كہ جب میں غزوۂ تبوك میں رسول اللہﷺسے پیچھے رہ گیا تھا ، اس وقت میں جس قدر قوی اور خوش حال تھا ، اس سے پہلے كبھی اس قدر قوی اور خوش حال نہیں تھا اس وقت جہاد كے لیے میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں جو اس سے پہلے كبھی كسی جہاد كے وقت میرے پاس نہیں تھیں ، رسول اللہﷺسخت گرمی میں جہاد كے لیے روانہ ہوئے ، آپﷺدور دراز سفر كے لیے صحرا میں كثیر دشمنوں سے مقابلہ كے لیے روانہ ہوئے ، آپﷺنے مسلمانوں پر پورا معاملہ واضح كردیا تھا تاكہ وہ دشمنوں سے جہاد كے لیے پوری تیاری كرلیں ۔آپﷺنے مسلمانوں كو اپنے ارادہ سے آگاہ كردیا تھا ، اس وقت مسلمانوں كی تعداد بہت زیادہ تھی ، اور كسی رجسٹر میں مسلمانوں كی تعداد كا اندراج نہیں تھا ، حضرت كعب نے كہا: بہت كم كوئی ایسا آدمی ہوگا جو اس غزوہ سے غائب ہونے كا ارادہ كرے اور اس كا یہ گمان ہو كہ بغیر اللہ كی وحی نازل كرنے كے آپ سے اس كا معاملہ مخفی رہے گا ، جب درختوں پر پھل آگئے تھے اور ان كے سائے گھنے ہوگئے اس وقت رسول اللہﷺنےاس غزوہ كا ارادہ كیا ، میں اس وقت پھلوں اور درختوں میں مشغول تھا اور رسول اللہﷺاورمسلمان جہاد كی تیاری میں تھے، میں ہر صبح جہاد كی تیاری كا سوچتا اورواپس آجاتا، میں كوئی فیصلہ نہیں كرپاتا اور یہ سوچتا كہ میں جس وقت جانے كا ارادہ كروں گا جاسكوں گا ، میں یہی سوچتا رہا یہاں تك كہ مسلمانوں نے سامان سفر باندھ لیا اور ایك صبح رسول اللہﷺمسلمانوں كے لے كر روانہ ہوگئے ، میں نے ابھی تیاری نہیں كی تھی ، میں صبح كو پھر گیا اورلوٹ آیا اور میں كوئی فیصلہ نہیں كرسكا ، میں یونہی سوچ بچار میں رہا یہاں تك كہ مجاہدین آگے بڑھ گئے اور جنگ شروع ہوگئی اور میں یہی سوچتا رہا كہ میں روانہ ہوكر ان كے ساتھ جاملوں گا ، كاش! میں ایسا كرلیتا ، لیكن یہ چیز میرےمقدر میں نہیں تھی، رسول اللہﷺكے تشریف لے جانے كے بعد مجھے یہ دیكھ كر افسوس ہوتاكہ میں جن لوگوں كےدرمیان چلتا تھا یہ صرف وہی لوگ تھے جو نفاق سے متہم تھے یا وہ ضعیف لوگ تھے جن كو اللہ تعالیٰ نے جہاد سے معذور ركھا تھا ، رسول اللہﷺنے تبوك پہنچنے سے پہلےمیرا ذكر نہیں كیا ، جس وقت آپﷺتبوك میں صحابہ كے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپﷺنےفرمایا: كعب بن مالك كو كیا ہوا؟ بنو سلمہ كے ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول ﷺ! اس كو دو چادروں اور اپنے پہلوؤں كو دیكھنے نے روك لیا ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے كہا: تم نے بری بات كہی ہے ، اللہ كی قسم! ہم اس كے بارے میں خیر كے سوا اور كچھ نہیں جانتے ، رسول اللہﷺخاموش ہوگئے ، ابھی یہ بات ہورہی تھی كہ آپﷺنے ایك سفید پوش آدمی كوریگستان سے آتے ہوئے دیكھا ، رسول اللہﷺنے فرمایا: " تو ابو خیثمہ ہوجا" تو وہ ابو خیثمہ انصاری ہوگیا ، یہ وہی آدمی تھے جنہوں نے ایك صاع چھوارے صدقہ كیے تھے تو منافقین نے انہیں طعنہ دیا تھا ، حضرت كعب بن مالك بیان كرتےہیں كہ جب مجھے یہ خبر پہنچی كہ رسول اللہﷺتبوك سے واپس آرہے ہیں تو میری پریشانی پھر تازہ ہوگئی ، میں جھوٹی باتیں بنانے كے لیے سوچنے لگا اور یہ سوچنے لگا كہ میں كل آپﷺكی ناراضگی سے كیسے بچوں گا اور اپنے گھر كے اصحاب رائے سے اس سلسلہ میں مشورہ لینے لگا، پھر جب مجھے یہ بتایا گیا كہ رسول اللہﷺ عنقریب تشریف لارہے ہیں تو میرے ذہن سے وہ سب جھوٹے بہانے نكل گئے ، اور میں نے یہ جان لیا كہ میں كسی بات سے كبھی نجات نہیں پاسكوں گا ، پھر میں نے سچ بولنے كا پختہ ارادہ كرلیا ، صبح كو رسول اللہﷺتشریف لے آئے اور آپﷺجب سفر سےآتے تھے تو پہلے مسجد میں جاتے تھے اوروہاں دو ركعت نماز پڑھتے تھے ، پھر لوگوں كی طرف متوجہ ہوتے تھے ، جب آپﷺ معمول كے مطابق فارغ ہوگئے ، تو جو لوگ غزوۂ تبوك میں نہیں گئے تھے وہ آ آ كر عذر پیش كرنے لگے اور قسمیں كھانے لگے ، یہ لوگ اسی سے زیادہ تھے، رسول اللہﷺنے ظاہری اعتبار سے ان كے عذر كو قبول كرلیا تھا ، آپﷺنے ان سے بیعت لی اور ان كے لیے استغفار كیا او ران كے باطنی معاملہ كو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا یہاں تك كہ میں آیا جب میں نے سلام كیا تو آپﷺمسكرائے جیسے كوئی ناراض آدمی مسكراتا ہے ، آپﷺنے فرمایا: آؤ ، میں آكر آپ كے سامنے بیٹھ گیا ، آپﷺنے فرمایا:تمہارے نہ آنے كی كیا وجہ ہے ؟ كیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی ، میں نے كہا: اے اللہ كے رسولﷺ! اللہ كی قسم! اگر میں آپﷺكے علاوہ كسی دنیا دار كے پاس بیٹھا ہوتا تو مجھے معلوم ہے كہ میں كوئی عذر پیش كركے اس كی ناراضگی سے بچ جاتا ، كیونكہ مجھے كلام پر قدرت عطا كی گئی ہے ، لیكن اللہ كی قسم مجھے معلوم ہے كہ اگر میں نے آج سے كوئی جھوٹی بات كہہ دی یہاں تك كہ آپﷺاس سے راضی ہو بھی گئے توعنقریب اللہ تعالیٰ آپ كو مجھ سے ، ناراض كردے گا ، اور اگر میں آپﷺسے سچی بات كہوں تو آپﷺمجھ سے ناراض ہوں گے اور بے شك مجھ كوسچ میں اللہ تعالیٰ سے حسن عاقبت كی امید ہے ،اللہ كی قسم ! میراكوئی عذر نہیں تھا اور جس وقت میں آپﷺكے پیچھے رہ گیا تھا تو مجھ سے زیادہ خوش حال كوئی نہیں تھا ، رسول اللہﷺنے فرمایا: بہر حال اس آدمی نے سچ بولا ہے ، تم یہاں سے اٹھ جاؤ یہاں تك كہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں كوئی فیصلہ كردے ، میں وہاں سے اٹھا اور بنوسلمہ كے لوگ بھی اٹھ كر میرے پاس آئے ، انہوں نے مجھ سے كہا: اللہ كی قسم! ہم كو یہ معلوم نہیں ہے كہ اس سے پہلے تم نے كوئی گناہ كیا ہو، كیا تم سے یہ نہیں ہوسكتا تھا كہ تم رسول اللہﷺكےسامنے اس قسم كا كوئی عذر پیش كرتے جس طرح دیگر نہ جانے والوں نے عذر پیش كیے تھے ، تمہارے گناہ كے لیے رسول اللہﷺكا تمہارے لیے استغفار كرنا كافی تھا ، اللہ كی قسم ! وہ مجھ سے مسلسل ملامت كرتے رہے ، یہاں تك كہ میں نے یہ ارادہ كیا كہ میں رسول اللہﷺكے پاس دوبارہ جاؤں اور اپنے پہلے قول كی تكذیب كردوں ، پھر میں نے ان سے پوچھا : كیا كسی اور کو بھی میرے جیسا معاملہ پیش آیا ہے ، انہوں نے کہا: دو اور آدمیوں نے بھی تمہاری طرح کہا ہے ، ان سے بھی آپﷺنے وہی فرمایا ہے جو تم سے فرمایا تھا ، میں نے پوچھا : وہ کون ہیں ، انہوں نے کہا: وہ مرارہ بن ربیعہ عامری ، اور ہلال بن امیہ واقفی ہیں ، انہوں نے مجھ سے ان دو نیک شخصوں کا ذکر کیا جو غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے ، وہ میرے لیے آئیڈیل تھے جب ان لوگوں نے ان دو صاحبوں کا ذکر کیا تو میں اپنے پہلے خیال پر قائم رہا اور رسول اللہﷺنے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرمادیا جو آپﷺسے پیچھے رہ گئےتھے ، پھر مسلمانوں نے ہم سے اجتناب کیا اور ہمارے لیے اجنبی ہوگئے یہاں تک کہ زمین بھی میرے لیے اجنبی ہوگئی ، یہ وہ زمین نہیں تھی جس کو میں پہلے پہچانتا تھا ، ہم لوگوں کو اسی حال پر پچاس راتیں گزر گئیں ،میرے دو ساتھی تو خانہ نشین ہوگئے تھے ، وہ اپنے گھروں میں ہی پڑے روتےرہتے تھے ، لیکن ان کی بہ نسبت میں جوان اور طاقتور تھا ، میں باہر نکلتا تھا ، نمازوں میں حاضر ہوتا تھا اور بازاروں میں گھومتا تھا ، مجھ سے کوئی آدمی بات نہیں کرتا تھا ، میں رسول اللہﷺکی خدمت میں آتا اور نماز کے بعد جب آپﷺاپنی نشست پر بیٹھتے تو میں آپ کو سلام عرض کرتا ، میں اپنے دل میں سوچتا کہ آیا آپﷺنے سلام کا جواب دینے کےلیے اپنے ہونٹ ہلائِے ہیں یا نہیں ، پھر میں آپ کے قریب نماز پڑھتا اور نظریں چرا کر آپﷺکو دیکھتا سوجب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپﷺمیری طرف دیکھتے اور جب میں آپﷺکی طرف متوجہ ہوتا تو مجھ سے اعراض کرتے ، یہاں تک کہ جب مسلمانوں کی بے رخی زیادہ بڑھ گئی تو میں ایک دن اپنے چچازاد حضرت ابو قتادہ کے باغ کی دیور پر چڑھ گیا ، وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا ، میں نے ان کو سلام کیا ، اللہ کی قسم ! انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا ، میں نے ان سے کہا :اے ابو قتادہ ! میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم کو علم ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺسےمحبت کرتا ہوں ،وہ خاموش رہے ، میں نے دوبارہ ان کو قسم دے کر سوال کیا ، وہ خاموش رہے ، میں نے پھر ان کو قسم دی تو انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ! کو زیادہ علم ہے ، میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ، میں نے دیوار پھاندی اور واپس آگیا ، ایک دن میں مدینہ کےبازار میں جارہا تھا ، تو شام والوں کا ایک آدمی مدینہ میں غلہ بیچنے کے لیے آیا تھا ، وہ کہہ رہا تھا کہ کوئی ہے جو مجھے کعب بن مالک سے ملادے ، لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا ، وہ میرے پاس آیا اور اس نے مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا ، میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لیے میں نے اس کو پڑھا ، اس میں لکھا تھا : " ہمیں معلوم ہوا کہ تمہارے صاحب نے تم پر ظلم کیا ہے او راللہ تعالیٰ نے تم کو ذلک اور رسوائی کی جگہ میں رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری دلجوئی کریں گے " میں نے یہ خط جب پڑھا تومیں نے کہا: یہ بھی میرے لیے ایک آزمائش ہے ، میں نے اس خط کو تنور میں ڈال کر جلادیا ، یہاں تک کہ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی رکی رہی ، تو ایک دن رسول اللہﷺکا ایک قاصد میرے پاس آیا ، اس نے کہا : رسول اللہﷺتم کو یہ حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ ، میں نے پوچھا : آیا میں اس کو طلاق دوں یا کیا کروں؟اس نےکہا: نہیں ، بلکہ تم اس سے علیٰحدہ ہوجاؤ اور اس کے قریب مت جاؤ، حضرت کعب نے کہا: رسول اللہﷺنے میرے ساتھیوں کو بھی یہی حکم بھیجا،میں نے اپنی بیوی سے کہا تم اپنے میکے جاؤ اور وہیں رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے ، حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہﷺکے پاس آئی اور ا س نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہلال بن امیہ بہت بوڑہے ہیں اور ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے ، کیا آپ اس کو ناپسند کرتے ہیں کہ میں ان کی خدمت کروں ،آپﷺنے فرمایا: نہیں ، لیکن وہ تم سے مقاربت نہ کرے ، ان کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! وہ تو کسی چیز کی طرف حرکت بھی نہیں کرسکتے ، اور جب سے یہ معاملہ ہوا ہے ، اللہ کی قسم ! وہ اس دن سے مسلسل روتے رہتے ہیں ، مجھ سے میرے بعض گھر والوں نے کہا: تم بھی رسو ل اللہﷺسےاسی طرح احازت لے لو، کیونکہ رسول اللہﷺنے ہلال بن امیہ کی بیوی کو ان کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی ہے ، میں نے کہا: میں اس معاملہ میں رسول اللہﷺسے اجازت نہیں لوں گا ، مجھے معلوم نہیں کہ اگر میں نے اجازت طلب کی تو رسول اللہﷺاس معاملہ میں کیا فرمائیں گے اور میں ایک جوان آدمی ہوں ، پھر میں اسی حال پر دس راتیں ٹھہرا رہا ، پھر جب سے رسول اللہﷺنےہم سے گفتگو کی ممانعت کی تھی ، اس کو پچاس دن گزر چکے تھے ، حضرت کعب کہتے ہیں کہ پچاس روز کے بعد ایک صبح کو میں اپنے گھر کی چھت پر صبح کی نماز پڑھ رہا تھا ،پھر جس وقت میں اسی حال میں بیٹھا ہوا تھا ، جس کا اللہ عزوجل نے ہمارے متعلق ذکر کیا ہے کہ مجھ پر میرا نفس تنگ ہوگیا اور زمین باوجود اپنی وسعت کے مجھ پر تنگ ہوگئی،اچانک میں نے سلع پہاڑ کی چوٹی سےایک چلانے والے کی آواز سنی ، جو بلند آواز سے کہہ رہا تھا : اے کعب بن مالک ! بشارت ہو!حضرت کعب نے کہا: میں اسی وقت سجدہ میں گر پڑا اور میں نے جان لیا کہ اب کشادگی ہوگئی ،پھر رسول اللہﷺنے صبح کی نماز پڑھنے کے بعد لوگوں میں اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے ، پھر لوگ آکر ہم کو مبارک باد دیتے تھے ، پھر میرے ان دو ساتھیوں کی طرف لوگ مبارک باد دینے کے لیے گئے اور ایک آدمی گھوڑا دوڑاتا ہوا میری طرف روانہ ہوا اور قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے مجھے آواز دی اور اس کی آواز گھڑ سوار کے پہنچنے سے پہلے مجھ تک پہنچی ، جب میرے پاس وہ آدمی آیا ، جس کی بشارت کی آواز میں نے سنی تھی، میں نے اپنے کپڑے اتار کر اس شخص کو بشارت کی خوشی میں پہنا دیے ، اللہ کی قسم!اس وقت میرے پاس ان کپڑوں کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی ، اور میں نے کسی سے عاریہ کپڑے لے کر پہنے ، پھر میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادے سے روانہ ہوا ، ادھر میری توبہ قبول ہونے پر فوج در فوج لوگ مجھے مبارک باد دینے کے لیے آرہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم کو اللہ تعالیٰ کا توبہ قبول کرنا مبارک ہو، جب میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہﷺمسجد میں تشریف فرما تھے اور آپﷺکے اردگرد صحابہ بیٹھے تھے ،حضرت طلحہ بن عبید اللہ جلدی سے اٹھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی ، اللہ کی قسم ! مہاجرین میں سے ان کےعلاوہ اور کوئی نہیں اٹھا تھا ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ طلحہ کو نہیں بھولتے تھے ، حضرت کعب نے کہا: جب میں نے رسول اللہﷺکوسلام کیا تو خوشی سے آپﷺکا چہرہ چمک رہا تھا اور آپﷺفرمارہا تھے : مبار ک ہو، جب سے تم کو تمہاری ماں نے جنا ہے اس سے زیادہ اچھا دن تمہارے لیے نہیں آیا ، میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ (قبولیت توبہ ) آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سےہے ؟ آپﷺنے فرمایا: نہیں ، بلکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے او رجب رسول اللہﷺخوش ہوتے تھے تو آپﷺکا چہرہ اس طرح منور ہوجاتاتھا کہ جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہو، حضرت کعب نے کہا: ہم اس علامت کو پہچانتے تھے، انہوں نے کہا: جب میں آپﷺکے سامنے بیٹھا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ!میں اپنی توبہ کی خوشی میں اپنےمال کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی راہ میں صدقہ کرتا ہوں ، رسول اللہﷺنے فرمایا: اپنے لیے کچھ مال کو رکھ لو وہ تمہارے لیے بہتر ہے ، میں نے کہا: میں اپنے اس مال کو رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے ، اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ!اللہ تعالیٰ نے مجھےسچ کی وجہ سے نجات دی ہے اور اب میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنی باقی زندگی میں ہمیشہ سچ بولوں گا ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے یہ معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں سے کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی وجہ سے اس طرح سزا میں مبتلا کیا ہو اور جب سےمیں نے رسول اللہﷺسےاس بات کا ذکر کیا تھا اس وقت سے لے کر آج تک میں نے جھوٹ نہیں بولااور آئندہ کے لیےبھی مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا ، تب اللہ تعالیٰ نے نبی ، مہاجرین اور انصار پر رحمت کےساتھ رجوع کیا ،جنہوں نے سختی کے وقت نبی ﷺکا ساتھ دیا اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل اپنی جگہ سے ہل جائیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، بے شک وہ نہایت مہربان بے حد رحم فرمانے والا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کی بھی توبہ قبول فرمائی جو مؤخر کیے گئے تھے ، یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان پر تنگ ہوگئی تھیں اور ان کویہ یقین ہوگیا تھا کہ اللہ کے سوا ان کی کوئی جائے پناہ نہیں ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی ، بے شک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے ، بے حد رحم فرمانے والا ہے ، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کےساتھ رہو، حضرت کعب نے کہا: جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت اسلام کی نعمت دی ہے اس وقت سے لے کر اللہ تعالیٰ نے میرے نزدیک مجھے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں دی کہ میں نے رسول اللہﷺسے سچ بولا کیونکہ میں نے آپﷺسے جھوٹ بولا ہوتا تو میں بھی اسی طرح ہلاک ہوجاتا جس طرح وہ لوگ ہوگئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا ، جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی تو جتنی ان جھوٹوں کی مذمت فرمائی ہے کسی کی اتنی مذمت نہیں کی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤگے تو وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاک تم ان سےاپنی توجہ ہٹائے رکھو ، تو تم ان کی طرف التفات نہ کرو، بے شک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے یہ ان کے کاموں کی سزا ہے وہ تم کو راضی کرنے کے لیے قسمیں کھائیں گے سوا اگر تم ان سے راضی ہوجاؤ تو بے شک اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں سے راضی نہیں ہوگا، حضرت کعب نے کہا: ہم لوگوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیا تھا جن لوگوں نے رسو ل اللہﷺکے سامنے قسمیں کھائی تھیں اور رسول اللہﷺنے ان کا عذر قبول کرلیا تھا ، ان سے بیعت کرلی تھی اور ان کے لیے استغفار کیا تھا اور رسول اللہﷺنےہمارے معاملہ کو مؤخر کردیاتھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کا فیصلہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کی توبہ بھی قبول فرمائی جن کامعاملہ مؤخر کیاگیا تھا "۔اس آیت کایہ مطلب نہیں ہے کہ غزوۂ تبوک میں جو پیچھے رہ گئے تھےاس کا ذکر ہےبلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قسم کھانے والوں کی بہ نسبت ہمارے معاملہ کو مؤخر کردیا گیا تھا جنہوں نے قسمیں کھائیں اور آپﷺنے ان کے عذر کو قبول فرمالیا تھا ۔


وَحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِ يُونُسَ عَنِ الزُّهْرِىِّ سَوَاءً.

A similar report was narrated from Az-Zuhri.

یہ حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے۔


وَحَدَّثَنِى عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِى يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ ابْنُ أَخِى الزُّهْرِىِّ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ حِينَ عَمِىَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى غَزْوَةِ تَبُوكَ. وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيهِ عَلَى يُونُسَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَلَّمَا يُرِيدُ غَزْوَةً إِلاَّ وَرَّى بِغَيْرِهَا حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِى حَدِيثِ ابْنِ أَخِى الزُّهْرِىِّ أَبَا خَيْثَمَةَ وَلُحُوقَهُ بِالنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم-.

'Abdullah bin Ka'b bin Malik, who acted as Ka'b's guide when he became blind, said: "I heard Ka'b bin Malik telling his story about when he stayed behind from going on the campaign to Tabuk with the Messenger of Allah (s.a.w)…" and he quoted the Hadith (as no. 7016) and added: "When the Messenger of Allah (s.a.w) wanted to go out on a campaign, he would hint at a destination other than his real goal, except in the case of this campaign." In the Hadith of Az-Zuhri's nephew, it does not mention Abu Khaithamah and his catching up with the Prophet (s.a.w).

عبید اللہ بن کعب بن مالک - حضرت کعب کے نابینا ہونے کے بعد ان کی راہنمائی کرتے تھے - سے روایت ہے کہ میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ سنا جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺسے پیچھے گئے تھے ، اس کے بعد حسب سابق حدیث مروی ہے اور اس میں یہ زیادہ ہے کہ رسول اللہﷺجب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو اس کا کنایۃً ذکر فرماتے تھے لیکن اس غزوہ کا آپﷺنے صراحۃً ذکر فرمادیا تھا ، اس حدیث میں حضرت ابو خیثمہ اور ان کے رسول اللہﷺکے ساتھ ملنے کا ذکر نہیں ہے۔


وَحَدَّثَنِى سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ - وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ - عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ حِينَ أُصِيبَ بَصَرُهُ وَكَانَ أَعْلَمَ قَوْمِهِ وَأَوْعَاهُمْ لأَحَادِيثِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ سَمِعْتُ أَبِى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ يُحَدِّثُ أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ. وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِيهِ وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِنَاسٍ كَثِيرٍ يَزِيدُونَ عَلَى عَشْرَةِ آلاَفٍ وَلاَ يَجْمَعُهُمْ دِيوَانُ حَافِظٍ.

'Abdur-Rahman bin 'Abdullah bin Ka'b bin Malik narrated that his paternal uncle, 'Ubaidullah bin Ka'b, who was Ka'b's guide when he lost his sight, and who was the most knowledgeable of his people about the Ahadith of the Companions of the Messenger of Allah (s.a.w), said: "I heard my father Ka'b bin Malik, who was one of the three whose repentance was accepted, say that he did not stay behind from accompanying the Messenger of Allah (s.a.w) on any campaign that he went on, except for two campaigns ..." and he quoted the Hadith and said: "The Messenger of Allah (s.a.w) set out on the campaign with many people, more than ten thousand, and there was no record of their names."

جب حضرت کعب نابینا ہوگئے تھے توان کے بیٹے عبید اللہ بن کعب ان کی راہنمائی کرتے تھے ، وہ اپنی قوم میں سب سے بڑے عالم اور رسول اللہﷺکی احادیث کے سب سے زیادہ حافظ تھے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ وہ ان تینوں میں سے ایک ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمائی تھی ، اور وہ کہتے تھے کہ دو غزووں کے سوا وہ کسی غزوہ میں رسول اللہ ﷺسے پیچھے نہیں رہے ، پھر پوری حدیث بیان کی اور اس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہﷺنے بہت زیادہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کیا تھا جن کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی اور کسی رجسٹر میں ان کا شمار نہیں تھا۔

Chapter No: 10

باب فِي حَدِيثِ الإِفْكِ وَقَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاذِفِ

Concerning the lie (about Aisha may Allah be pleased with her), and the acceptance of repentance of slanderer

تہمت کی حدیث اورتہمت لگانے والوں کی توبہ قبول کرنا

حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الأَيْلِىُّ ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِىُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا وَقَالَ الآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ وَالسِّيَاقُ حَدِيثُ مَعْمَرٍ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدٍ وَابْنِ رَافِعٍ قَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ جَمِيعًا عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَعَلْقَمَةُ بْنِ وَقَّاصٍ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِى طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ وَأَثْبَتَ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِى حَدَّثَنِى وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا ذَكَرُوا أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَعَهُ - قَالَتْ عَائِشَةُ - فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِى غَزْوَةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِى فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَأَنَا أُحْمَلُ فِى هَوْدَجِى وَأُنْزَلُ فِيهِ مَسِيرَنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مِنْ غَزْوِهِ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ فَلَمَّا قَضَيْتُ مِنْ شَأْنِى أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ فَلَمَسْتُ صَدْرِى فَإِذَا عِقْدِى مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِى فَحَبَسَنِى ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِى فَحَمَلُوا هَوْدَجِى فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِىَ الَّذِى كُنْتُ أَرْكَبُ وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنِّى فِيهِ - قَالَتْ - وَكَانَتِ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُهَبَّلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَحَلُوهُ وَرَفَعُوهُ وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِى بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلاَ مُجِيبٌ فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِى الَّذِى كُنْتُ فِيهِ وَظَنَنْتُ أَنَّ الْقَوْمَ سَيَفْقِدُونِى فَيَرْجِعُونَ إِلَىَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِى مَنْزِلِى غَلَبَتْنِى عَيْنِى فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِىُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِىُّ قَدْ عَرَّسَ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ فَادَّلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِى فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَأَتَانِى فَعَرَفَنِى حِينَ رَآنِى وَقَدْ كَانَ يَرَانِى قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ الْحِجَابُ عَلَىَّ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِى فَخَمَّرْتُ وَجْهِى بِجِلْبَابِى وَوَاللَّهِ مَا يُكَلِّمُنِى كَلِمَةً وَلاَ سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِى الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِى نَحْرِ الظَّهِيرَةِ فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ فِى شَأْنِى وَكَانَ الَّذِى تَوَلَّى كِبْرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِى قَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ وَلاَ أَشْعُرُ بِشَىْءٍ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ يَرِيبُنِى فِى وَجَعِى أَنِّى لاَ أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- اللُّطْفَ الَّذِى كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِى إِنَّمَا يَدْخُلُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ « كَيْفَ تِيكُمْ ». فَذَاكَ يَرِيبُنِى وَلاَ أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقِهْتُ وَخَرَجَتْ مَعِى أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا وَلاَ نَخْرُجُ إِلاَّ لَيْلاً إِلَى لَيْلٍ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنَّ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الأُوَلِ فِى التَّنَزُّهِ وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِىَ بِنْتُ أَبِى رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا ابْنَةُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِى بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَبِنْتُ أَبِى رُهْمٍ قِبَلَ بَيْتِى حِينَ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِى مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ. فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلاً قَدْ شَهِدَ بَدْرًا. قَالَتْ أَىْ هَنْتَاهُ أَوَلَمْ تَسْمَعِى مَا قَالَ قُلْتُ وَمَاذَا قَالَ قَالَتْ فَأَخْبَرَتْنِى بِقَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِى فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِى فَدَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ « كَيْفَ تِيكُمْ ». قُلْتُ أَتَأْذَنُ لِى أَنْ آتِىَ أَبَوَىَّ قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَتَيَقَّنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا. فَأَذِنَ لِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَجِئْتُ أَبَوَىَّ فَقُلْتُ لأُمِّى يَا أُمَّتَاهْ مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِى عَلَيْكِ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلاَّ كَثَّرْنَ عَلَيْهَا - قَالَتْ - قُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لاَ يَرْقَأُ لِى دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ أَصَبَحْتُ أَبْكِى وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلِىَّ بْنَ أَبِى طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ يَسْتَشِيرُهُمَا فِى فِرَاقِ أَهْلِهِ - قَالَتْ - فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِالَّذِى يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِى يَعْلَمُ فِى نَفْسِهِ لَهُمْ مِنَ الْوُدِّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُمْ أَهْلُكَ وَلاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا. وَأَمَّا عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ فَقَالَ لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ - قَالَتْ - فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بَرِيرَةَ فَقَالَ « أَىْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَىْءٍ يَرِيبُكِ مِنْ عَائِشَةَ ». قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا فَتَأْتِى الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ - قَالَتْ - فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى الْمِنْبَرِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ ابْنِ سَلُولَ - قَالَتْ - فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ « يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِى مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَ أَذَاهُ فِى أَهْلِ بَيْتِى فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِى إِلاَّ خَيْرًا وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِى إِلاَّ مَعِى ». فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الأَنْصَارِىُّ فَقَالَ أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَ مِنَ الأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ - قَالَتْ - فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ وَكَانَ رَجُلاً صَالِحًا وَلَكِنِ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لاَ تَقْتُلُهُ وَلاَ تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ. فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ فَثَارَ الْحَيَّانِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ - قَالَتْ - وَبَكَيْتُ يَوْمِى ذَلِكَ لاَ يَرْقَأُ لِى دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ بَكَيْتُ لَيْلَتِى الْمُقْبِلَةَ لاَ يَرْقَأُ لِى دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَأَبَوَاىَ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِى فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِى وَأَنَا أَبْكِى اسْتَأْذَنَتْ عَلَىَّ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِى - قَالَتْ - فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ - قَالَتْ - وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِى مُنْذُ قِيلَ لِى مَا قِيلَ وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لاَ يُوحَى إِلَيْهِ فِى شَأْنِى بِشَىْءٍ - قَالَتْ - فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ « أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِى عَنْكِ كَذَا وَكَذَا فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِى اللَّهَ وَتُوبِى إِلَيْهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ». قَالَتْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِى حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً فَقُلْتُ لأَبِى أَجِبْ عَنِّى رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِيمَا قَالَ. فَقَالَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِى مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقُلْتُ لأُمِىِّ أَجِيبِى عَنِّى رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَدْرِى مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لاَ أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ إِنِّى وَاللَّهِ لَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ بِهَذَا حَتَّى اسْتَقَرَّ فِى نُفُوسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ فَإِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّى بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّى بَرِيئَةٌ لاَ تُصَدِّقُونِى بِذَلِكَ وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّى بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُونَنِى وَإِنِّى وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِى وَلَكُمْ مَثَلاً إِلاَّ كَمَا قَالَ أَبُو يُوسُفَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ. قَالَتْ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِى - قَالَتْ - وَأَنَا وَاللَّهِ حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّى بَرِيئَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِى بِبَرَاءَتِى وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يُنْزَلَ فِى شَأْنِى وَحْىٌ يُتْلَى وَلَشَأْنِى كَانَ أَحْقَرَ فِى نَفْسِى مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِىَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى وَلَكِنِّى كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِى اللَّهُ بِهَا قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَجْلِسَهُ وَلاَ خَرَجَ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ أَحَدٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ عِنْدَ الْوَحْىِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِى الْيَوْمِ الشَّاتِ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِى أُنْزِلَ عَلَيْهِ - قَالَتْ - فَلَمَّا سُرِّىَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ يَضْحَكُ فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ « أَبْشِرِى يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَكِ ». فَقَالَتْ لِى أُمِّى قُومِى إِلَيْهِ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ وَلاَ أَحْمَدُ إِلاَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِى أَنْزَلَ بَرَاءَتِى - قَالَتْ - فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ( إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ) عَشْرَ آيَاتٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلاَءِ الآيَاتِ بَرَاءَتِى - قَالَتْ - فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ وَاللَّهِ لاَ أُنْفِقُ عَلَيْهِ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِى قَالَ لِعَائِشَةَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ (وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِى الْقُرْبَى ) إِلَى قَوْلِهِ (أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ) قَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذِهِ أَرْجَى آيَةٍ فِى كِتَابِ اللَّهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِى. فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِى كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ وَقَالَ لاَ أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا. قَالَتْ عَائِشَةُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ أَمْرِى « مَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَيْتِ ». فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْمِى سَمْعِى وَبَصَرِى وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلاَّ خَيْرًا. قَالَتْ عَائِشَةُ وَهِىَ الَّتِى كَانَتْ تُسَامِينِى مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ. قَالَ الزُّهْرِىُّ فَهَذَا مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ أَمْرِ هَؤُلاَءِ الرَّهْطِ. وَقَالَ فِى حَدِيثِ يُونُسَ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ.

It was narrated from Az-Zuhri: "Sa'eed bin Al-Musayyab, 'Urwah bin Az-Zubair, 'Alqamah bin Waqqas and 'Ubaidullah bin 'Abdullah bin 'Utbah bin Mas'ud narrated the Hadith of 'Aishah, the wife of the Prophet (s.a.w), when the people of the slander said what they said about her, then Allah declared her innocent of what they said. Each of them told me part of her story, and some of them had better memories than others and reported more details. I tried to memorize what each of them told me of the story, and their reports confirmed one another. They said that 'Aishah, the wife of the Prophet (s.a.w) said: 'When the Messenger of Allah (s.a.w) wanted to go out on a journey, he would cast lots between his wives and the one whose name was drawn, the Messenger of Allah (s.a.w) would take her with him.' "'Aishah said: 'He (s.a.w) cast lot between us for a campaign he was going on, and my name was drawn, so I went out with the Messenger of Allah (s.a.w). This was after the command of Hijab had been revealed, so I would be lifted up in my Howdah, and I would be set down in it. That was the case throughout the journey, until the Messenger of Allah (s.a.w) had finished his campaign, then we headed back. "'When we were close to Al-Madinah, he gave the command to move on one night. When he gave the command to move on, I got up and walked until I had passed beyond the army, and when I had relieved myself I came back to the camp. I put my hand to my chest and found that my necklace of Zafar beads (a kind of Yemeni beads) had broken and fell off. I went back, looking for my necklace, and that distracted me. The men who used to prepare the camel for me and lift up my Howdah came and lifted it onto my camel that I used to ride, and they thought that I was in it. "'The women at that time were lean and did not carry much flesh, as they did not eat much food. The people did not notice the weight of the Howdah when they lifted it up, as I was a young girl. They drove the camel and set out. I found my necklace after the army had moved on, and I came back to their camp and there was no one to call and no one to answer. I waited in the place where I had stayed, thinking that the people would notice I was missing and would come back for me. While I was sitting in that place, tiredness overwhelmed me and I fell asleep. Safwan bin Al-Mu'attal As-Sulami Adh-Dhakwani had stopped to rest towards the end of the night, and he was behind the army, and had set out at the end of night. In the morning he reached the place where I was, and he saw the shape of a person sleeping. He came to me, and he recognized me when he saw me, as he used to see me before the Hijab was enjoined upon me. I woke up when I heard his Istirja'ah when he recognized me, and I covered my face with my Jilbab. By Allah, he did not say a word to me and I did not hear any word from him apart from his Istirja'ah. "'He made his camel kneel down and put his foot on its foreleg (to keep it steady), then I mounted it, and he set off, leading me on the mount, until we came to the army, which had stopped to rest in the noonday heat. Then some were doomed because of my situation, foremost among whom was 'Abdullah bin Ubayy bin Salul. We arrived in Al-Madinah, and I fell sick for a month after we arrived in Al-Madinah. The people were spreading what the people of the slander were saying, and I was not aware of any of that. What gave me cause for alarm was that I did not see the kindness that I usually saw from the Messenger of Allah (s.a.w) when I was sick; rather the Messenger of Allah (s.a.w) would just come and greet me with Salam, and say: "How are you?" So that made me worried, but I was unaware of the evil, until I went out after I had begun to recover, and Umm Mistah went out with me, to Al-Manasi', which is where we used to relieve ourselves. We only used to go out at night, and that was before we had latrines close to our houses. We were like the early Arabs in our efforts to keep clean; we did not like to have latrines close to our houses. "'Umm Mistah and I set out. She was the daughter of Abu Ruhm bin Al-Muttalib bin 'Abd Manaf, and her mother was the daughter of Sakhr bin 'Amir, the maternal aunt of Abu Bakr As-Siddiq. Her son was Mistah bin Uthathah bin 'Abbad bin Al-Muttalib. The daughter of Abu Ruhm and I set out for my house when we had finished our business, and Umm Mistah stumbled on her apron and said: "Woe to Mistah!" I said to her: "What a bad thing you have said; are you berating a man who was present at (the battle of) Badr?" She said: "O you! Have you not heard what he said?" I said: "What did he say?" She told me what the people of the slander were saying, and my sickness became worse. When I came back to my house, the Messenger of Allah (s.a.w) entered upon me and greeted me with Salam, then he said: "How are you?" I said: "Will you give me permission to go to my parents?" "'At that time I wanted to get confirmation of the news from them. The Messenger of Allah (s.a.w) gave me permission, so I went to my parents and said to my mother: 'O my mother, what are the people talking about?' She said: 'O my daughter, do not worry, for by Allah there was never a good looking woman who was loved by her husband and she had co-wives, but they tried to find fault with her.' I said: 'Subhan Allah, are the people talking about that?' I wept that night until morning came, and my tears never stopped, and I did not get a wink of sleep. When morning came I was still weeping. The Messenger of Allah (s.a.w) called 'Ali bin Abi Talib and Usamah bin Zaid, when the Revelation was delayed, and asked their advice about leaving his wife. "'As for Usamah bin Zaid, he told the Messenger of Allah (s.a.w) what he knew about his wife's innocence, and what he knew of his (the Prophet's) love for her. He said: 'O Messenger of Allah, she is your wife, and we know nothing but good about her.' As for 'Ali bin Abi Talib, he said: 'Allah has not" imposed any restrictions on you, and there are many other women besides her. If you ask the slave woman she will tell you the truth.' The Messenger of Allah (s.a.w) called Barirah and said: 'O Barirah, have you seen anything to make you doubt about 'Aishah?' Barirah said to him: 'By the One Who sent you with the truth, I have never seen anything objectionable from her, except that she is a young girl who falls asleep when making dough for her family, then the domestic sheep comes and eats it.' " 'The Messenger of Allah (s.a.w) stood on the Minbar and sought support against 'Abdullah bin Ubayy bin Salul. The Messenger of Allah (s.a.w) said when he was on the Minbar: 'O Muslims, who will support me against a man who has offended me with regard to my family? By Allah, I know nothing but good about my family, and they have mentioned a man (Safwan) about whom I know nothing but good, and he has never entered upon my family except with me.' Sa'd bin Mu'adh Al-Ansari stood up and said: 'I will support you against him, O Messenger of Allah. If he is from Aws, I will strike his neck, and if he is from our brothers of Al-Khazraj, tell us what to do and we will do as you command.' Sa'd bin 'Ubadah, who was the chief of Al-Khazraj, stood up. He was a righteous man but tribalism overtook him, and he said to Sa'd bin Mu'adh: 'You are lying, by Allah. You will not kill him and you will not be able to kill him.' Usaid bin Hudair, who was the cousin of Sa'd bin Mu'adh, stood up and said to Sa'd bin 'Ubadah: 'You are lying, by Allah. We will certainly kill him, and you are a hypocrite, defending the hypocrites.' " 'They began to argue while the Messenger of Allah (s.a.w) was standing on the Minbar, and the Messenger of Allah (s.a.w) kept trying to calm them down, until they finally calmed down and fell silent. I wept that day, and my tears never stopped and I did not get a wink of sleep. Then I wept the following night, and my tears never stopped and I did not get a wink of sleep, and my parents thought that my weeping would be the end of me. While they were sitting with me and I was weeping, an Ansari woman asked permission to come in and I gave her permission. She sat down and wept. While we were like that, the Messenger of Allah (s.a.w) came in and greeted us with Salam, then he sat down. He had not sat with me since the rumor began, and for a month, no Revelation had come to him concerning me. The Messenger of Allah (s.a.w) recited the Tashah-hud when he sat down, then he said 'O 'Aishah, I have heard such and such about you. If you are innocent then Allah will declare your innocence, and if you have committed a sin, then ask Allah to forgive you, and repent to Him, for when a person admits his sin and repents, Allah will accept his repentance.' When the Messenger of Allah (s.a.w) finished what he was saying, my tears dried up and not another drop fell. I said to my father: 'Answer the Messenger of Allah (s.a.w) on my behalf.' He said: 'By Allah, I do not know what I should say to the Messenger of Allah (s.a.w).' I said to my mother: 'Answer the Messenger of Allah (s.a.w) on my behalf.' She said: 'By Allah, I do not know what I should say to the Messenger of Allah (s.a.w).' I was a young girl who did not know much of the Qur'an, but I said: 'By Allah, I know that you (all) have been listening to this (rumor) until it settled in your minds and you believed it. If I say to you that I am innocent, and Allah knows that I am innocent, you will not believe me, but if I admit something to you, and Allah knows that I am innocent, you will believe me. By Allah, I can find no likeness for me and you except that which the father of Yusuf said: 'So (for me) patience is most fitting. And it is Allah (Alone) Whose Help can be sought against that (lie) which you describe.' "'Then I turned away and lay down on my bed. By Allah, at that time I knew I was innocent, and that Allah would prove my innocence, but by Allah, I did not think that He would reveal Revelation concerning me that would be recited. I did not think that I was so important that Allah, Glorified and Exalted is He, would speak of me in words that would be recited. Rather I hoped that the Messenger of Allah (s.a.w) would be shown something in a dream through which Allah would prove that I was innocent. By Allah, the Messenger of Allah (s.a.w) did not move from where he was sitting, and no one in the house left before Allah sent Revelation to His Prophet (s.a.w), and he was overcome by the burden that overcame him when he received Revelation, when he perspired with drops of sweat like pearls on a winter day because of the weight of the words that were being revealed to him. "'When it was over, the Messenger of Allah (s.a.w) smiled and the first thing he said was: 'Be of good cheer, O 'Aishah, for Allah has declared you innocent.' My mother said to me: 'Get up and go to him.' I said: 'By Allah, I will not get up and go to him, and I will not praise anyone but Allah, for He is the One Who has revealed that I am innocent.' Allah revealed the words; 'Verily, those who brought forth the slander are a group among you. Consider it not a bad thing for you. Nay, it is good for you...' , ten Verses. Allah revealed these Verses declaring that. I was innocent. "'Abu Bakr, who used to spend on Mistah, because he was a relative of his and was poor, said: 'By Allah, I will never spend anything on him again after what he said about 'Aishah.' Then Allah revealed the words: 'And let not those among you who are blessed with graces and wealth swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, Al-Masakin (the needy), and those who left their homes for Allah's Cause. Let them pardon and forgive. Do you not love that Alh1h should forgive you?..."' Hibban bin Musa said:" 'Abdullah bin Al-Mubarak said: 'This is the Verse in the Book of Allah which gives the most hope."' 'Abu Bakr said: "By Allah, I love that Allah should forgive me," so he continued to spend on Mistah as he used to, and said: "I will never stop it.'" 'Aishah said: "The Messenger of Allah (s.a.w) asked Zainab bint Jahsh about me: "What do you know?" Or: "What do you think?" She said: "O Messenger of Allah, by Allah I have never heard or seen, and by Allah, I do not know, anything but good."' 'Aishah said: "She was the one among the wives of the Messenger of Allah (s.a.w) who used to compete with me, but Allah protected her by means of her piety, but her sister Hamnah bint Jahsh opposed her, and was one of those who were doomed." Az-Zuhri said: "This is what we have heard about this group." Saying: "Verily to Allah we belong and verily unto Him is our return."

نبی ﷺ کی زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺکسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا اس کو رسول اللہﷺاپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺایک غزوہ میں جارہے تھے ، آپﷺنے ہمارے درمیان قرعہ اندازی کی ، اس میں میرے نام قرعہ نکل آیا ، میں رسول اللہﷺکےساتھ روانہ ہوگئی ، یہ حجاب نازل ہونے کے بعد کا واقعہ تھا ، مجھے اپنے محمل میں سوار کیا جاتا اور جہاں ہم قیام کرتے وہاں مجھے محمل سے اتار لیا جاتا، یہاں تک کہ جب رسول اللہ جہاد سے فارغ ہوکر واپس ہوئے او رہم مدینہ کے قریب پہنچے ، آپﷺنے ایک رات کوچ کا اعلان کردیا ، جب انہوں نے کوچ کا اعلان کیا تو میں اٹھ کر لشکر سے دور نکل گئی ، قضاء حاجت کے بعد میں اپنے کجاوہ کی طرف آئی ، میں نے اپنے سینہ کی طرف ہاتھ لگایا تو یمن کی سیپیوں کا جوہار میں پہنے ہوئے تھی وہ نہیں تھا ، میں نے واپس لوٹ کر ہار کو تلاش کیا اور اس کو تلاش کرنے نے مجھے روک لیا اور وہ لوگ آئے جو میرا کجاوہ اٹھاتے تھے ، انہوں نے میرا کجاوہ اٹھایا اور اس کو اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی، ان کا گمان یہ تھا کہ میں کجاوے میں بیٹھی ہوئی ہوں ، اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ، گوشت سے بھرپور اور فربہ نہیں ہوتی تھیں ، بہت کم کھانا کھاتی تھیں ، اس لیے ان لوگوں نے جب کجاوہ اٹھاکر اونٹ پر رکھا تو اس کے وزن کی طرف توجہ نہیں کی اور میں ویسے بھی کم سن لڑکی تھی ۔ انہوں نےاونٹ کو اٹھایا اور روانہ ہوگئے،لشکر روانہ ہونے کے بعد مجھے ہار مل گیا ، میں ان کے پڑاؤ پر آئی مگر وہاں پر کوئی پکارنے والا نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جواب دینے والا ، میں نے اپنی اسی جگہ کا ارادہ کیا جہاں پر میں پہلے تھی ، اور میرا خیال یہ تھا کہ لوگ جب مجھے گم پائیں گے تو میری طرف لوٹیں گے ، جس وقت میں اپنی جگہ بیٹھی ہوئی تھی تو مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سوگئی ، اور حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی اخیر شب میں لشکر کے پیچھے رہ گئےتھے ، وہ صبح منہ اندھیرے میری جگہ کے پاس پہنچے ، انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کاجسم دیکھا تو وہ میرے پاس آئے ، انہوں نے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا ، کیونکہ حجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا ، انہوں نے مجھے پہچان کر انا للہ وانا اللہ راجعون پڑھا اور اسے میں بیدا ہوگئی ، میں نے اپنے چہرے پر اپنی چادر ڈال لی ، اللہ کی قسم!انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون کے میں نے ان کے منہ سے کوئی بات نہیں سنی ، انہوں نے اونٹنی کو اس کے اگلے پیروں پر بٹھایا ، اور میں اس اونٹنی پر سوار ہوگئی ، یہاں تک کہ لشکر کے پڑاؤ ڈالنے کے بعد ہم اس کے سے آکر مل گئے ، لشکر والے ٹھیک دوپہر کے وقت پہنچے تھے ، میرے اس واقعہ میں جس آدمی نے بھی ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوگیا اور جس آدمی نے سب سے بڑی تہمت لگائی وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا ، ہم مدینہ پہنچ گئے اور میں مدینہ پہنچنے کے بعد ایک ماہ تک بیمار رہی ، ادھر لوگوں میں تہمت لگانے والوں کا قول مشہور رہا تھا ، اور مجھے ان باتوں میں سے کسی چیز کا علم نہیں تھا ، البتہ مجھے یہ چیز شک میں ڈالتی تھی اور میرے درد میں اضافہ کرتی تھی کہ رسول اللہﷺکا جو لطف و کرم پہلےمیری بیماری میں ہوتا تھا اس کو اب میں محسوس نہیں کر تی تھی ، رسول اللہﷺآنے کے بعد صرف سلام کرتے ، پھر فرماتے : تمہارا کیا حال ہے ؟ اس سے مجھے شک پڑتا تھا ،مگر مجھے کسی خرابی کا علم نہیں تھا ، یہاں تک کہ میں کمزور ہونے کےبعد ایک دن قضاء حاجت کے لیے باہر میدان میں گئی اور ہم قضاء حاجت کے لیے وہیں جاتے تھے ، میرے ساتھ حضرت ام مسطح بھی تھیں ، ہم لوگ رات کے وقت جاتے تھے ، یہ ہمارے گھروں میں بیت الخلاء بننے سے پہلے کا واقعہ ہے ، ہمارا حال عرب کے پہلے لوگوں کی طرح تھا ،ہمیں گھروں میں بیت الخلاء بنانے سےاذیت ہوتی تھی ، اور ہم اس سے اجتناب کرتے تھے ، میں اور حضرت ام مسطح گئیں ، حضرت ام مسطح ابو رہم بن مطلب بن عبد مناف کی بیٹی تھیں ، اور ان کی والدہ صحر بن عامر کی بیٹی اور حضرت ابو بکر صدیق کی خالہ تھیں ، اور ان کا بیٹا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا ، سو میں اور ابو رہم کی بیٹی (ام مسطح) اپنے گھر سے چل پڑیں، جب ہم قضاء حاجت سے فارغ ہوئیں تو حضرت ام مسطح چادر میں الجھ کر گریں ، انہوں نے کہا: مسطح ہلاک ہوجائے ، میں نے کہا: تم نے بری بات کہی ، تم ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہو جو بدر میں حاضر ہوا تھا ، انہوں نے کہا: اے خاتون!کیا تم کواس کے قول کا علم نہیں ہے ؟ میں نے پوچھا: اس نے کیا کہا ہے ؟ پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی تہمت سے مجھ کو باخبر کیا ، یہ سن کر میری بیماری میں اور اضافہ ہوگیا ، جب میں گھر پہنچی تورسو ل اللہ ﷺتشریف لے آئے ، آپ نے سلام کیا اور پھر فرمایا: تمہارا کا حال ہے ؟میں نے کہا: کیا آپ مجھے یہ اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر جاؤں ، میرا یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ سے اس خبر کی تحقیق کروں ، مجھے رسول اللہﷺنے اجازت دے دی ، میں اپنے والدین کے پاس گئی ، میں نے کہا: اے امی جان ! یہ لوگ کیسی باتیں بنارہے ہیں ، انہوں نے کہا: اے بیٹی ! اپنے اعصاب کو پر سکون رکھو، اللہ کی قسم! ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کے نزدیک بہت خوبصورت ہو اور وہ اسی سے محبت کرتا ہو ، اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور وہ اس کے خلاف کوئی بات نہ بنائیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرتی ہیں : میں نے کہا: سبحان اللہ ! کیا واقعی لوگوں نے ایسی باتیں کہی ہیں ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں ساری رات روتی رہی اور صبح کوبھی میرے آنسو نہ رکے اور نہ میں نے نیند کو سرمہ بنانا ، میں صبح کو رو رہی تھی ، ادھر رسول اللہﷺنے حضرت علی بن ابی طالب اور حضر ت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا ، آپﷺان سے اپنی اہلیہ کو علیٰحدہ کرنے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے ،اس وقت وحی نازل نہیں ہوئی تھی ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے تو رسول اللہﷺکو وہی مشورہ دیا جس کا رسول اللہﷺکو یقین تھا کہ آپﷺکی اہلیہ اس تہمت سے بری ہیں ، کیونکہ اس کو رسول اللہﷺکی محبت کا علم تھا ، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ!وہ آپ کی اہلیہ ہیں اور ہمیں ا ن کے متعلق صرف پارسائی کا یقین ہے ، البتہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی اور ان کےسوا اور بھی بہت عورتیں ہیں اور آپ باندی سے سوال کیجئے وہ آپ سے سچی بات کہیں گی ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر رسول اللہﷺنے حضرت بریرہ کوبلایا اور فرمایا: کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تم کوعائشہ کے بارے میں کوئی شک ہو، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپﷺکو حق دے کر بھیجا ہے میرے علم کے مطابق اگر کوئی چیزان میں باعث عیب ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ کم سن لڑکی ہیں ،اپنےگھر کاآٹا گوندھتے گوندھتے سوجاتی ہیں اور بکری آکر وہ آٹا کھاجاتی ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر رسول اللہﷺمنبر پر رونق افروز ہوئے اور عبد اللہ بن ابی بن سلول سے جواب طلب کیا ، رسول اللہﷺنے منبر پر فرمایا: اے مسلمانوں کے گروہ! اس آدمی کی طرف سے مجھے کون جواب دے گا جس کی طرف سے مجھے اپنےاہل خانہ کے معاملہ میں اذیت پہنچی ہے ، اللہ کی قسم! مجھے اپنی اہلیہ کے متعلق پاکیزگی کے سوا اور کسی چیز کا علم نہیں ہے اور جس مرد کا انہوں نے ذکر کیا ہے مجھے اس کے بارے میں بھی پاکیزگی کے سوا اور کسی چیز کاعلم نہیں ہے ، وہ جب بھی میرے گھر گیا میرے ساتھ گیا ، حضرت سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں آپ کو اس آدمی کی طرف سے جواب دیتا ہوں ، اگر وہ آدمی قبیلہ اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مار دیں گے اور اگر وہ ہمارے بھائی خزرج میں سے ہو تو آپ اس کے متعلق حکم دیں ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے ، حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے ، وہ خزرج کے سردار تھے اورنیک آدمی تھے ، لیکن قبائلی تعصب نے ان کو بھڑکا دیا ، انہوں نے حضرت سعد بن معاذ سے کہا: تم نے جھوٹ بولا ، اللہ کی قسم! تم اس کو قتل نہیں کروگے اور نہ کرسکوگے ، حضرت سعد بن معاذ کے چچازاد حضرت اسید بن حضیر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے حضرت سعد بن عبادہ سے کہا: تم نے جھوٹ بولا ، اللہ کی قسم! ہم اس کو ضرور قتل کریں گے ، تم خود بھی منافق ہو اورمنافقوں کی طرف سے لڑ رہے ہو، پھر اوس اور خزرج دونوں قبیلے جوش میں آگئے اور ایک دوسرے پر لڑنے پر تیار ہوگئے ، اس حال میں کہ رسول اللہﷺمنبر پر کھڑے ہوئےتھے ، پھر رسول اللہﷺان کو مسلسل ٹھنڈا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ لوگ خاموش ہوگئے ، اور رسو ل اللہﷺبھی خاموش ہوگئے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سارا دن روتی رہی ، میرے آنسو نہ تو رکے اور نہ ہی میں نے نیند کو سرمہ بنایا اور میرے والدین یہ خیال کررہے تھے کہ اس قدر رونے سے میرا جگر پھٹ جائے گا ، پھر جس وقت میرے والدین میرے پاس بیٹھےتھے اۃر میں رو رہی تھی ، انصار کی ایک خاتون نے آنےکی اجازت مانگی ، میں نے اس کو اجازت دے دی ، وہ بھی بیٹھ کر رونے لگی : ابھی ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہﷺہمارے پاس تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب سے میرے بارے میں یہ باتیں بنائی گئی تھیں ، آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک ماہ سے میرے متعلق آپ کے پاس کوئی وحی نہیں آئی تھی ، پھر رسول اللہﷺنے بیٹھ کر کلمہ شہادت پڑھا ، پھر فرمایا: اے عائشہ! مجھے تمہارے متعلق ایسی ایسی خبر پہنچی ہے ، اگر تم (اس تہمت سے) بری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری برات ظاہر فرمادے گا اور اگر تم اس گناہ میں ملوث ہوگئی ہو تو اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کرو، کیونکہ جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرے اور پھر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے ، جب رسول اللہﷺنے اپنی بات ختم کرلی تو میرے آنسو خشک ہوگئے یہاں تک کہ مجھے ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوا،میں نے اپنے والد سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہﷺکو ان کی باتوں کا جواب دیجئے ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم!مجھے پتا نہیں کہ میں رسول اللہﷺسے کیا کہوں ، میں نے اپنی والدہ سے کہا: کہ آپ میری طرف سے رسول اللہﷺکوجواب دیجئے ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میں رسول اللہﷺسے کیا کہوں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں ایک کم عمر لڑکی ہوں ، میں بہت زیادہ قرآن مجید نہیں پڑھتی ، اللہ کی قسم مجھے یہ معلوم ہے کہ تم لوگوں نے اس تہمت کو سن لیا ہے اور یہ تم لوگوں کے دلوں میں جم گئی ہے اور تم نے اس کی تصدیق کردی ہے ، اگر میں تم سے یہ کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے کہ میں بری ہوں تو تم میری تصدیق نہیں کروگے اور اگر میں اس گناہ کا اعتراف کرلوں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے میں اس گناہ سے بری ہوں ، تو تم میری تصدیق کروگے اور یقینا اللہ کی قسم! میں اپنے اور تمہارے درمیان صرف حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کی مثال پاتی ہوں ، جنہوں نے کہاتھا : میں صبرجمیل کرتا ہوں اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کے خلاف میں نے اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کی ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں جاکر لیٹ گئی اور اللہ کی قسم! مجھے یہ یقین تھا کہ میں بری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برات کو ظاہر کردے گا اور اللہ کی قسم! یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق قرآن مجید میں وحی نازل فرمائے گا اور میں اپنی حیثیت اس سے کم سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق ایسا کلام نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی ، لیکن مجھے یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺکو نیند میں کوئی ایسا خواب دکھادے گا جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرمائے گا ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم! ابھی رسول اللہﷺاپنی مجلس سےاٹھے بھی نہ تھے اور نہ ہی اٹھنے کا ارادہ کیا تھا اور نہ گھر والوں میں سے کوئی اور باہر گیا تھا ، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺپر وحی نازل فرمائی اور نبی ﷺپر نزول وحی کے وقت جو شدت طاری ہوتی تھی وہ طاری ہوگئی ، یہاں تک کہ اس انتہائی سرد دن میں بھی آپﷺسے پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح ٹپکنے لگے ، جب رسول اللہﷺسے وہ کیفیت دور ہوئی ، تو آپ ہنس رہے تھے ، اور آپﷺنے جو پہلی بات کی وہ یہ تھی : اے عائشہ ! تم کو مبارک ہو،اللہ تعالیٰ نے تمہاری برأت ظاہر کردی ، میری والدہ نے مجھ سے کہا: آپﷺکے سامنے کھڑی ہو ، میں نے کہا: میں صرف اللہ کے سامنے کھڑی ہوں گی اور میں صرف اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کروں گی جس نے میری برأت نازل فرمائی : اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی تھیں: " بے شک تم لوگوں میں سے جس جماعت نے تہمت لگائی ہے " یہ دس آیات تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے میری برأت میں نازل فرمایا ،حضرت ابو بکر مسطح سے قرابت اور اس کے فقر کی وجہ سے اس کو خرچ دیا کرتے تھے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: مسطح نے عائشہ پر تہمت لگائی ہے اللہ کی قسم! اس کے بعد اس کوکبھی خرچ نہیں دوں گا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : " اور تم میں جو لوگ صاحب فضل اور صاحب وسعت ہیں وہ یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے اور انہیں چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں ، کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا ہے بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔ عبد اللہ بن مبارک نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق قرآن میں سب سے زیادہ امید افزاء یہ آیت ہے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے ، پھر انہوں نے حضرت مسطح کو وہ خرچ دینا شروع کردیا جو وہ پہلے دیا کرتے تھے اورکہا: میں اس خرچ کوکبھی نہیں روکوں گا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺکی زوجہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺنے میرے اس معاملہ کے متعلق دریافت کیاکہ ان کوکیا علم ہے ؟ انہوں نے کیا دیکھاہے ؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے کانوں اور آنکھوں کو محفوظ رکھتی ہوں ، اللہ کی قسم ! مجھے ان کے متعلق پاکیزگی کے سوا اور کچھ علم نہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ حضرت زینب ہی نبی ﷺکی ازواج میں میری ٹکر کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کےتقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے محفوظ رکھا ، مگر ان کی بہن حضرت حمنہ بنت جحش ان سے لڑیں اور تہمت کی ہلاکت میں مبتلا ہونے ۃوالوں دوسرے لوگوں کے ساتھ مبتلا ہوگئیں ، زہری کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جو اس جماعت کے معاملہ کے متعلق ہم تک پہنچی ہے اور یونس کی روایت میں ہے کہ حضرت حمنہ کو تعصب نے تہمت لگانے پر ابھارا تھا۔


وَحَدَّثَنِى أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِىُّ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ح وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ الْحُلْوَانِىُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِى عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ كِلاَهُمَا عَنِ الزُّهْرِىِّ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ وَمَعْمَرٍ بِإِسْنَادِهِمَا. وَفِى حَدِيثِ فُلَيْحٍ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ كَمَا قَالَ مَعْمَرٌ. وَفِى حَدِيثِ صَالِحٍ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ. كَقَوْلِ يُونُسَ وَزَادَ فِى حَدِيثِ صَالِحٍ قَالَ عُرْوَةُ كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُولُ فَإِنَّهُ قَالَ فَإِنَّ أَبِى وَوَالِدَهُ وَعِرْضِى لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ وَزَادَ أَيْضًا قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ وَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِى قِيلَ لَهُ مَا قِيلَ لَيَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ فَوَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ مَا كَشَفْتُ عَنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ. قَالَتْ ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذَلِكَ شَهِيدًا فِى سَبِيلِ اللَّهِ. وَفِى حَدِيثِ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مُوعِرِينَ فِى نَحْرِ الظَّهِيرَةِ وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مُوغِرِينَ. قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ مَا قَوْلُهُ مُوغِرِينَ قَالَ الْوَغْرَةُ شِدَّةُ الْحَرِّ.

A Hadith like that of Yunus and Ma'mar (no. 7020) was narrated from Az-Zuhri with their chain of narrators. In the Hadith of Salih it adds: "'Urwah. said:' 'Aishah did not like Hassan to be reviled in her presence, and she said: "He said: 'My father, my mother and my honor are all to defend the honor of Muhammad against you."' He also added: "'Urwah said: ''Aishah said: "By Allah, the man against whom the allegation was made said: 'Subhan-Allah, by the One in Whose Hand is my soul, I never unveiled any woman.' Then after that he was killed as a martyr in the cause of Allah."

یہ حدیث دو مزید سندوں سے مروی ہے ، فلیح کی روایت میں ہے :اس کو تعصب نے جاہل بنادیا ، اور صالح کی روایت میں ہے : اس کو تعصب نے ابھارا ہے ، اس کے علاوہ صالح کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حسان کو برا کہنا ناپسند کرتی تھیں (حضرت حسان بھی تہمت لگانے والوں میں سے تھے) اور فرماتی تھیں کہ حسان کایہ شعر ہے:" بے شک میرے والد، میری ماں ، اور میری عزت محمد ﷺکے عزت کے تحفظ کے لیےہیں ، اس کے علاوہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے: اللہ کی قسم! جس آدمی کے ساتھ یہ تہمت لگائی گئی (یعنی حضرت صفوان بن معطل ) وہ کہتے تھے : سبحان اللہ! اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نے کبھی کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اس واقعہ کے بعد وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ، یعقوب بن ابراہیم کی روایت میں ہے :"موعرین فی نحو الظہیرۃ " اور عبد الرزاق نے " موغرین" روایت کیا ، عبد بن حمید کہتے ہیں : میں نے عبد الرزاق سے پوچھا: "موغرین " کا کیا معنی ہے ؟ انہوں نے کہا: " وغر" کا معنی ہے سخت گرمی۔


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِى الَّذِى ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ « أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَىَّ فِى أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِى وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِى مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَلاَ دَخَلَ بَيْتِى قَطُّ إِلاَّ وَأَنَا حَاضِرٌ وَلاَ غِبْتُ فِى سَفَرٍ إِلاَّ غَابَ مَعِى ». وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَفِيهِ وَلَقَدْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بَيْتِى فَسَأَلَ جَارِيَتِى فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلاَّ أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ عَجِينَهَا أَوْ قَالَتْ خَمِيرَهَا - شَكَّ هِشَامٌ - فَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اصْدُقِى رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلاَّ مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الأَحْمَرِ. وَقَدْ بَلَغَ الأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِى قِيلَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ عَنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ. قَالَتْ عَائِشَةُ وَقُتِلَ شَهِيدًا فِى سَبِيلِ اللَّهِ. وَفِيهِ أَيْضًا مِنَ الزِّيَادَةَ وَكَانَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا بِهِ مِسْطَحٌ وَحَمْنَةُ وَحَسَّانُ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ فَهُوَ الَّذِى كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِى تَوَلَّى كِبْرَهُ وَحِمْنَةُ.

It was narrated that 'Aishah said: "When the rumors spread about me, I did not know about it. The Messenger of Allah (s.a.w) stood up to deliver a Khutbah. He recited the Tashah-hud and he praised Allah as He deserves to be praised, then he said: 'Advise me with regard to some people who have made false charges against my wife, for by Allah I do not know anything bad about my wife at all. And they have made false charges concerning a man about whom, by Allah, I do not know anything bad at all, and who never entered my house except when I was present, and I was never absent on a journey but he was absent with me..." And he quoted the Hadith, in which it says: "The Messenger of Allah (s.a.w) entered my house and asked my slave woman, and she said: 'By Allah, I do not know of any fault in her except that she falls asleep and the sheep comes in and eats her dough – or her yeast"' - Hisham was not sure. "Some of his Companions scolded her and said: 'Tell the Messenger of Allah (s.a.w) the truth,' and they referred bluntly to this matter. She said: 'Subhan-Allah, by Allah I do not know anything about her but what the goldsmith knows about a piece of pure gold.'" "News of that reached the man concerning whom these things were being said, and he said: 'Subhan-Allah, by Allah I have never unveiled any woman."' 'Aishah said: "He was killed as a martyr in the cause of Allah, Glorified and Exalted is He." It is also narrated that those who spoke of it were Mistah, Hamnah and Hassan. As for the hypocrite 'Abdullah bin Ubayy, he is the one who collected false rumors and spread them further. And he is the one who took the lead in that, along with Hamnah.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب میرے بارے میں ایک بات کہی گئی اور جو مجھے اس کے حوالے معلوم ہوا ، تو رسول اللہﷺنےکھڑے ہوکر خطبہ دیا ، کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی ، پھر فرمایا: مجھے ان لوگوں کے متعلق مشورہ دو جنہوں نے میری اہلیہ پر تہمت لگا ئی ہے ، اللہ کی قسم !میں نے اپنی اہلیہ پر کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی اورجس آدمی کے ساتھ انہوں نے تہمت لگائی ہے اللہ کی قسم ! مجھے اس میں بھی کسی برائی کا علم نہیں ہے ، وہ جب بھی میرے گھر داخل ہوا میرے ساتھ داخل ہوا اور میں جب کبھی گھر سے باہر گیا تو وہ میرے ساتھ باہر گیا ، ا س کے بعد حسب سابق مروی ہے اور اس روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہﷺمیرے گھر تشریف لے گئے ، اور میر ی باندی سے پوچھا: اس نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے ان کے متعلق اس کے سوا اور کسی عیب کا علم نہیں ہے،کہ وہ سوجاتی ہیں اور بکری آکر آٹا کھاجاتی ہے ، ہشام راوی کو شک ہے کے کہ عجین کہا یا خمیر کہا۔ آپﷺکے بعض اصحاب نے اس کو ڈانٹا اور کہا: رسول اللہﷺسے سچ بولو، یہاں تک کہ انہوں نے اس کو اس قول کی وجہ سے گرادیا ، اس نے کہا: سبحان اللہ ! اللہ کی قسم ! میں تو ان کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار خالص سونے کی سرخ ڈلی کو جانتا ہے ، اورجب اس آدمی تک یہ خبر پہنچی جس کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے کبھی کسی عورت کا کپڑا نہیں کھولا ،وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے تھے ، اور اس روایت میں یہ اضافہ بھی ہے ، جن لوگوں نے تہمت لگائی ان میں حضرت مسطح ، حضرت حمنہ اور حضرت حسان بھی تھے ، اور رہا عبد اللہ بن ابی منافق تو وہ اس تہمت کو ہوا دیتا تھا ، اور وہ اور حمنہ بھی اس تہمت کو سب سے زیادہ پھیلانے والے تھے۔

12